اس ملک میں ہر شخص ہی جاسوس ہے


الحمد للہ ہم دنیا کی واحد قوم ہیں جس کا ہر فرد جاسوس ہے، ہرآدمی دوسروں کی جاسوسی پر اتنا مگن ہے کہ باقی سب کاموں سے بیگانہ ہو چکا ہے، نو نو عمری میں کرکٹ کاشوق پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ عمران خان اگاتھا کرسٹی کے ناول بھی شوق سے پڑھتے رہے ہیں، اسی لئے تو انہوں نے وزیر اعظم بننے سے پہلے پہلے ہی سے جاب پر موجود لوگوں سے پچاس لاکھ نوکریوں کا وعدہ کر لیا تھا، انہیں معلوم تھا کہ نوکریاں نہ بھی دیں تو کوئی کسکے گا بھی نہیں، کسی کو فرصت ہی نہ ہوگی حکمرانوں کے کسی وعدے کے ایفاء ہونے یا نہ ہونے کو یاد رکھنے کی، ہم تو اتنے مصروف رہتے ہیں کہ اپنے ہمسایوں تک کی جاسوسی کرنا پڑتی ہے، کس کے گھر کون آیا؟ کون گیا؟

ہم اپنے دوستوں کی جاسوسی کرتے ہیں کہ وہ آپ سے ملے نہ ملے آپ کو اس کے چوبیس گھنٹوں کے معمولات کا علم ہوتا ہے، دوست تو دوست ہم دوستوں کے گھر والوں کی نگرانی بھی کرتے رہتے ہیں۔ دفاتر سرکاری ہوں یا نجی، ہر ملازم نے اپنی ڈیوٹی دوسرے ساتھیوں کی جاسوسی پر لگا رکھی ہے، باس کا بھی کڑا پہرا دیا جاتا ہے، کہیں بے چارے کو کوئی حادثہ پیش نہ آ جائے، ابھی تازہ ترین مثال ہی دیکھ لیجیے، ہماری کرکٹ ٹیم ہارنے کے لئے انگلستان گئی تو کرکٹ بورڈ کی انتظامیہ کتنی کامیابی سے ان کی جاسوسی کرتی رہی، کرکٹ انتظامیہ نے سراغ لگا لیا تھا کہ دو کھلاڑی کیفے میں شیشہ پینے گئے تھے، انتظامیہ کے علم میں یہ بھی تھا کہ کھلاڑیوں نے ایک گھر میں دعوت بھی اڑائی، آپ کرکٹ بورڈ سے مکی آرتھر کی مصروفیات کے بارے میں کوئی سوال کرلیں، جواب فٹافٹ مل جائے گا، کپتان سرفراز نے جاسوسوں کی رپورٹوں کی بنیاد پر ہی فیلڈنگ، باؤلنگ اور باؤنڈری پر کھلاڑیوں کی نمبرنگ کی، سب کام سائنٹیفک انوسٹی گیشن کی بنیادوں پر ہو رہے ہیں، اسی لئے تو جدھر دیکھیں ہر شے کی بنیاد ہلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔

موجودہ حکومت کو پچھلے دس مہینوں سے صرف دو سیاسی خاندانوں کے اثاثوں کا پوری طرح پتہ چل رہا ہے نہ بیرون ممالک سے ان اثاثوں کی واپسی کا کوئی راستہ مل رہا ہے، کیا اس ملک کی ایجنسیوں اور تفتیشی اداروں نے پچھلے بہتر برس میں پہلے اس طرح کا کوئی کارنامہ انجام دیا ہے جوآج ان سے امید لگا لی گئی ہے؟ یہ کام بھی صرف اس ملک کے عوام ہی انجام دے سکتے تھے، ان عوام کو صرف دو سیاسی گھرانوں کے ہی نہیں ان ہزاروں طاقتور خاندانوں کے خفیہ اثاثوں کا بھی ایک ایک راز معلوم ہے، جن کے احتساب کی شاید کبھی باری ہی نہ آئے۔

عوام جن کا احساس محرومی دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے، ان کے اندر جاسوسی کی طاقت بھی ساتھ ساتھ مضبوطی کے ساتھ جڑیں پکڑ رہی ہے، انہیں وزیر اعظم کی بے بسی کی بھی خبر ہے اور وہ زورآوروں کے اگلے فیصلوں سے بھی با خبر ہیں، ۔ عوام جانتے ہیں کہ اس ملک کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو کبھی ایک دوسرے کی مخبریاں کرنے کرانے سے ہی فرصت نہیں ملے گی اور کبھی کوئی ان کی جانب متوجہ نہیں ہوگا، لوگ عمران خان سے سچی مچی اکتا گئے تو کوئی اور راستہ تلاش کر لیا جائے گا، مگر عام آدمی کوآسانی سے جینے کا راستہ ملے گا نہ مرنے کا۔

ہم اس عالیشان معاشرے کے باسی ہیں جہاں عاشق لوگ محبوباؤں کی جاسوسیاں کراتے ہیں، جہاں کے رکھوالے اپنی رعیت کی جاسوسی کراتے ہیں، اس سوسائٹی کی ماڈل گرلز حریف ماڈلز کی جاسوسی کراتی ہیں، باڈی گارڈ یا سیکرٹری ایک ماڈل کے ہوتے ہیں، تنخواہ کئی ماڈلز سے وصول کرتے ہیں، اس ملک میں توآج حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ ادیب، شاعر اور صحافی تک ایک دوسرے کی کھوج میں لگے ہوئے ہیں، بے چاری شاعرات میں کوئی خوبصورت چہرہ نگاہوں میں آ جائے تو اس کی شامت آ جاتی ہے، اس کی جاسوسی کرائی جاتی ہے کہ اشعار کس سے لکھواتی ہے؟

ماضی میں بھی کئی استاد شعراء کرام پر خوبصورت لڑکیوں کو کامیاب شاعرات بنانے کے الزامات لگتے رہے ہیں، گویا ہم خواتین کے حوالے سے ایک مشکوک معاشرے میں زندہ رہ رہے ہیں، اور یہ ماننے کو تیار نہیں کہ آج مہنگے میک اپ کے دور میں بھی خواتین ادبی ذوق رکھتی ہوں گی ۔

یہاں کے تاجر اور دکاندار اپنے ایک ایک گاہک کے جاسوس ہیں، اپنے پرماننٹ کلائنٹس کے بارے میں تو ان کی معلومات گاہکوں کے رشتہ داروں سے بھی زیادہ ہوتی ہیں، ہر گاہک کے لئے ہر شے کی قیمت مختلف مقرر ہوتی ہے، قصاب کبھی اس گاہک کو سودا نہیں دیتے جسے گوشت کی پہچان ہو، اسے دکان میں داخل ہوتے ہی کہہ دیا جاتا ہے کہ سودا بک چکا ہے، اناڑی گاہکوں کوآنکھ مار کر کرسیوں پر بٹھا لیا جاتا ہے، ان کی خاطر تواضع کے لئے چائے اور جوس کا آرڈر بھی دیا جاتا ہے، اتنی عزت اور احترام پانے والا جب گھر پہنچتا ہے تو جو خاطر بیگم کرتی ہے وہ اس کی سٹی گم کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے، جاسوس قصاب اور بیوی کے عذاب سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ گوشت کا خریدار کسی سرکاری گاڑی میں سوار ہو کر جائے، خاص طور پر پولیس کی گاڑیاں آزمودہ ہیں، جو لوگ پولیس کو کاہل، سست، کام چور اور رشوت خور گردانتے ہیں وہ قطعی غلطی پر ہیں، جناب!

ہماری پولیس اس لئے سہل پسند ہے کہ اسے علم ہوتا ہے کہ کون سی واردات کس نے کی؟ کیوں کی؟ اور یہی سب تو لوگ خود بھی جانتے ہوتے ہیں تو پھر پولیس کیوں سر کھپائے؟ پولیس کو پتہ ہوتا ہے کہ معاملہ متاثرین نے بالآخر خود نمٹا لینا ہے، وہ کیوں نہ فریقین کی جیبیں خالی کراکے چپ چاپ بیٹھ جائے۔ یہی حالات عدلیہ خاص طور پر ماتحت عدلیہ کے ہیں، وہاں قدم قدم پر وکیلوں، پولیس اور عدالتی عملے کے جاسوس بکھرے ہوتے ہیں۔

جو سائلوں کو گدھ کی طرح نوچ لیتے ہیں، عدالتی نظام کی فرسودگی پر سابق چیف جسٹس پاکستان نثار ثاقب نے بھی انگلیاں اٹھائیں، موجودہ چیف جسٹس کھوسہ صاحب نے بھی بارہا حکومت کی توجہ دلائی اور واضح طور پر کہا کہ عدالتی نظام میں اصلاحات ضروری ہیں، مگر بات پھر جاسوسوں کی، اگر حکومت کو اپنے بارے میں مخبروں سے جاسوسیاں سننے سے فرصت ملے گی تو کسی اور جانب توجہ دے گی نا۔ حکومت صرف وزیر اعظم ہاؤس، ایوان صدر یا کسی سیکرٹریٹ کا نام نہیں ہوتا ہر وہ جگہ جو حکومتی عملداری میں آئے وہاں حکومت کو ہی بیٹھے ہوئے تصور کیا جائے، جیسے اسپتال یا تعلیمی ادارے، جاسوسی کا رحجان ہر جگہ موجود ملے گا، سرکاری اسپتالوں میں اکثر نرسیں ڈاکٹروں کی اور ڈاکٹرز نرسوں کی جاسوسی کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں، عدم توجہ کا شکار مریض بے چارے کیا کریں، ان کا اور تو کوئی بس چلتا نہیں وہ وہاں ڈاکٹروں اور نرسوں دونوں کی جاسوسی شروع کر دیتے ہیں، بڑے بڑے سرکاری اداروں کا عالم یہ ہے کہ جن چھوٹے ملازمین کے پاس کرنے کے لئے کوئی کام نہیں ہوتا وہ اپنے افسروں کی جاسوسی شروع کر دیتے ہیں اور بیگمات سے انعام و اکرام پاتے ہیں۔

جاسوسوں کے اس معاشرے کے لئے حرف آخر۔ یہاں شادی بیاہ کی تقریبات میں بھی جاسوسیاں ہوتی ہیں، باراتی لڑکے اور لڑکی کے خاندانوں کے کھاتے کھولتے نظرآتے ہیں، دلہا اور دلہن کے حسب نصب، شادی کیسی ہوئی، اس کا انجام کیا ہوگا؟ لڑکے کا مستقبل کیا ہوگا؟ لڑکی کے نصیب میں کیا لکھا ہے، اتنی معلومات کہ پورا اخبار چھپ جائے، اور یہ سب کچھ جنازوں پر بھی دکھائی دیتا ہے، مرنے والے اور اس کے لواحقین کے حوالے سے جو جو انکشافات سننے کو ملتے ہیں، انہیں ریکارڈ کر لیا جائے تو لوگ سر عام مرنا بند کر دیں۔
بشکریہ روزنامہ 92


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).