غیرت مند قوم کے لیڈر کا احتساب


پچھلے کچھ عرصے سے نیب اس قدر متحرک ہوا کہ کئی بڑے ڈاکو جیل کی سلاخوں میں ڈال دیے جس پر یقینا اپوزیشن جماعتوں کا شور ڈالنا بنتا تھا سو انھوں نے کرائے کے کارکنوں کے ذریعے کئی شیشہ توڑ احتجاج کیے مگر افسوس ان کا کوئی حربہ بھی کامیاب نہ ہوسکا۔ اس کی سب سے بنیادی وجہ یہی ہے کہ عمران خان نے اپنی بائیس سالہ جدوجہد میں اس قوم سے ایک وعدہ کیا تھا کہ کوئی ڈاکو نہیں چھوڑوں گا لہٰذا جب وہ وعدہ پورا ہوگیا تویہ کیسے ممکن تھا عمران خان ان جیالوں اور متوالوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوجاتا سو عمران خان نے ان کی ایک نہ سنی اور نیب کو مکمل سپورٹ کیا اور اسے ایک خود مختار ادارہ بنا دیا۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ یہ قوم جو آج عمران خان سے دس ماہ کا حساب مانگ رہی ہے، اسی قوم نے پہلے غیرت مندی کا مظاہرہ کیا ہوتا اور گزشتہ تیس سال سے حکومت کرنے والی جماعتوں سے اپنے ٹیکسز، جرمانوں اور ان ڈاکوؤں سے چوری کیے گئے پیسے کا حساب مانگتے تو یقین جانیں آج ملک کی حالت بالکل مختلف ہوتی۔

آپ ذرا اندازہ کریں نون لیگی قابلِ افسوس رہنما کہا کرتے تھے عمران خان وزیراعظم تو کیا بنے گا، ہم اسے شیروانی کا ایک بٹن تک نہیں دیں گے۔ آج وہی نون لیگی پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر اسے وزیراعظم کہتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ اپنا غصہ نکالنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کر رہے ہیں جو ہمیشہ کی طرح ناکام ہی ہوں گے۔ آپ ذرا وہ انٹرویو بھی سنیے جس میں زرداری کہتے تھے کہ ”چیئرمین نیب کی کیا مجال، اس کی کیا حیثیت کہ وہ مجھ پر کیسز بنوائے“۔ اور آج دیکھیے وہی زرداری نیب کے قبضے میں ہے۔

فریال تالپور، شہباز شریف، حمزہ شہاز، مریم نواز، حنیف عباسی، رانا ثنا اللہ، خواجہ سعد رفیق اورخواجہ سلمان رفیق بھی یہی کہتے تھے کہ عمران خان وزیراعظم بننے کا خواب چھوڑ دیے۔ یہ کہا کرتے تھے کہ نیب کہ اتنی مجال کہاں کہ ہم پر ہاتھ ڈالے مگر نیب نے اپنی مجال دکھا دی، اس نے ثابت کیا کہ احتساب کے عمل سے گزرنا ہوگا ورنہ کوئی چارہ نہیں۔ یہی بات آج بلاول بھٹو کر رہا ہے، بلاول کو یہ بات سمجھ جانی چاہیے تھے کہ اسے استعمال کیا جا رہا ہے، پوری پیپلز پارٹی اسے اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے اور بلاول یہ بات تب سمجھے گا جب اسے بھی جیل بھیج دیا جائے گا۔ آج بلاول نیب کے قانون کو کالاقانون کہتے ہوئے کیوں نہیں سوچتا کہ اگر پہیہ گھوم کر بلاول پر آ گیا تو اس کے لیے بھی اپنا دفاع کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اس سے قبل یہی کام نواز لیگ نے کیا تھا کہ مریم کو ڈھال بنایا اور ایک وقت ایسا ہوئے کہ مریم نواز بھی جیل کا کر دخترِ مشرق اور دخترِ قوم قوم بنتی نظر آئیں۔

مجھے کبھی کبھی شدید حیرانی ہوتی ہے کہ یہ قوم کیوں اس قدر جہالت میں ڈوبی ہوئی ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی آلِ نواز اور آلِ زرادر کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہی ہے۔ کیا یہ نہیں جانتے کہ اس ملک کو اس نہج تک پہنچانے والے یہی ڈاکو اور چور ہیں۔ کیا اس قوم کو ابھی تک یہ مذاق لگ رہا ہے کہ یہ شہنشاہِ کرپشن ہیں اور دیمک کی طرح اس ملک کو چاٹ گئے۔ تف ایسے معاشرے پہ جس نے سب جانتے بوجھتے ایسے لوگوں کو سپورٹ کیا جنھوں نے اسی قوم کا پیسہ کھایا۔

میں تو پوری زندگی اسے کبھی معاف نہ کروں جس نے میری حلال کی کمائی کا ایک روپیہ بھی کھایا ہو اور یہ غیرت مند قوم جس کا اربوں روپیہ نواز و زرداری تو الگ، ان کی اولادیں کھا گئیں اور یہ قوم پھر بھی ان کی سپورٹرز ہے۔ یعنی کتنی حیرت کی بات ہے کہ ہم کمائی کریں، ہم مزدوری کریں، ہم دن رات محنت کریں اورہماری کمائی ٹیکسوں کے نام پر مریم نواز، حسن اور حسین نواز، حمزہ شہباز، سلمان شہباز، بلاول، آصفہ اور بختاور ہڑپ کر جائیں۔ ہماری کمائی پہ اِن ڈاکوؤں اور چوروں کی اولادیں عیاشی کریں اور ہمارے بچے بھوک اور پیاس سے بلکتے رہیں۔ کتنا ظلم ہے ناں اور یہ ظلم ہماری غیرت مند قوم نے خود پہ کیا۔

مجھے آج اس پاکستانی عوام کو ایک قوم کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے، یہ قوم نہیں بلکہ بھیڑ بکریاں ہیں، جنھیں نواز اور زرداری نے اپنی اپنی چھڑی سے اپنے اپنے مقصد کے لیے ہانکا۔ اور یہ ان سے وفاداری نبھاتے رہے، یہ ان کے لیے جان و مال کے قربان کرنے کے نعرے لگاتے رہے۔ اگر مجھ سے پوچھیں تو میں یہ کہوں گا کہ نواز و زرداری کو جیل میں پھینکنے کی بجائے اس قوم کو جیل میں پھینکا جائے۔ ان جیالوں اور متوالوں کی وفاداری کے چکر میں ملک کا کباڑا ہو گیا، ملک دیوالیہ ہوگیا مگر یہ آج بھی مریم نواز اور بلاول بھٹو کو قوم کا اصلی ہیرو بنانے میں لگے ہیں۔ جس قوم کے ہیرو نواز شریف اور آصف زرداری ہوں اور ان کے بعد ان کی اولادیں ہوں تو کیا غلط ہے کہ یہ عوام غلام ابنِ غلام ابنِ غلام ابنِ غلام ہیں۔

مجھے کبھی کبھی ندامت ہونے لگتی ہے کہ میں کس معاشرے کا حصہ ہوں جہاں ایسے لوگ ہمارے رہنما بنتے رہے، ہمارے ملک کے مالک و مختار بنتے رہے جنھوں نے ہمارے بچوں کو بھوکا مار دیا۔ بلاول بھٹو کاش کبھی سندھ، حیدر آباد اور سکھر میں غربت کے ہاتھوں مرنے والے بچوں کی شرح کلوا لیں تو انھیں اندازہ ہو جائے کہ ان کے ابو جی کیا کرتے رہے، ایڈز سے مرنے والوں کی تعداد ہی پوچھ لیں۔ آج یہ نوبت آ گئی ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ سے پانی کی کمی کا سوال کرنے والے سائلین کو سعید غنی اپناوزٹنگ کارڈ تھما تے ہیں کہ آپ میسج کریں ہم بات کریں گے یعنی لائیو گفتگو کی بجائے موبائل چیٹ قوم کے مسائل کا حل تلاشا جائے گا۔

ہمیں آج یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ ہمیں اپنی نسلوں کو بھی اس غلامی میں دھکیلنا ہے یا اب اس غلامی سے چھٹکارا پانا ہے۔ دو ہی راستے ہیں اور ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ یا تو ہمیں ایسے ہی گاڑی چلنے دینی چاہیے جیسے چل رہی یعنی غلام ابنِ غلام ابنِ غلام ابنِ غلام ابنِ غلام۔ اور اسی طرح قیامت تک ہم غلام بنیں رہیں یا پھر دوسرا راستہ یہ ہے کہ ہم واقعی غیرت مند بن جائیں اور اپنے لیے درست راستے کا انتخاب کر لیں۔ لیکن نہ جانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ یہ غیرت مند قوم پہلے راستے کا ہی انتخاب کرے گی کیونکہ غلامی کی زندگی کا بھی اپنا ہی سواد ہے۔ مبارک ہو غلام قوم کی بے حس نسلو! تم پر آلِ زرادر اور آلِ شریف مسلط کر دی گئی ہیں کسی عذاب کی صورت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).