رحمت علی رازی: سومنات جہان میں محمود شکل ایاز


وہ دکھ ہے جس کا بیان نہیں۔ کس طرح اس کرب کا اظہار کروں۔ زبان ذہن اور قلم قرطاس کا ساتھ نہیں دے رہا۔ سارے ہی رنگ الجھ گئے ہیں۔ سارے مکانوں سے نام کی تختی اتر گئی۔ دل اداس الفاظ بے ربط بے ضبط خاموش۔ اجڑے دیار میں لُٹی لُٹی سی شام کا منظر ہے۔ دل کی دھڑکنیں بھی بے سرے ساز کی طرح بے ترتیب ہیں۔ سانسیں بھی تلاطم خیز کبھی مدھم کبھی تیز۔

اشک آنکھوں سے رواں ہیں اور جگر جلتا ہے
کیا قیامت ہے کے برسات میں گھر جلتا ہے

رحمت علی رازی صاحب کو چند سطروں میں بیان کرنا ممکن نہیں نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں۔ محب وطن سچا پاکستانی۔ نڈر صحافی، مستند کالم نگار، تحقیقی رپورٹر، بیوروکریسی کا نبض شناس، نئے صحافیوں کا محسن، خوش اخلاق، خوش کردار، خوش لباس۔ سات اے پی این ایس ایوارڈ یافتہ واحد صحافی۔ صدارتی تمغہ برائے حسن کارکرگی سمیت کئی ایوارڈ اور سندیں سمیٹے والا متحرک آدمی۔ اپنی ذات میں انجمن، محفلوں میں جان محفل۔ رازی صاحب کا تعلق اس قبیلے سے تھا جن کو جغادری صحافی کہا جاتا ہے۔ جو نرم گرم چشیدہ لوگ تھے۔ جنہوں نے صحافت کے اساتذہ سے سیکھا اور ان کے ساتھ کام کیا۔

رازی صاحب تو سراپا محبت و عشق حقیقی میں گوندھے ہوئے شب بیدار، صبح زندہ دار شخصیت کے مالک تھے۔ شاید کچھ نام کا بھی اثر تھا اسی لیے طبیعت میں رحمت، حلم اور ٹھہراؤ زیادہ تھا۔ ایک ولی صفت انسان، اک شفیق دوست، مہربان استاد اور شجر سایۂ دار ہم سے رخصت ہوگیا۔ کون جانے کتنے گھروں کا چراغ ان کے لہو سے جلتا تھا۔ رازی صاحب تو اس سومنات جہاں میں محمود شکل ایاز تھے۔ بہاولپور کا ستارہ پوری آب تاب سے چمکتے چمکتے لاہور میں غروب ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

سمجھ نہیں آتی کس طرح اپنے دکھ کا اظہار کروں اور کس سے اپنے دکھ کا اظہار کروں۔ جب میں نے کالم نگاری شروع کی تو انھوں نے اک شفیق استاد کی طرح قدم قدم پہ رہنمائی کی۔ یہ ان کی محبت اور شفقت ہی تھی جو میرے کالم روزنامہ طاقت کے صفحات کی زینت بننے لگے۔ جب تیز بات یا سخت جملہ لکھتا تو سمجھاتے اس کو کس طرح بہتر کیا جاسکتا ہے یا الفاظ کے چناؤ اور ہیر پھیر سے کیسے کھیلا جا سکتا ہے۔ جس کو صحافتی زبان میں گر کی بات کہتے ہیں۔

میری ہراتوار کو تیسرے پہر رحمت رازی صاحب سے فون پہ بات ہوتی کیونکہ اتوار کو ہی ان کا کالم شائع ہوتا تھا۔ ان کے کالم پہ سیر حاصل بات ہوتی۔ رازی صاحب کا رویہ حکومت کے خلاف عموماً سخت تھا۔ اک دفعہ میں نے رازی صاحب سے ازراہ تفنن پوچھا ”سر آپ حکومت کو رگیدتے بہت ہیں کوئی رعایت یا معافی نہیں ہے“۔ ان کا جواب بڑا شاندار تھا جو آگے چل کر میرے بڑا کام آیا۔ کہتے لگے ”بیٹا ہم صحافیوں کا کام حکومت پہ مثبت تنقید کرنا اور حق بات کہنا ہے۔

ہمارا کام حکومت کی فضول تعریف اور ہر بات پہ واہ، واہ کرنا نہیں۔ یہ کام تو ڈوم ڈھاری اور بھانڈ لوگوں کا ہے“۔ افسوس صحافت میں اب زیادہ تر صرف واہ واہ والے ہی بچے ہیں۔ یا پھر واہ واہ کرنے والوں نے صحافت کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ جن کا کام ہر حکومت کے آنے پہ تالیاں بجانا رہ گیا ہے۔ اس جہان فانی سے آخر سب کو جانا ہے۔ کار جہاں بے ثبات کار جہاں بے ثبات۔ بہت کچھ لکھنے کو بہت کچھ کہنے کو دل کرتا ہے لیکن اس غم کی گھڑی میں الفاظ ساتھ نہیں دے رہے۔

بس نام رہے گا نام اللہ کا جو غائب بھی ہے حاضر بھی۔ جو ناظر بھی ہے منظر بھی۔ جو اوّل بھی ہے آخر بھی۔ جو اعلیٰ بھی ہے افضل بھی۔ جو کامل بھی ہے اکمل بھی۔ جو خالق بھی ہے مالک بھی۔ جو حامی بھی ہے ناصر بھی۔ جو نہاں بھی ہے عیاں بھی۔ اللہ کریم سے دعا ہے وہ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کی آخرت کی منزلیں آسان فرمائے آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).