فادرز ڈے اور سالگرہ


بچپن میں ہی ہمیں بتا دیا گیا تھا کہ مغربی تہذیب کے کبھی پاس سے بھی نہ گزرنا۔ الحمدللہ ہم گوروں اور ان کی تہذیب کو اپنی ثقافت اور روایات کا دشمن سمجھتے ہیں۔ ہم گوروں کی کسی بھی قسم کی نقالی کو اپنے اوپر حرام سمجھتے ہیں۔

گوروں نے مختلف رشتوں، بیماریوں اور سماجی مقاصد کے لیے سال بھر میں ایک ایک دن منانا شروع کیا۔ ہم نے اس کا بائیکاٹ کیا۔ ہمیں کسی رشتے کو منانے کے لیے ایک مخصوص دن کی کیا ضرورت۔ مسئلہ تو تب ہوا جب انہوں نے محبت کے نام پر ایک دن بنا دیا۔ محبت سے تو ہمارا ازلی بیر ہے۔ محبت کی شادی کرنے والوں کا انجام ہم روز اخبارات میں پڑھتے اور ٹی وی پر دیکھتے ہیں۔

ہم تو خیر ہم تھے لیکن یہ نئی نسل جانے کیوں اپنی تہذیب بھولتی جا رہی ہے۔ گوروں کی دیکھا دیکھی انہوں نے مختلف دن منانے شروع کر دیے۔ پہلے تو ہم چپ رہے۔ آخر ہمارے اپنے لوگ ہیں لیکن جب ہم نے اس نسل کو محبت کا دن مناتے دیکھا تو ان کی بھلائی کے لیے اسی دن حیا ڈے منانا شروع کر دیا۔ گرچہ قرآن میں اس دن کو منانے کا کوئی حکم نہیں دیا گیا لیکن ہم یہ اپنی نئی نسل کو حیا سکھانے کے لیے کر رہے تھے۔ اس دن ہم نے ریلیاں نکالیں، جلسے کیے اور تو اور فحاشی کی جڑ یعنی خواتین میں سکارف اور چادریں بھی بانٹیں۔ محبت کے دن کے علاوہ خواتین کے عالمی دن کو تھوڑی بہت ایسی توجہ ملی، بقیہ دن نظر انداز ہی ہوئے۔

گذشتہ اتوار دنیا بھر میں فادرز ڈے منایا گیا، پاکستان میں بھی پورے جوش و جذبے کے ساتھ عوام نے یہ دن منایا۔ لوگوں نے سوشل میڈیا پر اپنے اپنے والد کی شان میں لمبی چوڑی پوسٹس کیں، برانڈز نے تین دن تک اپنی اپنی مصنوعات پر سیل لگا دی، گھروں میں ایک دن تھوڑا سا جوش آ گیا، کیک کاٹے گئے، کھانا کھایا گیا اور ایک دوسرے کا شکریہ ادا کیا گیا۔ مجھے حیرانی ہوئی کہ اس دن کے خلاف جلوس کیوں نہیں نکلا؟ کیا فادرز ڈے کسی دیسی کی ایجاد ہے؟ کیا ہم ہر دن فادرز ڈے کے طور پر نہیں مناتے؟ کیا گوروں کی طرح ہمیں اپنے باپ کا شکریہ ادا کرنے کے لیے سال کا ایک دن مختص کرنا ہوگا؟

اس سے پہلے کہ پریشانی مزید بڑھتی ایک دین کا علم رکھنے والے صاحب سے رابطہ کیا اور ان کے سامنے اپنی پریشانی رکھی۔ یہ صاحب ایک نامور مدرسے کی طرف سے فتویٰ جاری کرنے کی سند رکھتے ہیں۔ کہنے لگے کہ حتی الامکان اس دن کو منانے سے بچنا چاہیے۔ یہ انگریزوں کی خرافات ہیں، ہمیں اپنی روایات کو زندہ رکھنا چاہیے۔ ان کا جواب سن کو دل کو تسلی بھی ہوئی اور دکھ بھی۔ والد صاحب تھوڑے خوش ہو گئے تھے۔ انہیں سمجھانا پڑا کہ آپ کی چند لمحوں کی خوشی کی خاطر ہم اپنی صدیوں کی ثقافت کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتے۔ والد صاحب بھی روایتی آدمی ہیں، سمجھ گئے۔

ہمارے دادا بھی ایسے ہی روایتی تھے۔ زندگی بھر سالگرہ منانے کے خلاف رہے۔ ہماری والدہ ہر بچے کی سالگرہ پر گھر میں ہی کچھ نہ کچھ انتظام کر لیتی تھیں۔ اسی بہانے کوئی نئی ڈش بن جاتی، ہمیں ایک آدھا کھلونا مل جاتا اور سب کسی پارک کا چکر لگا آتے۔ دادا اس پر بھی ناراض ہوتے۔ کہتے گھومو پھرو، کھاؤ لیکن سالگرہ نہ مناؤ۔ ہمیں وجہ نہ سمجھ آتی۔ صاحبِ اولاد ہونا ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ ہر سال اس دن کو یاد کرنا اور اپنی اولاد کے ساتھ اس دن کی مناسبت سے کوچی منانا کیسے مذہب کے منافی ہو سکتا ہے۔ خیر باپ باپ ہوتا ہے اور وہ تو ہمارے باپ کے بھی باپ تھے۔

سالوں گزر گئے۔ بچے گھروں سے سکول اور وہاں سے کالج تک پہنچ گئے۔ دادی دوسرے جہاں سدھار گئیں۔ سب کی مصروفیت بڑھ گئی۔ دادا تنہائی کا شکار ہو گئے۔ کوئی نہ کوئی آتا رہتا تھا لیکن پہلے والی بات نہیں تھی۔ زمانے کا دستور ہی ایسا ہے۔ ایک دن جانے کسے دادا کی تاریخِ پیدائش پتہ لگی۔ سب نے اس دن ایک سرپرائز پارٹی کا پلان بنا لیا۔ مقررہ دن سب ان کے کمرے میں اکٹھے ہوئے۔ سالگرہ کی مبارک باد دی گئی، کیک کاٹا گیا، تحائف دیے گئے۔ تحائف بھی کیا تھے کوئی بسکٹ کا ڈبہ لے آیا تو کوئی گُڑ کی دو ڈلیاں، کسی نے پاجامہ تحفے میں دیا تو کوئی کرسی لے آیا۔

اپنی سب اولاد کو اکٹھا دیکھ کر دادا بہت خوش ہوئے۔ بہت جوش سے کیک کاٹا، تحائف کھولے، کھانا کھایا اور اس خوشی کو محسوس کیا جو انہوں نے اپنے اور اپنے گھر والوں پر سالوں سے حرام کی ہوئی تھی۔ ان کی وفات تک ہر سال ایسے ہی ان کی سالگرہ منائی گئی اور ان کی وفات کے بعد شاید اب کسی کو یاد بھی نہیں کہ کبھی ہمارے خاندان میں سالگرہ منانا ’حرام‘ سمجھا جاتا تھا۔

اگر اُس دنیا سے اِس دنیا میں پیغام بھیجا جا سکتا تو شاید دادا آپ سب کو یہی پیغام دیتے کہ اپنی جھوٹی انا اور ضد کی خاطر خوشیوں کو خود پر حرام نہ کریں۔ چند دن کی زندگی ہے، اسے جی کر گزاریں۔ بعد میں تو سب کا انجام ایک سا ہی ہونا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).