کرکٹ کا جنون اور ہمارے ارمانوں کا خون


اس میں کوئی شک نہیں کہ مذہب اور قومی زبان کے علاوہ تیسری اہم ترین چیز کرکٹ کا کھیل ہے جس نے پاکستانی قوم کو باہم مربوط اور جوڑ کر رکھا ہوا ہے۔ پاکستانی قوم کرکٹ اور کرکٹ سٹارز کی دیوانی ہے۔ مرد، خواتین، بچے، معمر افراد سبھی کرکٹ کے بخار میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ بات کرکٹ کی ہو اور موقع عالمی کپ کے سنسنی خیز اور دلچسپ مقابلوں کا ہو اور میچ پاک انڈیا کی روایتی حریف ٹیموں کے درمیان ہو تو سرحد کے دونوں طرف جنگ کی سی کیفیت برپا ہوجاتی ہے۔ بلاشبہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کھیلا جانے والا میچ ایک ارب سے زائد شائقینِ کرکٹ دیکھتے ہیں اور اپنی اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کو دل کھول کے اور ہاتھ چھوڑ کے داد دیتے ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم انڈیا سے کسی اور میدان میں جیتیں نہ جیتیں مگر کرکٹ میں فتح حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ مگر شومیء قسمت کہ ہم آج تک ورلڈ کپ کا کوئی میچ انڈیا سے نہیں جیت نہیں سکے۔ حالیہ پاک انڈیا میچ کے حوالے سے بھی بالخصوص پاکستانی میڈیا نے جذباتیت اور جوش و جنون کا ایک خاص ماحول بنائے رکھا۔ بیشتر ٹی وی چینلز نے دونوں ممالک کے کرکٹ ماہرین اور سابق کھلاڑیوں پر مشتمل پینلز کی ماہرانہ اور ناقدانہ آرا کو پاک بھارت ٹاکرے اور کرکٹ کے سب سے بڑے مقابلے کے طور پر پیش کیا۔

میں نے بہت سے چینلز پر چیدہ چیدہ یہ ”ٹاکرے“ اور ملاکھڑے دیکھے مگرافسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سوائے ایک آدھ چینل کے باقی تمام چینلز پر ہم میدان سے باہر بھی انڈیا سے بری طرح ہارے ہیں۔ ٹی وی چینلز پر بھی ہمارے بعض ”ماہرین“ سوشل میڈیائی مجاہدین کی طرح نہایت جذباتی اور غیر منطقی انداز میں دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کا موازنہ پیش کر کے خود فریبی کے مرض میں مبتلا نظر آئے۔ جب کہ انڈین ماہرین کی آرا نہایت پیشہ ورانہ، سلجھی ہوئی اور معیاری تھیں۔

ان کا لب و لہجہ، اندازِ گفتار اور اسلوب بھی مہذب اور شائستہ تھا۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ انڈین ٹیم کے کھلاڑی پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں کے مقابلے میں بیٹینگ، بالنگ اور فیلڈنگ کے شعبوں کے علاوہ دماغی اور اعصابی حوالے سے بھی بہت مضبوط ہیں۔ سوشل میڈیا پر میچ سے قبل ہی کرکٹ کی معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والے بھی یہ کہہ رہے تھے کہ انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کو ایک ہی چیز شکست سے بچا سکتی ہے اور وہ ہے بارش۔ کچھ جذباتی، غیر حقیقی سوچ کے حامل اور رومان پسند طبیعت کے مالک ”محبِ وطن“ مجاہدین نے اس حقیقت پسندانہ نقطہء نظر کو وطن دشمنی اور غداری سے تعبیر کر کے دل کی بھڑاس نکالی۔

رہی سہی کسر ہمارے عجوبہ روزگار وزیر اعظم صاحب نے پوری کر دی۔ جس طرح وہ اور ان کے حواری دس ماہ سے ٹویٹر پر حکومت چلا رہے ہیں اسی طرح وزیر اعظم صاحب نے اپنی غیر پیشہ ورانہ اور انوکھی رائے کے ذریعے میچ بھی ٹویٹر پرہی جیتنے کی بھونڈی کوشش کی۔ وزیر اعظم کھلاڑی ضرور ہیں مگر نہ کارِ حکمرانی کھیل ہے اور نہ ان کا منصب ایسا ہے کہ وہ عام کرکٹر یا ناقدین کی طرح ٹویٹر پر اوٹ پٹانگ مشورے دیتے پھریں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ کپتان سرفراز نے وزیراعظم کے مشوروں کو چنداں اہمیت نہیں دی۔

جناب وزیر اعظم جب کپتان کو عین میچ کے آغاز میں یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ریلوں کٹّوں کے بجائے تجربہ کار اور منجھے ہوئے کھلاڑیوں پر انحصار کریں تو بندے کا یہ سوال پوچھنے کو دل کرتا ہے کہ جب پی سی بی کے سرپرستِ اعلٰی آپ خود ہیں تو پھر اس ٹیم میں ریلو کٹے سلیکٹ کیسے ہو گئے؟ سب کو یاد ہوگا کہ 2017 میں آئی پی ایل کے کسی میچ میں مریم اورنگ زیب پی ٹی وی پربیٹھ کر ماہرانہ رائے دے رہی تھیں تو عمران خان نے ایک طوفانِ بد تمیزی برپا کر دیا تھا کہ مریم کو کیا پتہ کرکٹ کا؟

مگر آج سوئے اتفاق دیکھیے کہ موجودہ حکومت کی مشیر اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان اسی پی ٹی وی پر بیٹھ کر پاکستانی کھلاڑیوں کو کرکٹ کے اصول بتا رہی تھییں۔ یہ بات توزیادہ پرانی نہیں ہوئی کہ جب ہمارے موجودہ وزیر اعظم نے یہ سنہری قول پیش کیا تھا کہ جب ٹیم ہار رہی ہو تو اس کا ذمہ دار ملک کا وزیر اعظم ہوتا ہے۔ اپنے اس قولِ زریں کے تناظر میں وہ انڈیا سے ذلت آمیز شکست کی ذمہ داری قبول کریں گے؟ نواز شریف کے وزارتِ عظمٰی کے دور میں تو پاکستان نے انڈیا کو چمپئین ٹرافی کے فائنل میں شکست دی تھی۔

کرکٹ ہی پر موقوف نہیں فی زمانہ ہر کھیل ایک میگا سائنس اور آرٹ بن چکا ہے۔ ہمارا کرکٹ کا ڈھانچہ ہی درست خطوط پر استوار نہیں ہے۔ پی سی بی میں چئیرمین سمیت بے شمار لوگ ایسے ہیں جو کرکٹ کی الف ب سے بھی واقف نہیں۔ اقربا پروری، کرپشن اور نظم و ضبط اور پیشہ ورانہ اہلیت کا فقدان ہمیشہ سے کرکٹ بورڈ کا مسئلہ رہا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہماری سلیکشن کمیٹی، مینجمنٹ اور کوچنگ سٹاف بھی کوئی دیرپا حکمتِ عملی کے بجائے چلاؤ کام پر یقین رکھتے ہیں۔

اوپر سے ہینڈسم وزیر اعظم کے پانچ پانچ ٹویٹز بھی روایتی ریلو کٹّوں کی کارکردگی بہتر نہیں بتا سکیں۔ عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد ہماری ٹیم ایشیا کپ کے علاوہ نیوزی لینڈ سے ہوم سیریز بھی ہاری ہے اور افغانستان سے بھی شکست کھا گئی۔ پی سی بی میں سفارشیوں اور پرچی والوں کی بھرمار ہے۔ نئے پاکستان میں ہر جگہ سفارش اور اقربا پروری کا کلچر پروان چڑھ چکا ہے۔ ہر ادارہ اور شعبہ رُو بہ زوال ہے ایسے میں اگر کرکٹ کا بیڑا غرق ہو گیا تو حیرت کیسی؟ انڈیا سے ذلت آمیز شکست کے بعد قوم کے ارمانوں کا خون تو ہوا ہے مگر ایک لحاظ سے اچھا بھی ہوا کہ جو خوش فہم کچھ دن پہلے تک ٹیم میں 92 ورلڈ کپ والی نشانیاں دیکھ رہے تھے، یک دم لاہور قلندر والی نشانیاں ظاہر ہونے پر اپنے اپنے کام دھندوں میں لگ جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).