’’ شنگریلا کی تلاش‘‘ سے ایک اقتباس


مانسرورجھیل سے نکل کر کھر منگ کے مقام پر پاکستان میں داخل ہونے والا شیر دریا اپنی منزلوں کی طرف گامزن تھا۔ لگتا تھا جیسے ہم اُس کی دُم پر سوار اُس کے ساتھ ساتھ آگے بڑھ رہے تھے۔

وقار کچھ پھرتیاں دکھا رہا تھا اُس کی رفتار کو کم کرنے کا طریقہ یہی تھا کہ میں اُسے باتوں میں الجھائے رکھوں۔

اب اُس نے سگریٹ بھی سلگا لی تھی۔

میں نے پھر پوچھا وقار یہ سگریٹ تمہارے اور جنت کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنے گی۔

کہنے لگا

” کیوں سر؟ “

” یار جنت میں تو نہیں ملے گی۔ “

” جنت میں کیوں نہیں ملے گی۔ ملے گی ضرور۔ “

” اچھا مل بھی گئی تو سلگانے کے لئے تو دوزخ میں جانا پڑے گا۔ “

” وہ کوئی مسئلہ نہیں عابد بھائی ہوں گے ناں وہاں گیٹ پر آکر سلگا کر پکڑا جایا کریں گے۔ “

عابد نے اُسے دیکھا، غصے سے اُس کے گال سرخ ہو گئے تھے۔

”یہ جتنے بھی پٹھان ڈرائیور ہیں یہ جنت میں ویسے ہی اپنے بال نوچتے پھریں گے۔ “

”کیوں بھئی؟ “

” جنت میں کون سا چرس کے پودے ہوں گے۔ “

” کیوں نہیں ہوں گے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ جنت میں اللہ ساری نعمتیں دے گا۔ تو چرس کے پودے بھی ہوں گے۔

اور اگر نہ بھی ہوں تو دوزخ میں تو چرس ضرورملے گی۔ کئی سمگلر بھی تو ہوں گے ناں وہاں۔ عابد اُن سے لے کر مجھے دے دے گا۔ چرس ہی تو ہے جو اسے دوزخ میں سکون دے گی۔ ”

” لا حول پڑھو یار وقار۔ “

ہم باتوں میں مصروف تھے کہ ایک مزدا وین گولی کی طرح ہمارے قریب سے گزری کہ ہماری گاڑی ڈول گئی۔

وقار نے ایک خوبصورت سی گالی اپنی زبان میں نکالی۔

مزدا یہاں کثرت سے پائی جاتی ہے۔ اور مقامی لوگ اسے آمدورفت کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ مزدا کے ڈرائیوروں نے ان گاڑیوں کو سجا سنوار کران کے ناز نخرے برداشت کرنا خوب سیکھ لئے ہیں۔ اور پھر ان بیچاریوں سے نا صرف اپنی خدمتوں کا عوضانہ ان بل کھاتی سڑکوں پر دوڑا دوڑا کر اور لہرا لہرا کرلیتے ہیں بلکہ ان کے کردار کی ساری پاکیزگی کی جانچ پڑتال بھی انہی بل کھاتی سڑکوں پرکرتے ہیں۔

ٹرک یہاں کا دوسرا کردار ہے۔ دور سے آتے یوں دکھائی دیتے ہیں جیسے بھنگ پی کر نکلے ہوں۔ یہ اپنی مرضی کے مالک ہوتے ہیں جہاں چاہا رک گئے، جہاں چاہا سست ہو گئے اور جہاں چاہا رفتار تیز کر دی۔

مجھے لگتا ہے خطرناک سڑکوں پر ڈرائیور ٹرک اپنے شاگرد کے حوالے کر دیتے ہیں اور خود سکون سے سوتے ہیں۔

یہ کہاں کے ہوتے ہیں، کہاں سے آتے ہیں اور کہاں کو جاتے ہیں آپ کچھ نہیں کہہ سکتے۔

ایک ملک ہونے کے باوجود یہ ہر جگہ مختلف اشکال کے پائے جاتے ہیں۔ یہاں جو ملتے ہیں وہ منگولی ٹھگنے اونٹ نما ہوتے ہیں۔

دور سے دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید یہ اپنا بوجھ بھی نہیں اُٹھا سکتے لیکن جب پاس آتے ہیں تو لگتا ہے کہ ساری کائنات کو سر پر اٹھائے پھرتے ہیں۔ انہیں جھومتے جھامتے دیکھ کر بندے کا خودجھومنے کو جی چاہتا ہے لیکن جب پا س آتے ہیں تو ان کی جھانجروں کی ایسی چھن چھن سنائی دیتی ہے کہ بندا سمجھتا ہے شاید پری بدیع ا لجمال اپنی سہیلیوں کے ہمراہ آ نکلی ہو۔

ہمارے آگے ایک ٹرک تھا جو نہ خود تیز چلتا تھا نہ ہمیں راستہ دیتا تھا۔ اس کی نمبر پلیٹ سے اوپر ایک تختی پر لکھ رکھا تھا۔

آج کلی ہے کل گلاب ہوگا

مجھ سے شادی کر لو ثواب ہو گا

ہم اسکردو روڈ کے اُسی ویرانے میں تھے جہاں میں نے گول اور ہموار سطح کے حامل پتھر دیکھے تھے۔

” سر یہ جو پتھر ہیں ناں یہ باقی سب پتھروں سے الگ تھلگ ہیں۔ یہ بھی جن ہیں۔ بڑے بتاتے تھے کہ یہ پتھر وہ جن ہیں جنہوں نے دیوسائی میں گناہ کیا اور دیوؤں کے سردار نے انہیں پتھر بنا کر یہاں پھینک دیا۔ “

