امریکہ کے ایران پر حملے کا پاکستان کے لیے کیا مطلب ہوگا؟


ایران اور امریکہ کے درمیان گذشتہ کئی سالوں سے جاری تناؤ کی صورتحال نے جمعرات کے روز اس وقت شدت اختیار کر لی جب ایران کی جانب سے دعویٰ سامنے آیا کہ اس نے اپنی فضائی حدود میں امریکہ کا ایک جاسوس ڈرون گرا دیا ہے۔

اس اعلان کے کچھ دیر بعد امریکہ کے ایک فوجی ترجمان نے تصدیق کی کہ اس کا ایک ڈرون ایران کی جانب سے مار گرایا گیا ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ جب ڈرون گرایا گیا تو وہ ایرانی نہیں بلکہ بین الاقوامی فضائی حدود میں تھا۔

خیلجِ عمان میں آئل ٹینکروں پر گذشتہ ہفتے کے حملوں کے بعد یہ سب سے بڑی پیش رفت ہے جس نے دونوں ممالک کے درمیان مسلح تنازعے کے خدشات کو ہوا دی ہے۔

یہاں تک کہ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے جمعے کے روز دعویٰ کیا کہ امریکی صدر نے ایران کے خلاف جوابی مسلح کارروائی کا فیصلہ کر لیا تھا مگر پھر انہوں نے اپنا ذہن تبدیل کر لیا اور امریکی افواج کو رک جانے کا حکم دیا۔

چونکہ ایران پاکستان کا پڑوسی ملک ہے، اس لیے اس حوالے سے خدشات موجود ہیں کہ ایسے کسی بھی مسلح تنازعے کے پاکستان پر بالواسطہ یا بلاواسطہ اثرات پڑ سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ایران کی تنبیہ: امریکہ ہر قسم کی جارحیت سے باز رہے

’ایران سے جنگ ہو گی یا نہیں سب ٹرمپ کے دماغ میں ہے‘

ایران سے خطرہ: امریکی جنگی بیڑا خلیجِ فارس میں تعینات

یہ کون سے اثرات ہو سکتے ہیں اور پاکستان کو اس حوالے سے کن چیلنجز کا سامنا ہوگا، اس حوالے سے بی بی سی نے داخلی و خارجی امور کے ماہرین سے بات کی ہے۔

افغان امن عمل تباہ ہو سکتا ہے

ممکنہ حملے کے نتیجے میں ایران کی جانب سے افغانستان میں امریکی فوج کے اڈوں کو نشانہ بنایا جانا خارج از امکان نہیں۔ ایسی صورتحال میں یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ آیا افغان طالبان ایران کا ساتھ دیتے ہیں یا نہیں۔

اگر افغان طالبان نے اس صورت میں ایران کا ساتھ دیا تو امریکہ کے ساتھ جاری امن مذاکرات مکمل طور پر ناکام ہو سکتے ہیں جس سے پاکستان کے لیے مشکلات ہو سکتی ہیں۔

امریکہ اور اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے سابق سفیر اور سینٹر فار انٹرنیشنل اینڈ اسٹریٹجک اسٹڈیز کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر علی سرور نقوی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ تنازعے کی ایسی کسی بھی صورتحال میں پاکستان کے لیے بہت سے مسائل کھڑے ہو جائیں گے کیونکہ جنگ کہیں بھی ہو، آس پاس کے ممالک اس سے ضرور متاثر ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں فی الوقت تنازع جاری ہے اور امن و امان قائم نہیں ہوا ہے۔ ایسی صورتحال میں امریکہ اور ایران کا تصادم افغانستان کے مسئلے کو اپنے حل سے دور کر دے گا جو کہ پاکستان کے لیے باعثِ تشویش ہے۔

’ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ایران کا کچھ حد تک عمل دخل ہے اور ایران کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات ہیں، اس لیے پاکستان کو انتہائی محتاط رہنا ہوگا اور اپنی پالیسیوں کو ‘صحیح’ رکھنا ہوگا۔‘

