عقل مند اونٹ اور ساربان چوہا


\"waqarصدیاں بیتیں، نسلیں گزریں، خطے دریافت ہوئے، جغرافیے بدلے، فاصلے سمٹے، دریا رستے بھٹکے، صحرا نخلستان ہوئے، جہالت معدوم ہوئی، علوم نے سکہ جمایا، ایجادات نے تہلکہ مچایا، تہذیب نے گل کھلائے، کائنات کے راز کھلے،ستاروں پہ کمندیں ڈلیں، کہکشائیں آشکار ہوئیں، اگلی دنیا کے رستے وا ہوئے، سر زمینیں آئین سے سرفراز ہوئیں، قانون نے قدم جمائے، آمریتیں پامال ہوئیں، جمہوریت نے رنگ بکھیرے، حقوق واگزار ہوئے، انسانیت مشرف بہ توقیر ہوئی، شخصیات کا طلسم ٹوٹا، ادارے مضبوط ہوئے، آزادی اظہار کا جادو سر چڑھ کر بولا….مگر کسی خطے میں فقط اُلو ہی بولے اور کالی بلیوں نے رستے ہی کاٹے۔ فاختہ کی صدا، صدا بہ صحرا ہی رہی اور سچے جھوٹے قصے کہانیوں کے سہارے زندگی کی منزلیں سر کرنے کے سوا کوئی ہنر نہ آزمایا گیا۔ سو انہی روایات کی پاسداری میں آج ہم آپ کو ایک کہانی سنانے جا رہے ہیں۔ تاہم سچ یا جھوٹ کی کوئی گارنٹی نہیں۔

بہت پہلے کہیں ہم نے یہ کہانی پڑھی تھی کہ ایک آدمی نے اپنے اونٹ کی رسی اس کی گردن کے گرد لپیٹی اور چرنے کے لیے اُسے جنگل کی طرف ہنکا دیا۔ اونٹ جنگل میں پہنچ کر ہری بھری جھاڑیوں اور درختوں سے پیٹ پوجا میں مصروف ہو گیا۔ اس دوران اس کی نکیل کی رسی ڈھیلی پڑتے پڑتے کھل گئی۔ اب رسی کا ایک سرا نکیل سے بندھا تھا جبکہ دوسرا زمین پر رینگ رہا تھا۔ ایک جنگلی چوہے نے یہ منظر دیکھا تو اسے ساربانی کے شوق نے آ لیا۔ جب اونٹ نے سیر ہوکر واپس گھر کی راہ لی تو چوہے نے بھاگ کر زمین کو چھوتی اس کی رسی پکڑی اور اونٹ کے آگے چلنا شروع کردیا۔ اونٹ غصہ کرنے کی بجائے چوہے کی اس حرکت سے محظوظ ہوا اور خاموشی سے گردن جھکا کر اس کے پیچھے چلنا شروع کردیا۔ اونٹ کے اس شریفانہ رویے نے چوہے کے شوق ساربانی کو چتاﺅنی دی اور وہ دل ہی دل میں حقیقی ساربان بن بیٹھا۔

چلتے چلتے راستے میں دریا آ گیا۔ ”ساربان“ نے رک کر اونٹ کی طرف دیکھا۔ اونٹ نے کہا کہ آگے بڑھو۔ چوہا ڈر کر بولا کہ آگے پانی کی\"rumi-the-camel-and-the-mouse11\" لہریں ہیں، جو مجھے بہا کر کہیں سے کہیں لے جائیں گی۔ اونٹ مسکرا دیا اور اسے نکیل کی رسی کے ذریعے اپنی کوہان پر چڑھ آنے کے لیے کہا۔ چوہا جھٹ سے اس پر سوار ہوگیا اور اونٹ دریا پار کرنے لگا۔ چوہے نے اس کا حوصلہ بلند رکھنے کے لیے حدی خوانی شروع کردی اور یوں اب وہ ”ساربان“ کے ساتھ ساتھ ”حدی خوان“ بھی بن گیا۔ وہ شتر سواری سے بھرپور لطف اٹھا رہا تھا اور اونٹ کی کوہان کی بلندی سے اسے دریا کی مچھلیاں حقیر نظر آ رہی تھیں۔ آخر دریا کا پاٹ ختم ہوگیا۔اونٹ نے خشکی پر قدم رکھا تو چوہا فوراً نیچے اترا اور لپک کر دوبارہ نکیل کی رسی تھامنا چاہی۔ اونٹ نے اچانک سر بلند کرلیا اور رسی چوہے کی دسترس سے باہر ہو گئی۔ تب اونٹ نے اسے مخاطب کر کے کہا کہ تم جیسے ایک ہزار چوہے بھی ہوں تو میں ان تمام ”ساربانوں“ کو ایک ہی ہلے میں دریا پار کرا سکتا ہوں۔ چوہا کھسیانا ہو گیا۔تاہم اس کے سر سے ساربانی اور رہنمائی کا خناس نہیں نکل رہا تھا۔ اس نے اونٹ کی خوشامد شروع کردی لیکن اونٹ نے اسے ڈانٹ کر کہا کہ رہنمائی صرف انسانوں کو جچتی ہے،چوہوں کو نہیں۔

چوہوں کی اس اجتماعی توہین پر چوہا آگ بگولا ہو گیا اور پھٹ پڑا کہ تم نے ایک ساربان اور حدی خوان کو چوہا کہا ؟ کیا تم میری طاقت سے آشنا نہیں؟ اونٹ نے قہقہ لگا کر کہا ”ا ے میرے سابق ساربان اور سابق حدی خوان ! وہ محض ایک دل لگی تھی کہ تم نے مختصر وقت کے لیے یہ دونوں مزے لوٹے۔ اب تمہارے اور میرے گھر کے درمیان دریا کا لمبا پاٹ ہے “چوہا ساربانی سے کم منصب پر راضی نہیں تھامگر اونٹ نے اسے واپس اپنے گھر اور اپنی اوقات کی طرف پلٹ جانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ دریا میں پانی تھوڑا ہے مگر تمہارے لیے منزلوں اونچا۔ سو، جاﺅ کسی کشتی میں جا چھپو تاکہ گھر پہنچ سکو۔ اب چوہے کے پاس یہ معقول مشورہ ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، وہ مایوسی سے واپس جانے والی ایک کشتی میں جا کر چھپ گیا۔ اونٹ نے دور دریا میں جاتی کشتی کو دیکھ کر دعا مانگی کہ وہ خیریت سے کنارے پر پہنچ جائے کیونکہ وہ جانتا تھا کہ چوہا اپنی عادت سے مجبور ہوکر کشتی کے پیندے میں سوراخ کرنے سے باز نہیں آئے گا۔

چونکہ ہم اکیسویں صدی میں بھی تاریخ کی بجائے پرانے قصے کہانیوں ہی سے سبق حاصل کرنے پر بضد ہیں، لہذا اس کہانی سے یہ سبق\"camel-mouse\" لیتے ہیں کہ اونٹوں کو اپنے سر بلند رکھنے چاہیں تاکہ کوئی چوہا ان کی نکیل تک نہ پہنچ سکے۔ چوہوں کو مذاق یا مجبوری کی بنا پر بھی ہر گز ساربان یا حدی خوان جیسے عہدے نہیں دینے چاہیں، ورنہ وہ سچ مچ کے رہنما بن بیٹھے ہیں اور اپنی خصلتوں کے طفیل خود اونٹوں کے لیے بھی رسوائی کا ساماں کرتے ہیں۔ انہیں ایک دفعہ شتر سواری کا چسکا پڑ جائے تو پھر انہیں اتارنا نا ممکن حد تک مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسے منصب صرف سلجھے ہوئے اور سنجیدہ انسانوں کے متقاضی ہیں۔چوہوں کوقابو میں رکھنے کے لیے چھوٹی کشتیوں کو بحری جہازوں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ چھوٹی کشتیوں میں دو چار چوہے بھی گھس جائیں تو ان کے لکڑی کے پیندوں میں سوراخ کر کے اسے ڈبو دیتے ہیں۔ ادھر لاکھوں چوہے بحری جہازوں میں پید اہوتے ہیں اور پلتے بڑھتے ہیں، مگرجہازوں کے آہنی پیندوں کی وجہ سے ان میں چھید نہیں کر سکتے۔ نیز بحری جہازوں میں مخصوص وقت کے بعد زہریلا سپرے بھی کیا جاتا ہے، جس سے چوہے تلف ہو جاتے ہیں۔ پس چھوٹی کشتیوں کو بھی اپنے پیندے اور دیواریں آہنی بنا لینی چاہییں اور بوقت ضرورت ان میں زہریلا سپرے بھی کرنا چاہیے۔ اس سے ایک تو چوہے کشتیوں میں سوراخ نہیں کر سکیں گے اور دوسرے باہر سے بھی کشتیوں میں نہ آ سکیں گے، نیزجو آ گئے ہیں وہ سپرے سے تلف ہو جائیں گے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments