مصر کا شہید مصر کا غدار


ملک میں پیٹرول کی قلت پیدا کی گئی، خراب معیشت کا تاثر دیا گیا، چھوٹے چھوٹے گروہوں کے ذریعے احتجاج کروایا گیا، عوام میں فوج کی پوزیشن بہتر کرنے کے لئے باقاعدہ کئی مہینے پہلے کوششیں شروع کی گئیں۔ مثلا اگر کہیں کوئی حادثہ ہو جاتا تو قریب ترین فوجی یونٹوں کو ہدایات دی گئیں کہ سول ایڈمنسٹریشن سے بھی پہلے وہاں حاضری لگوائی جائے، تصویر کھنچوائی جائے، ملک کے سرحدی علاقے میں مختلف دھماکے شروع ہو گئے جن کی ذمہ داری انجان قسم کے گرہوں نے لینا شروع کر دی، اپوزیشن کو بیک ڈور تسلیاں دی گئیں، حوصلہ افزائی کی گئی، اٹھارہ جون کو ایک خفیہ خط کے ذریعے کور کمانڈروں کو کسی بھی ایمرجنسی کے لئے تیار رہنے کا کہا گیا، فوجی جوانوں سے وفاداری کا حلف لیا گیا۔ اور تین جولائی کو صدر مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔

جرنل السیسی اور اس کے ساتھی جرنیلوں نے ملک کا نظام اپنے ہاتھ میں لے لیا، آئین کو ردی کی ٹوکری میں پھینکا، سپہ سالار نے اپنی ٹوپی ترچھی کی، سینہ چوڑا کیا، سٹیٹ ٹیلی ویژن پے خطاب شروع ہو گیا۔ تین مہینے میں الیکشن کا اعلان، بیرکوں میں واپس جانے کا وعدہ، وہی گھسی پٹی تقریر جو سب ڈکٹیٹر کرتے ہیں اور بھولے بھالے لوگ یقین کر لیتے ہیں۔ عدالتوں نے بھی چڑھتے سورج کی طرف رخ کر لیا۔ مظاہرین اپنے گھروں کو چلے گئے، اپوزیشن کی قیادت تو جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔ صدر مرسی اور اس کے ساتھیوں کو جیل میں ڈال دیا گیا، غداری، قتل، بدعنوانی سمیت تعزیرات مصر میں جو بھی کبیرہ گناہ تھے انہیں مقدمات میں بروئے کار لایا گیا۔

چھ برس بیت گئے، نہ معیشت سنبھلی، نا روزگار ملا، نا انصاف ہوا، نا الیکشن آئے اور نا ملک کی حالت سنوری۔ ان چھ برسوں میں مرسی کو حراست میں رکھا گیا۔ میڈیکل سہولیات تک رسائی نہ دی گئی۔ گھر والوں سے ملاقات پے پابندیاں لگائی گئیں۔ قید تنہائی میں رکھا گیا، مشقت کروائی گئی۔ مذاق اڑایا گیا۔ تذلیل کی گئی۔

صرف یہی نہیں، ان چھ سالوں میں مصری افواج نے سابق صدر مرسی کو غدار ثابت کرنے کے لئے لاکھوں ڈالر خرچ کیے ، ادارے استعمال کیے ، پروپیگنڈا کیا، پریس ریلیزیں کی گئیں، صحافی قتل کیے ، اخبار خریدے، ہر جتن کیا۔ لیکن آج جب عدالتی کارروائی کے دوران مرسی زمینی خداؤں کی عدالت سے حقیقی خدا کی عدالت میں پیش ہوا تو تاریخ نے اسے شہید کہہ کے پکارا۔

قارئین تاریخ بڑی بے باک ہے۔ ایک منٹ میں فیصلہ دے دیا۔ اب صدیاں بیت جائیں، جرنل السیسی ہزار سال جی لے، تاریخ اسے فرعون کے طور پے نہ صرف یاد رکھے گی بلکہ دوسرے فرعونوں کی طرح عبرت کا نشان بھی بنا دے گی۔

دن مہینے سال، کسے معلوم کون کتنا جیتا ہے۔ نجانے کیوں انسان سزا اور جزا سے غافل ہو کے اپنی حیثیت اور اوقات سے بڑے گناہ کر جاتا ہے جن کی سزا کروڑوں لوگوں کو بھگتنی پڑتی ہے۔

بھٹو تختہ دار ہے لٹک گیا۔ کتنی مہلت دی موت نے جرنل ضیا کو۔ نو برس بھی پورے نہیں ہو پائے، جسد کی خاک تک نہ ملی۔ دندناتا پھرتا تھا، آج ملک کی ننانوے فیصد آبادی کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کی فرضی قبر کہاں ہے، اور دوسری طرف کروڑوں لوگ بھٹو پے واری ہیں، اس کی پیدائش کا جشن مناتے ہیں، اس کی موت کا ماتم کرتے ہیں۔

خودغرضی اور غرور کا آج بھی وہی عالم ہے۔ میڈیا پے قدغنیں، الزامات، جھوٹے مقدمے، قتل، ریفرنس، جیلیں، فیصلے، سازشیں، کچھ نہیں بدلا، اگر کچھ نہیں بدلا تو ملک بدل جائے گا؟ یہ جو پانچ پانچ ہزار بندے لٹکانے کے چکر میں ہیں ان سے ایک بڑا سادہ سا سوال ہے، مان لیا کہ ستر سال سے حکمرانوں نے اس ملک کو لوٹا ہے، عوام کا خون چوسا یے، کیا آپ یہ مانتے ہیں کہ ستر سال سے حکمران کون ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).