محبت، مہنگائی، ایڈز اور پولیو


حضرت قائدِ اعظم کے پرانے پاکستان کی عمارت کے 4 ستون تھے۔ عدلیہ انتظامیہ مقننہ اور پریس۔ نئے پاکستان کے خالق حضرت عمران خان کی ریاست کے 4 نئے ستون یہ ہیں۔ محبت کی قحط سالی، مہنگائی، ایڈز اور پولیو کی فراوانی۔ یعنی محبت کی قحط کے علاوہ باقی مہنگائی ایڈز اور پولیو کا سونامی آ گیا ہے۔ لیکن گھبرانے کی بات نہیں ہے کیوں کہ ہمارے عالمی مبلغ حضرت مولانا طارق جمیل صاحب وزیراعظم عمران خان سے بہت متاثر اور سوفیصد مطمئن ہیں کہ خان صاحب نئے پاکستان کو ریاستِ مدینہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

تاہم ابھی تک خان صاحب نے مولانا صاحب کو وزیراعظم ہاٶس یا بنی گالہ میں خصوصی دعا کے لئے مدعو نہیں کیا ہے۔ میرے خیال میں اس کی نوبت شاید اس لئے نہیں آئے گی کہ خان صاحب خود نہ صرف پیرنی صاحبہ کے دست بیعت ہیں بلکہ ان کے مجازی خدا بننے کا شرف بھی حاصل کیے ہوئے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پیرِکامل کا شریک حیات بنتے ہی وہ ملک کے وزیراعظم بن گئے اور پھر اس کے تمام سیاسی رقیب بھی مصائب میں مبتلا اور شدید مشکلات کا شکار ہو چکے ہیں۔

سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری جیل پہنچا دیے گئے ہیں۔ حمزہ شہباز بھی قیدی بن چکے شہباز شریف اور فریال تالپور کے لئے بھی انتظام ہو کر رہے گا۔ مولانا فضل الرحمان اور میر حاصل خان بزنجو پارلیمنٹ سے باہر ہیں۔ محمود خان اچکزئی اور اسفند یار ولی کی جماعتیں بھی 2018 کے عام انتخابات میں جمیعت علمائے اسلام کی طرح سکڑ گئی ہیں۔ نیشنل پارٹی کو تو مکمل طور پر اسمبلی سے آٶٹ کر دیا گیا ہے۔

نئے پاکستان میں محبت اور مہنگائی ایک دوسرے کی ضد بن چکی ہیں یعنی جہاں مہنگائی ہوگی وہاں محبت نہیں ہو سکے گی۔ مہنگائی کے سونامی میں لوگ ڈبکیاں لگا رہے ہیں تو ایسی صورت میں کوئی کیسے محبت کر سکتا ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے محبت کی قحط پڑ چکی ہے والدین اپنے بچوں کو محبت پیار اور شفقت کے لئے وقت نہیں نکال سکتے۔ وجہ یہ ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے ان کو کام کام اور بس کام کرنے کی ضرورت ہے تا کہ وہ اپنے بچوں اور اہلِ خانہ کاپیٹ پال سکیں اور تن پر کپڑا ڈھانپ سکیں۔ ایسی مہنگائی تو شاید انقلابی شاعر فیض احمد فیض کے دٶر میں بھی نہیں ہوئی ہوگی مگر شاید اس کے دٶر میں بھی سونامی جیسی مہنگائی کی ایک لہر کچھ وقت کے لئے ضرور آئی ہوگی جس کی وجہ سے وہ بھی محبت سے بحالتِ مجبوری دستبردار ہو گئے تھے اور ان کو یہ شہرہ آفاق کلام کہنا پڑا کہ

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ

اب تو محبت کرنا اور بھی مشکل ہی نہیں ناممکن بھی بنتا جا رہا ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے دن رات محنت کرنے کے باعث ایک ہی گھر میں اور ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والے لوگ ایک دوسرے سے ٹھیک طرح سے بول چال بھی نہیں کر سکتے۔ یہ بھی گوارا ہوتا مگر کیا کیجیئے کہ نئے پاکستان میں ایڈز نے وبا شکل اختیار کر لی ہے۔ پہلے تو صرف لاڑکانہ اور رتوڈیرو کی بات ہو رہی تھی اب تو سندھ کے علاوہ پنجاب بلوچستان اور خیبر پختونخواہ سمیت ایڈز اور ایچ آئی وی کے ہزاروں مریض سامنے آ گئے ہیں۔ اور یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ ایڈز اور محبت ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ ایڈز جذام اور ٹی بی ایسی بیماریاں ہیں کہ جس شخص کو ہو جائے تو اس کے اپنے عزیز و اقارب بھی دور بھاگنے لگتے ہیں اس خوف سے کہ وہ بھی نہ اس میں مبتلا ہو جائیں۔

کہتے ہیں جب مصیبت آتی ہے تو اس کے ساتھ کئی اور مصیبتیں بھی آ جاتی ہیں جس کی واضح مثال پولیو کے مرض میں متلا ہونے والے بچوں کی تعداد میں خطرناک اضافہ ہو چکا ہے۔ جس نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ صرف رواں سال کے 6 ماہ کے دوران پاکستان میں پولیو کے 23 کیسز سامنے آ گئے ہیں۔ ایڈز اور پولیو دونوں انتہائی خطرناک ہیں جس میں پاکستان نمبر ون کی پوزیشن میں آ گیا ہے اور ہمارے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔

ایڈز اور پولیو کے کیسز کی تعداد کے بڑھنے کے باعث ایسا نہ ہو کہ بیرون دنیا میں پاکستانی شہریوں کے داخلے پر پابندی نہ لگ جائے اور بیرون ممالک کے لوگ پاکستان آنے کے لئے بھی کئی بار سوچنے پر مجبور ہوں گے۔ لیکن گھبرانے کی بات نہیں ہے۔ امید ہے کہ کپتان صاحب ایڈز اور پولیو کے بارے میں بھی تحقیقات کے لئے کمیشن بنائیں گے۔ میرے خیال میں ایڈز اور پولیو کے امراض کے اچانک نمودار ہونے میں زرداری اور نواز شریف کا ہاتھ ہو سکتا ہے لیکن کچھ بھی ہوجائے خان صاحب ان کو کسی بھی صورت میں این آر او نہیں دیں گے۔

اور میرے خیال میں ان کے لئے کمیشن ضرور بنایا جائے کہ آخر اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود پاکستان میں پولیو ختم ہونے کے بجائے بڑھتا کیوں جا رہا ہے؟ اور ایڈز اور ایچ آئی وی کے مریضوں میں اچانک کیوں کر اضافہ ہو گیا ہے۔ خدانخواستہ ایسی صورت میں پاکستان ایڈز اور پولیو کے حوالے سے جانا اور پہچانا جائے گا۔ لہٰذا ان بیماریوں کی روک تھام اور کنٹرول کے لئے انتہائی سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).