مریم نواز کی سیاسی حکمت عملی


پاکستانی سیاست کے افق پر 28 جولائی 2017 کے عدالتی فیصلے کہ بعد کے بدلتے سیاسی حالات کا جائزہ لیا جائے تو مریم نوازصاحبہ کی ذات سے کوئی کتنا ہی اختلاف کیوں نہ رکھتا ہواس ایک نقطہ پر سب متفق ہیں کہ وہ جس کو اس پارٹی کی کمزوری کہا جا رہا تھا اس نے اپنی کامیاب حکمت عملی سے خود کو اس پارٹی کی طاقت بنا کر پیش کیا۔

نامساعد حالات میں مریم صاحبہ نے پارٹی ووٹرز اور ورکرز کو نہ صرف جوڑ کے رکھا بلکہ مخالفین کی ہر بال کو اگلے قدموں پر آ کر پورے زور سے کھیلا۔ مخالفین کی طرف سے تو سنگ باری جاری ہی تھی اور شک اس میں بھی نہیں کہ خود مریم صاحبہ کی پارٹی بھی محترمہ کے نظریے کو لے کر اندر سے تین گروپس میں تقسیم ہو چکی تھی۔ ایک گروپ مریم صاحبہ کے ہر فیصلے کو اداروں سے محاذ آرائی کہہ کران کو چپ کرانے کی سر دھڑ کوشش میں تھا۔ دوسرے گروپ میں شامل لوگ مریم صاحبہ کے ہر فیصلے کو مکمل سپورٹ تو کرتے تھے مگر ساتھ ساتھ ان کوجارحیت کم کرنے کا مشورہ دیے بنا بھی نہیں رہتے تھے۔ اور تیسراگروپ ان لوگوں پر مشتمل تھا جو مریم صاحبہ کے ہر فیصلے سے مکمل طور پر خوش تھا۔

ان حالات میں مریم صاحبہ کا پہلے قدم پر آ کر کھیلنے کا فیصلہ بلاشبہ ہمت اور جرات کا فیصلہ تھا۔ یہ بات ان لوگوں کو سمجھانا مشکل نہیں جو پاکستانی سیاست کے رموز سے واقف ہیں۔ مریم نواز صاحبہ کے مختصر سیاسی سفر کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا مرحلہ 28 جولائی 2017 سے 25 جولائی 2018 پر محیط ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب مریم صاحبہ کا سیاسی طرز عمل باغیانہ تھا۔ ایک پارٹی کا قائد اور وزیر اعظم جب سپریم کورٹ سے اپنے خلاف آنے والے فیصلے کو سازش کہے تو با آسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ کس کو للکار رہا ہے اور جس کو للکاراجا رہا ہے اس کی تاریخ اور طاقت کیا ہے۔

جب پارٹی کی سینئر قیادت توہین عدالت سے لے کر کرپشن کے نت نئے الزامات کا سامنا کر نے کے لیے دن رات عدالتوں کے چکرکاٹ رہی تھی اس وقت کارکنوں کے درمیان پارٹی کے تشخص کو قائم رکھنے کا بیڑا مریم نوازصاحبہ نے اٹھائے رکھا۔ یہ مشکل وقت تھا گویا ایک جنگ تھی جو شدت سے جاری تھی۔ اگر پاکستانی سیاست کے ماضی کو دیکھا جائے تو مثالیں کثرت سے موجود ہیں کہ ایسی سیاسی جنگوں میں مہینے ہفتے توکیا سیاسی پارٹیاں کچھ دن بھی نہیں نکال سکتیں۔

ایسے نامساعد حالات میں پورے ملک میں پھیلا مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک اپنے ساتھ جوڑے رکھنا اور ان حالات میں جوڑے رکھنا جب میڈیا کا ایک خاص طبقہ دن رات یک طرفہ رپورٹنگ کر کے پارٹی کے تشخص کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑ رہا ہو آسان نہیں تھا۔ عوام کی نظر میں سپریم کورٹ کے پانچ معزز جج صاحبان کے متفقہ فیصلے کو اپنے خلاف سازش ثابت کرنا کوئی برتھ ڈے کیک نہ تھا جو چاقو نہ ملا تو انگلی سے کاٹ لیا۔

نواز شریف کے بیانیے کے نکات عام پاکستانی کی سوچ سے اوپر کے تھے اور ان نکات کی تشریح کا کام مریم نوازصاحبہ کے سر تھا۔ اب مریم نوازصاحبہ کو اس بیانیہ کا پرچار ایک ایسی قوم کے سامنے کرنا تھا جن کو پچھلے کئی سال سے یہ رٹا دیا گیا تھا کہ یہ جنگ صرف اور صرف کرپشن کے خلاف ہے۔ ہدف مشکل ہی نہیں ناممکن بھی لگتا تھا۔

مریم صاحبہ نے شروعات گھر سے کی۔ نواز شریف کی جی۔ ٹی روڈ ریلی کا فیصلہ مریم صاحبہ کا تھا۔ بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ وہ ایک درست بروقت اور زبردست فیصلہ تھا۔ عملی سیاست میں این اے 120 وہ پہلا معرکہ تھا جو مریم صاحبہ کو سر کرنا تھا۔ بظاہر بڑی آسان منزل تھی مگر پھر چشم فلک نے نظارہ کیا کہ یہ منزل بھی آسان نہ تھی۔ پہلی دشواری یہ تھی کہ خود امیدوار (مرحومہ کلثوم نواز صاحبہ) وطن عزیز سے ہزاروں میل دور ہسپتال کے ایک بستر پر زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی تھیں۔

دوسری طرف 120 کے انتخابی میدان میں 44 امیدوار مقابلے کے لیے لائن حاضر کیے جا چکے تھے۔ مخالفین کے ہاتھ میں الیکشن نعرے کے طور پر پانامہ کا فیصلہ بھی آ چکا تھا۔ سب جانتے ہیں کہ مریم کی سپورٹ میں خود پارٹی کے بھی کم لوگ تھے سب اپنی اپنی جگہ دیگر محاذوں پر کھڑے تھے اور مریم اس مشکل محاذ پر تن تنہا۔ مریم یہ الیکشن اکیلے لڑی اور جیتی۔ این۔ اے 120 کی جیت نے نہ صرف سب کو مریم کی سیاسی بصیرت کا قائل کیا بلکہ بیک فٹ پر کھڑی مسلم لیگ (ن) کی کنفیوزقیادت، ووٹرز اور سپوٹرز کو بھی یکجا کر کے ان میں امید کی نئی روح پھونک دی۔ تمام تر مخالفت اور میڈیائی پراپیگنڈے کے باوجود مریم نے اپنی کامیاب سیاسی حکمت عملی سے الیکشن سے چھ ماہ پہلے مسلم لیگ (ن) کو پھر سے مقابلے کی پوزیشن میں کھڑا کر دیا۔ اگر ہم اس دورکے حالات کو ایک بار پھر سے یاد کریں تو ہمیں مریم کی کامیاب حکمت عملی کی گواہی ملے گی۔

اس مشکل دور میں مریم نے کمال مہارت سے مخالفین کی تقریروں کے عنوان ہی بدل دیے۔ نواز شریف چور ہے عدالت نے چوری پر نکالا سے آگے تقریر میں صرف فلسفہ ہی بیان کرنے کو رہ جاتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب بظاہر صورتحال مسلم لیگ نواز کے لیے سازگار نظر آ رہی تھی۔ مگر مریم کیا سوچ رہی تھی یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ پاکستانی سیاست پر کمنٹری کرنے والے مہان پنڈت بھی اس نومولود سیاسی قائد کی حکمت عملی کو نہ پہنچ سکے۔ دراصل الیکشن سے کچھ ماہ پہلے ہی مریم کو معلوم ہو چکا تھا کہ ان کی پارٹی کو کسی بھی صورت جیتنے نہیں دیا جائے گا اس ماحول میں مریم نے دلبرداشتہ ہونے کے بجائے اپنی حکمت عملی بدلی اور 25 جولائی کے الیکشن کو بڑی جنگ میں ایک چھوٹی لڑائی سمجھ کر اپنے دشمنوں کو چھوٹی جیت عطیہ کر دی۔ دراصل مریم اس مصنوعی رنگ کی حقییقت جانتی تھی۔ وہ جانتی تھی یہ بظاہر خوشنما مگر مصنوعی سفیدی آسمان برداشت نہیں کرے گا۔ اسی لیے انہوں نے چپ چاپ جیل جا کر بڑی جنگ کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔

تاثر دیا گیا کہ مریم صاحبہ جیل جانے سے گھبرا رہی تھیں مگر جیل جانا مریم صاحبہ کی حکمت عملی تھی۔ جس جنگ کو لڑنے کا فیصلہ مریم صاحبہ کر چکی تھیں اس کو رائیونڈاور لندن میں بیٹھ کر نہیں لڑا جا سکتا تھا۔ اس جنگ میں، اور اپنے ورکرز میں جوش اور ولولہ صرف جیل کی کال کوٹھری ڈال سکتی تھی اور مریم نے وہی کیا۔

بلاشبہ بیمار ماں کو بستر مرگ پر چھوڑ کر آنا اور پھر جیل میں رہتے ہوئے ماں کی رحلت کی خبر سننا کسی بھی انسان کے لیے آسان نہیں اور اگر وہ ایک بیٹی ہو پھر تو یہ غم کسی پہاڑ سے کم نہیں مگر ان تمام حالات نے مریم صاحبہ کوایک پائیدار اور منجھا ہوا سیاست دان بنا دیا۔ جیل سے واپسی پر مریم صاحبہ نے خاموشی اختیار کر لی۔ سب حیران تھے کہ ایک ایسی خاتون جو ہر بات میں کھل کر بولتی تھی اچانک چپ کیسے ہو گئی۔ میڈیائی ارسطو طرح طرح کی قیاس آرائیاں کرنے لگے کسی نے ڈیل کا نام دے دیا تو کسی نے خاندان میں دراڑ کی خبر سنا دی۔

کہانیاں گھڑنے والے گرو یہ نہیں جان پائے کہ مریم بظاہرتو چپ تھیں مگراندر ہی اندر ان کی جہدوجہد جاری تھی۔ اس خاموشی کے دور میں مر یم صاحبہ نے اپنے اور اپنی پارٹی کے لیے وہ کام کیے جو نہ کیے جاتے تو شاید آج پارٹی کا نام و نشان نہ ملتا۔ اپنا ذاتی اثرورسوخ استعما ل کر کے پارٹی کی اندرونی مخالفتوں کو ختم کرایا۔ پارٹی کوایک مضبوط اپوزیشن کے لیے تیار کیا۔ مریم صاحبہ کے بارے میں ایسی خبریں گردش کرتی تھیں کہ محترمہ کی جارحارنہ پالیسی کی وجہ سے شریف خاندان کے اندر پھوٹ پڑ رہی ہے مگر میں پوری جانکاری کے ساتھ یہ بتا رہا ہوں کہ اس خامشی کے دور میں مریم نے اپنے خاندان کے درمیان خلیج کو کم کیا۔ حمزہ شہباز کے ساتھ گھنٹوں پر محیط بیٹھکیں ہوئیں۔ فیصلہ سازی میں حمزہ کی رائے کو اہمیت دی گئی جس کے نتیجے میں حمزہ شہباز پربھی اب مشکل وقت ٓنے والا ہے۔ جیل اور خاموشی کے اس دور میں مریم صاحبہ نے سیاست کی کتاب کے تمام پیچیدہ اور لازمی اسباق پڑھ لیے۔ ان کی سیاست میں اب جارحیت کے ساتھ ساتھ مفاہمت بھی ہے۔ وہ اپوزیشن جماعتوں کے قریب ہوئیں۔ انہوں نے تمام بڑی سیاسی پارٹیوں کو اپنی اہمیت جتلائی۔

اب وہ جان چکی ہیں ان کو کیا بولنا ہے، کہاں بولنا ہے، اور کیسے بولنا ہے۔ وہ اب پارٹی کی نائب صدر ہیں اور یہ عہدہ ان کو نواز شریف کی بیٹی ہونے کی وجہ سے نہیں ملا بلکہ اس عہدہ کے پیچھے مریم صاحبہ کی جہدوجہد شامل ہے۔ بیمار ماں کو چھوڑ کر جیل جانا، پھر جیل میں رہتے ماں کے چلے جانے کی خبر سننا اور ان غموں کا طوق گلے میں لٹکا کربوڑھے والد کو جیل کے دروازے تک چھوڑ کر آنے والی تمام بہادری دکھانے کے بعد کہیں جا کر وہ یہ عہدہ حاصل کر پائی ہیں۔

مریم اب کامیاب ہیں اور اس کی کامیابی کی ایک وجہ مسلم لیگی کارکن کا ان کے ساتھ کھڑا ہونا بھی ہے۔ ا گر یوں کہا جائے کہ مریم اپنے کارکن کی نبض سمجھ گئی تو کچھ غلط نہیں ہو گا۔ اب وہ وہی بولتی ہیں جوہ ہر مسلم لیگی کارکن کی آواز ہے۔ سب جانتے ہیں کہ نواز شریف کا کارکن چپ رہنے والا تھا وہ کم گو تھا، آتا تھا تقریر سنتا تھا، ووٹ ڈالتا تھا اور چلا جاتا تھا مگر مریم نے اس کارکن کے اندر ایک نئی جان ولولہ اور جوش ڈال دیا۔

کارکن اب بولتا ہے جواب دیتا ہے۔ مریم نے دوسال کے قلیل عرصہ میں کارکنوں کے دل میں اپنے لیے ایک خاص مقام پیدا کر لیا۔ کارکن مریم کو نواز شریف کی زبان اور نشان سمجھتے ہیں۔ مریم بھی کارکنوں کو عزت دیتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر مسلم لیگ کا شاید ہی کوئی کارکن ہو گا جس کو مریم فالو نہ کرتی ہوں۔ چھوٹے سے چھوٹا ورکر کیوں نہ ہو اس کے لیے مریم تک رسائی آسان ہے۔ بس ایک ٹویٹ کرو اور مریم جواب دے گی۔ مسلم لیگ نوازمیں شامل دیو قامت اور منجھے ہوئے سیاستدانوں کے ہوتے میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ مریم ان سے بڑی سیاستدان بن گئی ہیں مگر مریم کی حکمت عملی کو دیکھ کر یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنا کام توقع سے زیادہ اچھے انداز میں کر رہی ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).