پیشہ ور بھكاریوں كی بدمعاشی


کچھ روز پہلے ایک کتاب خریدنے کے لیے بازار جانا ہوا۔ کتاب خریدنے کے بعد ایسے ہی گزرتے ہوئے ملبوسات کے ایک مشہور برینڈ کے سٹور میں داخل ہو گئی۔ گھوم پھر کر مختلف لباس اور ان کی قیمتیں دیکھ کر غریبی کے شدید احساس سے اداس ہو کر باہر نکل آئی۔ خریدنا تو کچھ تھا نہیں۔ گاڑی تھوڑی دور پارک تھی اس کی طرف بڑھتے ہوئے پیچھے سے آواز آئی ”باجی پیسے دے دو“ پیچھے مڑ کے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ 12 یا 14 سال کی بچی تھی جو میرے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے رٹے رٹائے فقرے بول رہی تھی۔

اب مسئلہ یہ آن پڑا کہ میرے پاس اس وقت کوئی پیسے نہ تھے جو تھے وہ میں خرچ کر چکی تھی۔ وہ بچی ثابت قدمی سے میرے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ اس صورتِحال سے نمٹنے کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ ٱسے بہتیرا کہا کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں لیکن وہ پیچھے ہٹنے کو تیار نہ ہوئی۔ کچھ نہ سوجھنے پر آخر میں نے ٱسے اپنا خالی والٹ دکھایا وہ کھا جانے والی نظروں سے مجھے دیکھ کر یہ کہتے ہوئے دوسری طرف چل دی ”پکھی (بھوکی) جئی نہ ہووے تے“ اور میں شرمندہ شرمندہ آگے بڑھ گئی۔

ایسی صورتحال کا سامنا کسی کو بھی کبھی بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ بازاروں اور اشاروں پر تو ایک جمھگٹا نظر آتا ہے۔ ساہیوال قدرے چھوٹا شہر ہے لیکن اب یہاں بھی ہر سگنل پر آپ کو یہ نظر آئیں گے۔

ابھی کل ہی کی بات ہے گاڑی اشارے پر رکی تو دو عورتیں جھٹ سے گاڑی کی طرف بڑھیں اور شیشے پر زور سے ہاتھ مارا۔ حسبِ معمول میں والٹ لانا بھول چکی تھی۔ ( ہوتا بھی تو اس میں رقم ہونا ضروری نہیں تھا) میں نے نظریں سامنے جما لیں اور دل ہی دل میں دعاگو ہو گئی کہ خدایا یہ اشارہ جلد کھول دے۔ جیسے ہی بتی سبز ہوئی وہ عورت لعنت کا اشارہ کر کے ایک طرف ہو گئی۔

ایک انسان کا اپنی عزتِ نفس کھو کر سرِ عام بھیک مانگنا کوئی آسان چیز نہیں ہے۔ غربت، جہالت، بیروزگاری اور نہ جانے کیا کیا اس کے محرکات ہیں۔ لیکن بازاروں اور اشاروں پر بھیک مانگنے والوں کا تو ایک مافیا بن چکا ہے۔ یہ بڑے منظم طریقے سے جگہوں کی تقسیم کر کے اس کاروبار کو چلا رہے ہیں۔ بچوں، ضعیفوں اور معذور لوگوں کو بھیک مانگتے دیکھ کر کسی حساس انسان کا دل نرم پڑ سکتا ہے اس لیے ایسے لوگوں کو ہی بھیک مانگنے کے لیے متعین کیا جاتا ہے۔ آپ ایک لمحے کے لیے سوچ بھی لیں کہ میں کسی کو چند روپے دے دوں تو فوراَ ایک مجمع اکٹھا ہو جائے گا۔

ہمارا مذہب ہمیں کمزور لوگوں کی مدد کرنے کا درس تو دیتا ہے لیکن یوں سرِعام ہاتھ پھیلانے کو بھی پسند نہیں کرتا۔ ان پیشہ ور بھکاریوں کی مدد کرنے کا مطلب ہے کہ آپ ان کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ تیسری دنیا کہ غریب ممالک میں آپ کو گداگری کا تناسب زیادہ نظر آئے گا۔ اس کی حوصلہ شکنی بھی ہونی چاہیے اور غربت کے خاتمے کی کوششیں بھی ہونی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).