سوات کے ایک مورچہ زن صحافی کی کہانی


\"abdul-hai-kakar\"

نام شیرین زادہ، عمر اڑتالیس سال ہے، پیشے کے لحاظ سے صحافی اور رتبے کے لحاظ سے رپورٹر۔
پہلے اپنے ادارے کے لئے جیتے تھے اور اب اپنے لئے۔
درمیانہ قد کاٹھ کے مالک ہیں، نظر کی عینک میں دانشور لگتے ہیں لیکن اگر جنرل مشرف کے لہجے میں بات کروں تو ”وہ کتاب وتاب پڑھتا نہیں ہے۔“
وسعت اللہ خان نے صحافی اور کتاب معطل شدہ رشتے کے بارے میں خوب کہا تھا کہ
”صحافت نے مجھے باخبر کرکے بے علم کر ڈالا ہے۔“
البتہ شیرین زادہ اپنے ادارے کی طرح ہر خبر پر نظر رکھتے ہیں مگر فعال اتنے ہیں کہ ان پر کسی اور کو نظر رکھنا پڑ رہا ہے۔
آپ کھانا کھائیں گے۔؟
بھوکا ہوتے ہوئے بھی کہیں گے، نہ جی زہ ټھیک یم ( نہیں جی میں ٹھیک ہوں)
چائے؟
نہ جی زہ ټھیک یم ۔
کچھ اور پوچھیں تو جواب یہی ہوگا ”نہ جی زہ ټھیک یم“۔
بھلے ہی وہ کہے کہ نہیں جی میں ٹھیک ہوں مگر یہ آدھا سچ ہے ۔
سچ کا دوسرا آدھا حصہ یہ ہے کہ نفسیاتی طور پر ایسی کیفیت سے گزرے ہیں کہ قریبی دوست کو بھی ایسی نظروں سے دیکھتے ہیں کہ گویا پہچان اور بیگانگی کی سرحد پر کھڑے ہیں۔
بے یقینی کی اس سرحد پر سوات کی پوری شورش لنگر انداز ہوئی ہے۔
ذہن کے پردے پر خوف کی پہلی لکیر اس دن کھینچی گئی جب تحریک طالبان کے سربراہ مولانا فضل اللہ کے ترجمان سراج الدین نے انہیں کیمرے سمیت آنے کو کہا اور یہ تاکید کی کہ اکیلے ہی آنا ہے۔

\"shirin-zada-1\"

شیرین زادہ خیر اور خبر کی غیر فیصلہ کن سرحد پر آکر کھڑے ہوگئے۔
خیر اپنی جان کی اور خبر اپنی صحافیانہ جنون کی تسکین کی۔
وہ پہنچے تو بتایا گیا کہ پولیس کے دو سپاہیوں کو ”ذبح“ کرنا ہے اور تم نے تصویریں بنانی ہیں۔
شیرین زادہ نےانکار کیا۔
وجہ پوچھی گئی تو جواب دیا کہ یہ تو ایسا ہے کہ جیسے مجھے ذبح کیا جارہا ہے۔
اس دن کے بعد وہ سراج الدین کے بلیک لسٹ میں شامل ہوگئے اور سزا کی پہلی قسط انہوں نے دو ہزار نو میں فوجی آپریشن سے چند روز قبل سراج الدین کی قید میں گزار کر ادا کی۔
ان کو زمرد کے کان پر سٹوری کرنے کی سزا دی گئی جو طالبان کے آمدنی کا بڑا حصہ تھا.
ایک بار انہوں مجھے فون پر رو رو کر بتا یا کہ ایک اہلکار نے میرے گھر پر فائرنگ کی جس میں میری بہن ہلاک ہوگئی۔
مینگورہ کے گرین اور سہراب خان چوک میں بکھری سر بریدہ لاشوں کی تصویر کا منظر ان کہ ذہن پر نقش ہے ۔
شیرين زادہ ہر صبح اپنی لاش کندھوں پر اٹھا کر رپورٹنگ کے لئے نکلا کرتے تھے۔
Unknown نمبرز سے دھمکی آمیز فون کا آنا معمول تھا۔
معلوم اور نامعلوم دونوں چاہ رہے تھے کہ وہ سوات چھوڑدیں مگر انہوں نے صرف ایک بار دو ہفتوں کے لئے علاقہ چھوڑ دیا مگر صحافت کا چسکا انہیں واپس لے آئی۔
میں نے پوچھا موت کے کنویں میں ٹھہرے کیوں؟
جواب تھا، صحافت کا جنون۔
اگر میں بحیثیت صحافی اس کیفیت سے نہ گزرا ہوتا تو مجھے بھی شاید یہ بات کلیشے لگتی۔

\"shirin-zada-2\"

اسے آپ جنون نہیں اور کیا کہیں گے کہ جب مئی دو ہزار نو میں فوج نے طالبان کے خلاف آپریشن شروع کیا تو پورے سوات نے نقل مکانی کی۔
تمام صحافی نکل گئے لیکن پھر بھی ایکسپریس ٹیلی ویژن پر ایکسکلوسیو فوٹیج چلتی رہی اور شیرین زادہ سیٹلائٹ فون پر تازہ ترین رپورٹ دیتے رہے۔
ان کے ارد گرد جہازوں سے بمباری ہو رہی ہے، توپ کے گولے داغے جا رہے ہیں اور طالبان اور فوج کے درمیاں لڑائی ہورہی ہے۔ لیکن شیرین زادہ کے سر پر صحافت کا جنون سوار ہے۔ کیمرے درختوں میں لگا کے رکھے ہیں اور خود لمحہ بہ لمحہ معلومات دے رہے ہیں۔
اگر ایک طرف طالبان کے خلاف آپریشن جاری ہے تو دوسری طرف شیرین زادہ کو ڈھونڈ نکالنے کا سرچ آپریشن، جو چند دنوں کے بعد بالاخر اس جملے پر آکر ختم ہوئی جب ایک اہلکار نے شیریں زادہ کو دیکھ ادا کیا
”کدھر ہو، تمہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہم پاگل ہو گئے ہیں“۔
ایک دفعہ طالبان نے یرغمال پولیس والوں کی رپورٹنگ کے لئے انہیں بلایا۔ وہ گئے تو دیکھا کہ پینتیس کے قریب پولیس اہلکار مسلح طالبان کے نرغے میں ہیں۔
ان میں سے بعض ان کے واقف کار اور بعض کے چہرے شناسا تھے۔
شیرین زادہ کو طالبانی سزا کی خبر تھی اور بجائے تصویریں کھینچنے کے انہوں نے طالبان ترجمان مسلم خان سے ان کی رہائی کی منت سماجت شروع کردی۔
لیکن جب وہ نہ مانے تو وہ بالاخر شیرین زادہ اس کے پیروں میں گر پڑے تب جا کے مسلم خان نے اس شرط پر رہائی کا وعدہ کیا کہ یرغمال پولیس آفیسر اپنی نوکریوں سے استعفی دے دیں گے اور وعدہ خلافی کی صورت میں وہ تو اپنی بیویوں کو ابھی سے طلاق دیں گے۔
اگلے دن سبھی اہل کار رہا ہو گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عبدالحئی کاکڑ

عبدالحئی کاکڑ صحافی ہیں اور مشال ریڈیو کے ساتھ وابستہ ہیں

abdul-hai-kakar has 42 posts and counting.See all posts by abdul-hai-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments