آشا بھابھی کی کھڑکی


آشا بھابھی کی زندگی کے بارے میں اتنا کچھ جان لیا، مگر ابھی تک آپ نے ان کا حلیہ نہ پوچھا۔ وہ بیالیس سال کی ہیں۔ بیالیس سال میں عام طور پر ہمارے کی یہاں عورتیں بے ڈول ہوجاتی ہیں، ان کے پیٹ نکل آتے ہیں، رنگ گہرا ہوجاتا ہے، ان کے باتونی پن میں اضافہ ہوجاتا ہے، روڑھا اور زندگی کا اکہرا پن انہیں بے حد بور اور بے رنگ بنا دیتا ہے۔ مگر آشا بھابھی کے ساتھ ایسا نہیں ہوا، ان کی جوانی گویا کسی ساتوں پردوں میں چھپے ہوئے بھنورے کے کسی پر میں موجود تھی، اور جب تک وہ پر نہ ٹوٹتا معلوم ہوتا تھا، ان کے حسن کا بال بیکا ہونا ممکن نہیں ہے۔

محلے کے کئی لڑکے، اس تمام تر خوف اور دہشت کے باوجود، دل میں ان کے لیے حسرت پالے بیٹھے تھے۔ ان کا رنگ تو سانولا تھا، مگر پیشانی کشادہ تھی، بال ایسے جیسے کسی ریشمی تھال سے اتارے گئے تازہ، گھنے کالے دھاگے ہوں، بال کیا تھا، بالی تھی۔ پسلیوں سے ہنسلیوں تک ایک ایک عضو، جیسے دعوت نظارہ دیتا معلوم ہوتا تھا، کمر کا لوچ، گردن کی چکناہٹ، شانوں کی چمک، سینے کی ابلی ہوئی دو تنی ہوئی پھانکیں۔ جہاں سے جس کی نظر پڑ جائے، وہ حیران رہ جائے۔

 کبھی کبھی جب وہ پیٹھ کو نمایاں کرتی ہوئی جھم جھم ساری میں بازار سے پلٹ رہی ہوتیں تو دیکھنے والی نگاہیں، بڑی دور تک ان کا تعاقب کرتیں۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ ان باتوں سے بے خبر تھیں، مگر جنس کی پجاری نہیں تھیں، ان کے عادت و اطوار میں ایک سلیقہ تھا، کسی کو رجھا کر اسے اپنے بستر تک لے آنا، ان کے لیے کوئی معمولی بات نہ تھی، مگر وہ چاہتی تھیں کہ کوئی ایسا اگر ہو جو قدر شناسی کا ہنر رکھتا ہو، جو اس سانولے یاقوت کی چمک اور قیمت کو جانتا ہو، جو بدن کو روند کر نکل جانے والا نہ ہو، بلکہ اس پر اپنی انگلیوں سے ویسے ہی نقش بنانے والا ہو، جیسے گودام نما کمرے میں رکھے ہوئے پرانے برتنوں پر بنے دائمی نقوش تھے۔

 کوئی ایسا جو آج کی سائنسی اور دریافتوں والی دنیا میں بھی، شاعر کی طرح انہیں چاہے۔ ایسا نہ ہو کہ بس وصل منا کر لنگوٹ باندھنے کی جلدی میں رہے، بلکہ ان کے عریاں بدن پر وصل کے بعد بھی زبور جیسے مدھم اور ملائم گیت لکھے۔ انہیں وہ باتیں بتائے، جو وہ خود کے بارے میں جانتی تو ہوں، مگر خود سے کرتے ہوئے کتراتی ہوں۔ ان کے حسن کی چاندنی میں بھیگے، ان کے روپ کی دھوپ میں نہائے۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ محبت کے لمحوں میں آنکھوں سے جذبات کے سارے رنگ الٹ دے، لفظ کی ساری گٹھریاں کھول دے، مگر ہوش کے ناخن آتے ہی، بیداری کی دنیا میں پلٹتے ہی انہیں آشا سے پھر آشا بھابھی ہو جانے کی طرف لوٹ جانے دے، ان کے پراسرار، رومانی، جنسی اور جرم سے بھرے ہوئے قصوں کی دنیا میں۔

جہاں وہ اکیلی ہوں، جہاں صرف انہی کی حکومت ہو۔ ایسا کوئی ملنا تو کیا ہونا ہی مشکل تھا۔ آدمی ذات محبت نہیں کرسکتی، وہ جلد باز ہوتی ہے۔ اسے حسین سے حسین بدن کو نوالے کی طرح ٹھونسنے اور گھونٹ کی طرح نگل لینے کا طریقہ ہی آتا ہے۔ آدمی کبھی نہیں سمجھتا کہ عورت رات کی طرح بھیدوں بھری دنیا میں، تاریکی اور روشنی کے ملے جلے سمندر کی امین ہے۔ اسے ہڑپنا نہیں، برتنا چاہیے۔ وہ موسم کی طرح اپنے مزاج کے حساب سے کھل کر برستی ہے، ٹوٹ کر گرجتی ہے، گرم ہو تو چندیاں تک جلا دے اور سرد ہو تو تلووں کی آگ تک کو ٹھنڈا کردے۔

اچھا اب آگے سنیے، آشا بھابھی کے مکان کے سامنے ٹیڑھی طرف کو ایک کھڑکی آپ کو دکھائی دے رہی ہوگی، یہ نہیں، اس سے نیچے، جی ہاں، ٹھیک یہی۔ یہاں ابھی ایک پٹ کھلا ہوا ہے، تھوڑی دیر رکیے، ابھی دوسرا پٹ بھی کھلے گا، روشنی بھی ہوگی اور ایک ہیولا سا منڈراتا ہوا کھڑکی میں میلے چاند کی طرح اترتا دکھائی دے گا۔ یہ منظر آشا بھابھی اپنے گھر کے کچن سے پچھلے چار دنوں سے دیکھ رہی ہیں، کوئی ہے، جو انہیں ٹھیک اسی وقت دودھ ابالتے ہوئے دیکھتا ہے۔

 آشا بھابھی اس سے پہلے تو دودھ کے ابلنے تک دوسرے کام نمٹا لیا کرتی تھیں، مگر چار دن سے، یعنی جب سے کسی کے دیکھنے کا گہرا احساس ان کی آنکھوں میں سمایا ہے، وہ دودھ ابلنے تک یہیں کھڑی رہتی ہیں، ایک دو دن انہوں نے ان نگاہوں کی تپن کو اپنے چہرے اور بدن پر محسوس تو کیا مگر اچھی طرح نگاہیں اٹھا کر وہاں نہ دیکھا، مگر کل شام ان سے نہ رہا گیا۔ انہوں نے دیکھا کہ اس کھڑکی میں سے ایک لڑکا، جس کی عمر کا اندازہ اتنی دور سے ٹھیک ٹھیک کرنا مشکل تھا، انہیں دیکھ رہا ہے، آشا بھابھی کو چار دن بعد یہ کھیل اچھا لگنے لگا۔

 وہ اب ٹھیک اسی وقت دودھ ابالنے آتیں، لڑکے کے خطوط نمایاں نہ ہونے کے باوجود محسوس ہوتا تھا کہ وہ قبول صورت ہے۔ مگر جو بات سب سے بڑی تھی وہ یہ کہ جتنی دیر آشا بھابھی وہاں کھڑی رہتیں، وہ انہیں دیکھتا رہتا، اس کے باوجود کہ دونوں کی نگاہیں مل رہی تھیں، مگر اس کی آنکھوں میں آشا بھابھی کے لیے کوئی خوف نہ تھا، ایک والہانہ پن تھا، جیسے وہ کسی مصور کی بنائی تصویر دیکھ رہا ہو، کسی تاریخی عمارت میں گھوم گھوم کر ایک ایک دیوار کو انگلیوں سے محسوس کررہا ہو، اس عمارت کی کہانی کو اپنی نگاہوں کی افسردگی سے زمانوں اور افواہوں کے پردے چیر کر اچھی طرح پڑھ لینا چاہتا ہو۔

 آنکھیں شناسائی کی بہترین گواہ ہیں، دو لوگ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس بات کو معلوم کرسکتے ہیں کہ وہ کب تک ایک ساتھ رہیں گے۔ اب آشا بھابھی کا یہ روز کا معمول تھا کہ وہ دن بھر ادھر ادھر کے کاموں میں وقت گزارتیں، مگر ہر لمحہ ان کا دھیان شام کے اسی پہر پر جاتا، جب وہ کھڑکی کھلے گی اور وہاں سے جھانکتی ہوئی ایک نوجوان کی نگاہیں، ان کو بے تابی اور بے فکری سے تکا کریں گی۔ وہ دونوں نگاہوں ہی نگاہوں میں دنیا جہان کی باتیں کریں گے۔

 نہ کسی فون نمبر کی ضرورت ہوگی، نہ کسی خط و کتابت کی۔ بس نگاہوں کی دنیا میں دو بدن سارے مراحل سے گزر جائیں گے۔ بعض اوقات آشا بھابھی کو محسوس ہوتا کہ اس لڑکے کی نگاہیں، ان کے سینے کو اپنی مٹھیوں میں بھینچ رہی ہیں، ایک دفعہ انہوں نے دودھ پکاتے وقت اپنے آپ کو گرمی کے بہانے کا دھوکا دیتے ہوئے، بلاؤز کو کافی حد تک کھول دیا تھا، جس سے ان کے پستانوں کی چکنی گولائیاں، تنی ہوئی دو ننھی کیلوں سمیت باہر کی طرف دوڑ پڑی تھیں، گویا لڑکے کے سینے میں دھنس جانا چاہتی ہوں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3