افغان طالبان

اگر افغان طالبان نے ممکنہ حملے کی صورت میں ایران کا ساتھ دیا تو امریکہ کے ساتھ جاری امن مذاکرات مکمل طور پر ناکام ہو سکتے ہیں جس سے پاکستان کے لیے مشکلات ہو سکتی ہیں۔

امریکہ، انڈیا اور چین میں سفیر رہ چکے اشرف جہانگیر قاضی بھی اس نکتے سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی کسی بھی جنگ کے پاکستان کو بہت نقصانات ہوں گے کیونکہ اس سے افغان امن عمل فوراً تباہ ہوجائے گا اور افغانستان میں پھر عدم استحکام ہوجائے گا جس سے پناہ گزین یہاں آسکتے ہیں۔

پاکستان کے لیے داخلی چیلنجز ہو سکتے ہیں

پاکستان میں پناہ گزینوں کی ایک نئی لہر کی آمد کے خدشے کے ساتھ ساتھ ماہرین کو یہ بھی تشویش ہے کہ ایسا کوئی بھی تنازعہ پاکستان کی داخلی سلامتی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

سکیورٹی امور کے ماہر اور دفاعی تجزیہ کار محمد عامر رانا سمجھتے ہیں کہ ایسی صورتحال میں ملک کی داخلی صورتحال کئی سطحوں پر متاثر ہوگی۔

’ہمیں پتا ہے کہ پاکستان میں خاصی تعداد میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والی آبادی ہے اور پاکستان کے لیے یہ بہت مشکل ہوگا کہ وہ امریکہ کے حملے کی صورت میں ایران کی اخلاقی یا سیاسی حمایت نہ کرے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے دوسری بڑی مشکل یہ ہے کہ پاکستان کے سعودی عرب سمیت خلیجی ریاستوں کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں تو ایسے میں اگر ملک میں ایران یا سعودی عرب کی حمایت میں کوئی مظاہرے ہوتے ہیں تو ملک میں داخلی کشیدگی بڑھے گی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے ایک چیلنج ہوگا اور وہ ایک غیر جانبدار موقف اپناتے ہوئے اس مسئلے کا مقابلہ کر سکتا ہے۔

عامر رانا نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں اس وقت بھی پاکستان کے مختلف اداروں میں اس حوالے سے غوروفکر ہو رہا ہوگا اور ادارے کسی بھی ممکنہ صورتحال کے پیش نظر اپنی حکمت عملی تیار کر رہے ہوں گے۔

انھوں نے کہا کہ اگر پاکستان کے لیے غیرجانبدار موقف لینا مشکل ہوا تو پاکستان کا نسبتاً جھکاؤ سعودی عرب کی طرف ہوگا۔

عامر رانا نہیں سمجھتے کہ ایران پر ممکنہ حملے سے پاکستان پر ایران کی جانب سے پناہ گزینوں کا کوئی دباؤ آئے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایران کی سرحد سے منسلک پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ابھی بھی داخلی مزاحمت کاروں کے خلاف آپریشن جاری ہے، چنانچہ علاقائی سکیورٹی صورتحال کے باعث وہاں ایران ممکنہ حملے کے پیشِ نظر دباؤ نہیں آئے گا۔

لیکن داخلی اور سلامتی چیلنجز کے ساتھ ساتھ اقتصادی سطح پر بھی پاکستان کو کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

علی سرور نقوی کہتے ہیں کہ ایران اور امریکہ کے مسلح تنازعے کی صورت میں تیل کی ترسیل کا بین الاقوامی بحری راستہ آبنائے ہرمز بند ہوسکتا ہے یا وہاں سے بحری جہازوں کا گزرنا مشکل ہوسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسی صورتحال میں تیل کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں جس سے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی جو ہمارے لیے خطرناک ہوگا۔

پاکستان کو توازن برقرار رکھنا ہوگا

چونکہ ایران اور امریکہ کے تنازعے کے ساتھ ساتھ ایران اور سعودی عرب کے درمیان بھی مخاصمت پائی جاتی ہے اس لیے پاکستان کے لیے یہ صورتحال امتحان بن سکتی ہے کیونکہ سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان گہرے تعلقات ہیں۔ چنانچہ غالب امکان ہے کہ امریکہ خطے میں ایسی کسی کارروائی کے لیے سعودی حمایت کا طلب گار ہوگا۔

