دہائی ہے تبدیلی سرکار کی!


مہنگائی کا اژدھا مسلسل پھنکار رہا ہے جس سے غریب عوام سہم سہم جا رہے ہیں۔ دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ موجودہ حکومت کو کھری کھری سنا رہے ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں سر براہ حکومت سے کیا انہیں اسی طرح تنگدستی کی زندگی بسر کرنا ہے۔ یہ کہ انہوں نے پچھلی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کا جو راستہ اختیار کیا تھا اس پر اب بھی چلتے رہنا ہے؟

اس کا جواب حکومت یہ دیتی ہے کہ چونکہ وہ اجڑے باغ میں داخل ہوئی ہے لہٰذا اسے کچھ وقت چاہیے ہو گا اس میں بہار لانے میں مگر عوام ہیں کہ اس دلیل و منطق کو تسلیم نہیں کر رہے وہ کہتے ہیں کہ اگر اس نے انہیں انتظار کرانا تھا تو پھر کس برتے وعدے کیے گئے۔ لگتا ہے عمران خان کو اس بات کی سمجھ بعد میں آئی کہ حکومت سازی سے لے کر حکمرانی تک پیسے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو تقریروں اور نعروں سے حاصل نہیں ہوتے اس کے لیے تدبر، حکمت عملی اور ذہانت کی ضرورت ہوتی ہے۔

مگر معذرت کے ساتھ ان تین چیزوں سے استفادہ کرنا پی ٹی آئی ضروری نہیں سمجھتی۔ لہٰذا ہوا یہ ہے کہ اس نے بغیر محسوس کیے عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا کہ یہ آسان ترین طریقہ ہے خزانہ بھرنے کا۔ ادھر اس سے انتظامی معاملات ٹھیک نہیں ہو پا رہے خصوصاً پنجاب کے اندر ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ ہر کام میں خرابی دیکھی جا سکتی ہے۔ کوئی بھی سرکاری ادارہ اپنے فرائض دیانت داری سے ادا نہیں کر رہا۔ مجموعی طور سے آمرانہ طرز عمل دکھائی دیتا ہے جو لوگوں میں مایوسی پیدا کر رہا ہے اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اس سے پہلے والے اچھے تھے؟

بہر حال پورے ملک میں ایک خوف کی لہر ابھر گئی ہے اس کا سبب معاشی مسئلہ ہے جو ابھی تک حل نہیں ہوا اور لگ رہا ہے کہ اگلے بیس برس تک بھی نہیں ہو گا۔ کیونکہ ایک طرف بد عنوانی ہے تو دوسری جانب ناقص اقتصادی منصوبہ بندی علاوہ ازیں موجودہ نظام زر جو چند لوگوں کے گرد کھامتا ہے اس کی بہتری کے لیے نئی نئی راہیں تلاش کرتا ہے ان کی جائیدادوں میں اضافے کے لیے منصوبے تیار کرتا ہے انہیں دوسرے عام لوگوں سے الگ کر کے ان کے ہر نوع کے تحفظ کے لیے غور و فکر کرتا ہے اس صورت میں یہ ممکن ہی نہیں کہ عوامی فلاح کا کوئی پروگرام بن سکے اور اس پر عمل در آمد ہو سکے۔ ؟

سوال مگر یہ ہے کہ کیا اس نظام کی موجودگی میں معاشی حالات کے بگاڑ کو درست کرنا ممکن ہو سکتا ہے جواب ہو گا نہیں، کیونکہ اس میں کالے دھن کو ناجائز نہیں تصور کیا جاتا اور یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ ہمارے معاشی نظام کی بنیاد اس کالے دھن پر رکھی گئی؟ لہٰذا جب تک اس کے متبادل انسان دوست کوئی دوسرا نظام نہیں لایا جاتا غربت افلاس اور بھوک کے سایے یونہی منڈ لاتے رہیں گے اور پھر یہ جو آئی ایم ایف ہے اس کا بھی سایہ سر پر موجود رہے گا اس کی سخت شرائط بھی ہمیں پریشان کرتی رہیں گی ضروری ہے کہ ہمارے ذمہ داران سر جوڑ کر بیٹھ جائیں کہ اس تلخ صورت حال سے کیسے جان چھڑانی ہے جو ہماری صلاحیتوں اور اہلیتوں پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ یعنی ہم اپنی مرضی سے نہ کوئی منصوبہ بنا سکتے ہیں اور نہ ہی عوام کے لیے کوئی فلاحی پروگرام ترتیب دے سکتے ہیں۔ جبکہ ہم ایک آزاد ملک کے باسی ہیں جو انہیں انیس سو سنتالیس کو عوامی جدو جہد سے وجود میں آیا۔

بات مہنگائی کی ہو رہی تھی کہ جس نے آخری حد بھی عبور کر لی ہے ابھی وہ اور بھی آگے جائے گی مگر میں یہاں یہ بھی عرض کر دوں کہ حکومت کو تو مورد الزام ٹھہر ا یا ہی جاتا ہے کہ اس نے قومی خزانہ بھرنے کے لیے ٹیکسوں کی بھر مار کر دی ہے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ تاجر حضرات سے لے کر عام دکاندار تک از خود مہنگائی میں اضافہ کرتے چلے جار ہے ہیں کسی چیز کے دام فرض کیا دو سو بتاتے ہیں تو بھاؤ تاؤ کرنے کے بعد اسے ایک سویا ایک بیس میں دے دیتے ہیں۔

پھل ہوں یا سبزیاں اسی فارمولے کے تحت فروخت ہوتی ہیں صبح قیمتیں کچھ ہوتی ہیں اور شام کو کچھ اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ انتظامی کمزوری ہے جب ان پر چیک نہیں ہو گا وہ اپنی مرضی کرتے چلے جارہے ہوں گے تو حکومت کو لوگ بُرا بھلا کہتے رہیں گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چھوٹے صوبوں میں تو پھر بھی کچھ حالات مختلف ہیں مگر پنجاب کے اندر اندھیرا مچا ہوا ہے۔ انتظامی حوالے سے صورت حال بڑی خراب نظر آتی ہے۔ مگر اب جبکہ علیم خان کو ڈپٹی چیف منسٹر بنایا جا رہا ہے تو توقع کی جاسکتی ہے کہ کچھ بہتری آئے گی کیونکہ وہ انتظامی امور کا خاصا فہم رکھتے ہیں۔

بیورو کریسی میں بھی وہ اپنا الگ تشخص رکھتے ہیں اس سے مراد میری یہ ہے کہ وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتے ہیں اور اس سے بیورو کریسی پوری طرح آگاہ ہے اور ان کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرنے ہی میں اپنی بہتری سمجھتی ہے۔

پھر ان کے ساتھ ایسے تھنکرز بھی ہیں جو بین الاقوامی حالات سے بھی مکمل طور سے واقف ہیں خواجہ جمشید امام ان میں سے ایک ہیں جو موجودہ نظام میں رہتے ہوئے بھی عوامی بھلائی کا راستہ اختیار کرنے کی اہلیت و صلاحیت رکھتے ہیں۔ !

بہر کیف اگر حکومت انتظامی معاملات ٹھیک کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو ایک ڈیڑھ برس کے بعد اس کی سیاسی پوزیشن مستحکم ہونے کا امکان واضح ہے مگر اگر عمران خان کی ضد نے عثمان بزدار ایسے منتظموں کو سامنے لا کھڑا کرنا ہے تو پھر مہنگائی بھی بڑھے گی اور بے تحاشا بڑھے گی کیونکہ مختلف محکموں اور اس پر کنٹرول کرنے والے ذہنوں کو بروئے کار ہی نہیں لانا تو عوام کی چیخیں بھی بلند ہونے سے نہیں رکیں گی لہٰذا نظام کی تبدیلی تک معمولی اقدامات سے کچھ بہتری لائی جا سکتی ہے مگر مصیبت یہ ہے کہ عمران خان وزیر اعظم اپنی انا کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور نہیں جانتے کہ حکمرانی کے لیے بہت کچھ قربان کرنا پڑتا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ وہ عوامی مفاد میں آگے بڑھیں انہیں ریلیف دینے سے متعلق غور و فکر کریں اگر وہی بے چین رہتے ہیں اور ان سے بیزار ہوتے ہیں تو کیا فائدہ ان کی تقریروں کا جو وہ اکثر کرتے رہتے ہیں لہٰذا عوام کو خوش کرنا لازمی ہے کوئی بھی ریاست ان کی بے چینی و بیزاری کی متحمل نہیں ہو سکتی انہیں جو لوگ ان ( عوام ) پر ٹیکس در ٹیکس لگانے کی تجویز دیتے ہیں ان سے انہیں ہوشیار رہنا چاہیے کیونکہ وہ انہیں عوام کی نظروں میں گرانا چاہتے ہیں تاکہ دوبارہ روایتی سیاستدانوں کی راہ ہموار کی جا سکے۔ ؟

اس امر کا ثبوت یہ ہے کہ حزب اختلاف ان کے غیر عوامی اقدامات کے تناظر میں لوگوں کو سڑکوں پر لانے کا ارادہ رکھتی ہے وہ کہتی ہے کہ ہمارے دور میں تو عوام پر اس قدر دباؤ نہیں تھا جو آج ہے جبکہ وہ غلط بیانی سے کام لے رہی ہے روپے کی قیمت کے تناسب سے مہنگائی اس وقت بھی بہت تھی مگر ان کے سیاسی مخالفین کا پراپیگنڈا شدید نہیں تھا اب عوام زیادہ محسوس اس لیے بھی کر رہے ہیں کہ پی ٹی آئی نے انہیں دن میں تارے دکھانے کا وعدہ کیا تھا جو وہ نہیں دکھا سکی لہٰذا خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ حزب اختلاف مہنگائی کو بنیاد بنا کر عوام کو بھڑ کا نے میں کامیاب ہو سکتی ہے جس سے سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو سکتا ہے۔

مگر دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا حزب اختلاف کسی مالیاتی ادارے کے تعاون کے بغیر عوام کو سہولیتیں دینے میں کامیاب ہو سکے گی اگر ایسا ہے تو وہ اپنے ادوار میں کیوں عوام کے مفاد و فلاح کو نظر انداز کرتی رہی جو اس کی ناکامی کا باعث بن گیا لہٰذا عوام کو سوچ سمجھ کر کسی نتیجے پر پہنچنا ہے۔ مہنگائی صرف حکومت ہی نہیں مافیا ز بھی کر رہے ہیں۔ جو انتہائی طاقتور ہو چکے ہیں۔ انہیں روکنا ہو گا تاکہ ملک میں کوئی شور نہ اٹھے کوئی ہنگامہ برپا نہ ہو؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).