وقار نے گول، ہموار اور سرخ پتھروں کو دیکھ کر کہا۔

”رکو۔ وہ پیچھے کوئی سڑک پر بیٹھا تھا۔ “

” ملنگ ہے سر۔ یہ اس علاقے میں اکثر ملتا ہے کبھی یہاں کبھی وہاں۔ کسی کو نہیں پتہ کون ہے یہ۔ لوگ رنگ رنگ کی کہانیاں سناتے ہیں اس کے بارے میں۔ زیادہ تر لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کو ایک پری سے عشق ہوگیا تھا۔ بس ایک ہی دفعہ پری کودیکھا تھا تو یہ دیوانہ ہو گیا۔ “

وقار نے گاڑی کو پیچھے کرتے ہوئے کہا۔

میں اتر کر اُس شخص کے پاس گیا۔ وہ ایک گندی سی چٹائی پر اُکڑوں بیٹھا زمین پر کچھ لکیریں کھینچ رہا تھا۔ اُس کی داڑھی خار دار جھاڑیوں کی طرح بڑھی ہوئی تھی۔ اُس کے کپڑے میل سے اٹے تھے۔ میں نے ایک سو روپے کا نوٹ اُُس کی چٹائی پر رکھا تو وہ سر اوپر اٹھا کر چلایا۔

” ناں ناں۔ “

پھر اُس نے نوٹ اٹھا کر زمین پر مٹی میں اس طرح ملنا شروع کر دیا جیسے اُس کی حیثیت ہی ختم کر دے گا۔ اُس کی گول گول آنکھوں میں سرخ چنگاریاں بھری تھیں۔ اور منہ سے پانی بہہ رہا تھا۔ پھر اُس نے وہ نوٹ اپنے دانتوں میں لے کر یوں پھاڑا کہ جیسے کوئی بھوکا شکاری اپنے شکار کے جسم سے ایک ایک بوٹی نوچ لیتاہو۔ خوف کی وجہ سے میرا رواں رواں تڑپ رہا تھا۔ میری ٹانگیں تھیں کہ ساکت ہو گئی تھیں۔ میرا دماغ سُن تھا اور میری آنکھیں اُ س کی حرکات کی گرفت میں تھیں۔ وقار نے مجھے پکڑ کر سڑک کی طرف کھینچتے ہوئے کہا۔

” مجذوب ہے سر۔ اس کو پیسوں سے کیا مطلب۔ “

”مگر اس ویرانے میں یہ کیسے۔ “

میں نے ارد گرد پہاڑوں میں کوئی بستی تلاش کرنے کی کوشش کی۔ جہاں اُس کا کوئی پیارا، کوئی اپنا رہتا ہو۔

” آپ نے سر ہنزہ میں بھی ایسے مجذوب دیکھے ہوں گے۔ کوئی مانے یا نہ مانے سر ان پر کسی نہ کسی شے کا سایہ ضرورہے۔ ورنہ سر یہ میلوں پیدل سفرکس طرح طے کرلیتے ہیں۔ یہ مجذوب کبھی اسکرود کے پاس ہوتا ہے کبھی عالم پُل پر۔ “

” مگر وقار یار۔ یہ اگر اس حالت میں نہ ہوتو بڑا خوبصورت جوان ہے۔ کسی ماں کا لاڈلا۔ کسی باپ کانورِ چشم۔ کسی بہن کا ویر۔ کسی دوشیزہ کا چاند۔ کیسے گہنایا گیا ہے۔ یار۔ سڑک پر پڑا ہے۔ بے یارو مددگار۔ جانے یہ چاند کس آ گ کی لپیٹ میں تھا۔ “

میں گاڑی میں بیٹھا خود کو اُس گرہن زدہ چاند کے بارے میں آنے والی سوچوں کے حملے سے آزاد کروانے کے لئے فطرت کے کمالات میں کھونے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ فطرت اپنے ہر رنگ میں۔ اُس نوجوان کے رنگ میں۔ پہاڑوں کے رنگ میں، وادیوں کے رنگ میں، دریاؤں اور جھیلوں کے رنگ میں کسی دبستان سے کم نہیں۔ ۔ یہ جو پہاڑ ہیں یہ مجھے احساس دلاتے ہیں کہ مجھے زندگی کے بلندیوں پر چڑھنا ہے۔ ہر صورت چڑھنا ہے اور انہیں مسخر کرنا ہے۔ راستے میں آئے پتھروں کو پھلانگتے جانا ہے۔

یہ سیٹیاں بجاتی ہوا جو میرے کانوں کو گدگداتی ہے مجھے طاقت دیتی ہے۔ مجھے تازگی دیتی ہے۔ مجھے آنے والے چیلنجز کے مقابلے کے لئے تیار کرتی ہے۔

یہ جو شفاف پانیوں کے جھرنے ہیں۔ یہ مجھے سمجھاتے ہیں۔ کہ حیات کا سفر بھی ایسا ہی ہے۔ شفاف۔ مایوسی سے پاک۔ منفیت سے کوسوں دور۔ راستے میں کیسے ہی حالات کیوں نہ ہوں۔ خوشی کے شفاف پانیوں کے ہمراہ بس چلتے رہنا اور پھر خود کو۔ اپنے حتمی انجام کے سپرد کر دینا۔

یہ باغیچے۔ یہ کھلیان میرے وجود کو رعنائی اور خوش بختی سے مزین کرتے ہیں۔

یہ پہاڑ اپنی بھوری آنکھوں سے دیکھتے بھی ہیں اور اپنے سرخ مساموں سے سونگھتے بھی ہیں۔ مگریہ خاموش رہتے ہیں اورمالکِ کائنات کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).