اس حوالے سے علی سرور نقوی کہتے ہیں کہ پاکستان کبھی بھی دو مسلمان ممالک کے درمیان تنازعے کی صورت میں کسی کی طرفداری نہیں کرتا۔ ان کے مطابق پاکستان کی پارلیمان نے بھی اس اصول کی یاد دہانی اس وقت کروائی جب ہماری افواج کے یمن جانے کا سوال اٹھا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ایران اور عراق کی جنگ میں بھی پاکستان نے کسی کی طرفداری نہیں کی تھی بلکہ دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کی کوشش کی تھی۔

عامر رانا کہتے ہیں کہ ایران کی کوشش ہوگی کہ اس میں اس کے اتحادی بھی شامل ہوں جن میں عراق، شام، اور لبنان میں حزب اللہ ہو سکتے ہیں اور اگر وہ اس جنگ کا حصہ بنتے ہیں تو پھر اس جنگ کو روکنا خاصا مشکل ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے ردعمل کے بعد اس جنگ کے پھیلاؤ کو روکنے میں مشکلات ہوں گی۔

بین الاقوامی قانون کیا کہتا ہے؟

اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی شق 2 (4) رکن ممالک پر زور دیتی ہے کہ وہ اپنے بین الاقوامی تعلقات میں طاقت کے استعمال کی دھمکی یا اس کے استعمال سے گریز کریں۔ کسی بھی مسلح تنازعے کی منظوری سلامتی کونسل کی قرارداد کے ذریعے ضروری ہے۔

اسی چارٹر کی شق 42 سلامتی کونسل کو رکن ممالک کی فضائی، زمینی یا بحری افواج کے ذریعے بین الاقوامی امن یا سلامتی برقرار رکھنے یا اس کی بحالی کی اجازت دیتی ہے۔

اشرف جہانگیر قاضی کا کہنا تھا کہ امریکہ کا ایسا کوئی بھی اقدام ایک سنگین پیش رفت اور بین الاقوامی جرم ہوگا کیونکہ اس کی حمایت کے لیے اس کے پاس اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نہیں ہوگی۔

ان کے مطابق ایسی کوئی قرارداد آ بھی نہیں سکے گی کیونکہ روس اور چین اسے فوراً ویٹو کر دیں گے۔ چنانچہ ایسی صورتحال میں پاکستان کو چاہیے کہ وہ سلامتی کونسل اور اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سمیت ہر فورم پر اس معاملے کو اٹھائے اور اس کی مذمت کرے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ چھوٹے ممالک کا یہی ایک دفاع ہوتا ہے کہ اگر کوئی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرے تو وہ اس کی مذمت کریں۔

پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ اور کئی ممالک میں سفیر کے طور پر خدمات انجام دینے والے قاضی ہمایوں بھی یہی سمجھتے ہیں کہ امریکہ کو اپنے ایسے کسی اقدام کے لیے سلامتی کونسل سے کوئی حمایت نہیں ملے گی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر امریکہ اقوامِ متحدہ سے کوئی قرارداد منظور نہیں کروائے گا کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اسے اس سے متعلق کوئی سپورٹ نہیں ملے گی۔

ایران امریکہ جنگ امریکہ افغانستان جنگ سے کس قدر مختلف ہوگی؟

اس حوالے سے قاضی ہمایوں کا کہنا تھا کہ امریکہ ایران میں کوئی فوجیں نہیں اتارے گا بلکہ فضائی کارروائیوں پر اکتفا کرے گا، جس کے لیے انھیں کسی ملک سے زمین کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کے پاس افغانستان میں بیسز موجود ہیں۔

اسی طرح سے عامر رانا کا کہنا تھا کہ یہ جنگ افغانستان پر حملے سے بالکل مختلف ہوگی کیونکہ افغانستان میں مزاحمت تھی اور امریکہ اور نیٹو نے اب وہاں ایک طویل جنگ لڑی ہے، لیکن ایران کے ساتھ ایک روایتی جنگ ہوگی جس کے عوامل بھی مختلف ہوں گے اور اس کا اثر بھی مختلف ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp