تھپڑ سے نہیں، مردہ ضمیر سے ڈر لگتا ہے صاحب!


تبدیلی حکومت کا پہلا بجٹ بھی پیش کر دیا گیا۔ بجٹ تقریر پر بحث جاری ہے اور آنے والا وقت بتائے گا کہ اس تقریر پر نحوست اور بد شگونی کے جو سائے منڈلا رہے تھے وہ ہمیں کہاں لے کر جائیں گے۔

تقریر کی ریکارڈنگ بے حد ناقص تھی۔ پسِ منظر میں لگی قائداعظم کی تصویر بار بار فریم سے کٹ رہی تھی۔ وزیر اعظم کا انداز بے حد جارحانہ تھا، وہ اپوزیشن کی شکایتیں لگا رہے تھے اور ان کو دھمکیاں دے رہے تھے۔ اپنی ریاست کو ریاستِ مدینہ بتانے کے ساتھ ساتھ اسلامی تاریخ کے اہم عسکری معاملات پر اپنی بے لگام اور بے تکان رائے بھی دے رہے تھے۔

بجٹ تقریر میں تاریخی عسکری معاملات کے حوالے بین السطور بہت کچھ سمجھا رہے تھے۔ این آر او نہ دینے کی دھمکی سے بجٹ کا کیا تعلق ہے؟ اس معاملے پر محقق صدیوں سر کھپائیں گے۔ پہلے سے ریکارڈ کی گئی تقریر میں اچانک آواز غائب ہو جانا، سیاست کے طالب علموں اور میڈیا سائنسز کے محققوں کے لئے مزید بہت سا کام بڑھا گیا۔

بجٹ تقریر کا لبِ لباب یہ تھا کہ پاکستانی عوام سب سے کم ٹیکس دیتے ہیں اس لیے ان سے خوب ٹیکس لیا جائے گا۔ باقی باتیں وہی تھیں جو ہم سالہا سال سے سن رہے ہیں۔ بس اب کی بار اتنا ہوا کہ ملک کے سربراہ کا لہجہ پہلے سے بھی کہیں زیادہ غیر مہذب بلکہ چڑچڑا تھا۔ تقریر کے بعض حصوں پر بہت سے مکاتبِ فکر کو باقاعدہ رنج پہنچا ہے۔

یہ خیالات آپ کے ذاتی ہو سکتے ہیں لیکن ایک ریاست کے سربراہ کے طور پر جہاں اقلیت کے جذبات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے یوں اکثریت کے جذبات کو مجروح کرنا ایک منتخب وزیرِاعظم کی ایسی سیاسی غلطی ہے جو اس کے لیے عوامی سطح پر مشکلات بھی پیدا کر سکتی ہے۔

تعلیم کے بجٹ میں کی گئی کٹوتی قابلِ تشویش ہے۔ جو حکومتیں ٹیکس لیتی ہیں وہ اسی ٹیکس سے عوام کو سہولیات بھی فراہم کرتی ہیں۔ ان سہولیات میں تعلیم اور صحت دورِ حاضر کی دو اہم ضروریات ہیں۔

ان ہی دو سہولیات کی مناسب فراہمی نہ ہونے کے باعث آج پاکستان کے شہر بے ہنگم طور پر بڑھ گئے ہیں۔ نجی تعلیمی ادارے پہلے ہی بہت مہنگے ہیں، سرکاری اداروں کا دم گھونٹ کے کوئی اچھا قدم نہیں اٹھایا گیا۔ کم سے کم میں اپنے دیے گئے ٹیکس میں سے تعلیمی اخراجات کی اس کٹوتی کے حق میں بالکل نہیں۔

ڈالر کی قیمت کی عمودی پرواز ملکی معیشت کے سب پول کھول رہی ہے۔ بیٹھے بٹھائے قرضوں کا بوجھ روئی کے بوجھ کی طرح بڑھے جا رہا ہے۔

بجٹ تقریر کی بازگشت ابھی جاری تھی کہ وزیر اعظم کی ایک بین الاقوامی فورم پر سفارتی آداب سے ناواقفیت پر لے دے شروع ہو گئی۔ چونکہ اردو کا محاورہ باقی زبانوں سے فرق ہے اس لیے ہم دنیا کو کیسے بتائیں کہ جو باپ کو باپ نہیں کہتا، وہ پڑوسی کو چچا کیسے کہے گا؟ خیر یہ بات تو ہم اپنے ملک کے نوجوانوں کو بھی نہیں بتا سکتے۔

سوشل میڈیا پر گالیاں بکتے ایک ایسے ہی نوجوان کو بدزبانی کی وجوہات پر ملازمت سے برخاست کر دیا گیا۔ یہ خطرے کے نشان سے آگے بولتے، بکتے، جھکتے لوگوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ تہذیب، روایات اور ادب آداب ہمارے قومی مزاج کا حصہ ہونا چاہیے۔ یہ تربیت گھر سے شروع ہوتی ہے اور گلی کوچوں سے ہوتی درس گاہوں تک جاتی ہے۔

نئی نسل کی تربیت میں والدین، اساتذہ، دوست احباب، مذہبی رہنما اور سیاسی رہنما سب شامل ہوتے ہیں۔ خاندان کے بزرگ،رہنما اور مشاہیر کی شخصیات کو مثالی ہونا چاہیے۔ محترم فواد چوھدری صاحب نے سمیع ابراہیم کو جس طرح بھری محفل میں طمانچہ مار کے موجودہ حکومت کے اخلاق کا جنازہ نکالا ہے اس پر افسوس کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے؟

ابے تبے، اوئے توئے سے شروع ہونے والا سیاسی بدزبانی کا کلچر تھپڑ تک آ پہنچا ہے۔ احتساب کا نعرہ لگانے والوں کے سامنے ایک کے بعد ایک ٹیسٹ کیس آ رہے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ وزیرِاعظم ملک کے مالی معاملات درست کرنے میں اتنے مصروف ہیں کہ تعلیم و تربیت ان کی ترجیحات سے نکل چکی ہے۔ تعلیم کا بجٹ ویسے ہی کم کر دیا گیا ہے اور تربیت تو جو کی جارہی ہے سامنے ہی ہے۔

سنا ہے ملک مالی طور پر دیوالیہ ہو رہا ہے۔ اس کے لیے ذمہ دار سابقہ حکومتیں ہیں اور انھوں نے یہ کارِ خیر کیسے سر انجام دیا اس کے لیے محترم وزیرِاعظم صاحب ایک کمیشن بھی بنائیں گے۔

بالکل درست فرمایا لیکن میرے عزیز ہم وطنو! ہم اخلاقی طور پر مکمل دیوالیہ ہو چکے ہیں اور اس کے لیے کون ذمہ دار ہے؟ فواد چوھدری صاحب کا یہ طمانچہ سمیع ابراہیم کے منہ پر نہیں ہماری گلتی سڑتی اخلاقی اقدار کے منہ پر اور ان سب کے منہ پہ پڑا ہے جو آ ج بھی بدتہذیبی کے دفاع میں مزید بدتہذیبی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
تھپڑ سے نہیں، آ پ سب کے مردہ ضمیر سے ڈر لگتا ہے صاحب!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).