سرفراز اس بدتمیزی پر ہم شرمندہ ہیں


ابھی ایک ویڈیو نظر سے گزری، کچھ ہی دیر کی بات ہے سوشل میڈیا پہ وائرل ہو جائے گی، سارا زمانہ دیکھ لے گا اور ہماری قوم کی اخلاقی پستی اور گراوٹ پہ عش عش کرے گا۔ جو ذرا سا بھی احساس رکھتے ہیں ان کی کیفیت شاید مجھ سے مختلف نہ ہوگی۔ غم، غصّہ، تکلیف، دکھ، اداسی، شرمندگی اور بے عزتی۔ ویڈیو ہے کسی صاحب کی (میں نہ چاہتے ہوے بھی انھیں عزت سے مخاطب کر رہی ہوں ) جن کو ایک پبلک پلیس پہ پاکستانی کپتان سرفراز مل گئے۔

کہتے ہیں خدا گنجے کو ناخن نہ دے اور کیوں نہ دے اس لیے کہ وہ ان سے وہ خود کو کھجا کھجا کے زخمی کر لے گا، لیکن کیا کیا جائے ٹیکنالوجی کی بدولت آج کل ہر گنجے کے پاس ناخن ہیں۔ ان صاحب کے پاس بھی تھے تو انھونے اپنے سیل فون کا کیمرا کھولا اور سرفراز کی طرف کر کے بڑی ہی ڈھٹائی سے انھیں گالی دے کے مخاطب کیا اور ان کی فٹنس پہ تبصرہ کیا۔ دیدہ دلیری کا یہ عالم کہ بڑے فخر سے ویڈیو سوشل میڈیا کے حوالے بھی کر دی۔ ویڈیو میں۔ دیکھا جا سکتا ہے کہ کپتان کی گود میں بچہ بھی ہے جس کا مطلب ہے کہ غالباً وہ اپنے خاندان سمیت وہاں موجود ہوں گے۔

ٹھیک ہے میچ ہار گئے، ٹھیک ہے انڈیا سے ہار گئے، مانا کہ قوم کو دکھ پہنچا، مانا کہ امیدیں ٹوٹیں، یہ بھی بجا ہے کہ کروڑوں لوگوں کی دلی خوشی ٹیم سے وابستہ تھی، ملک کا پیسہ بھی لگا ہوا ہے، کئی لوگوں کی بے لوث محببتوں کا مان ٹوٹا، الغرض سب کا دکھ، غم اور غصہ بالکل صحیح ہے لیکن اگر کچھ صحیح نہیں تو وہ ہے اخلاقی پستی، حد سے گزر جانا، اپنے آپ کو گرا لینا اور دوسروں کی عزتوں کو روندنا۔ ہم لوگ دراصل اخلاقی گراوٹ کا شکار ہیں، ہمیں اختلاف کرنا نہیں آتا، ہم کسی پر غصّہ ہوں تو مرنے مارنے پہ یقین رکھتے ہیں اور اس پہ بس نہ چلے تو گالم گلوچ اور دوسروں کی عزتیں اتارنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔

ہماری سوچ اور فکر میں توازن کی شدید قلت ہے ہمارے ہاں عزتوں کے پیمانے بدل چکے ہیں۔ کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہوا ہے جس نے ہم سے ادب، تمیز اور سلیقہ چھین لیا ہے۔ پتا نہیں اس کی وجہ ماحول ہے، بے تکی آزادی ہے، تربیت ہے، معاشرتی گھٹن ہے یا ٹیکنالوجی کا طوفان جس نے ہر خاص وعام، چھوٹے بڑے، سمجھدار اور بیوقوف کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ کہیں سے ایسی ہوا چلی ہے جس نے چھوٹے بڑے، رشتوں کا مان اور عزت بے عزتی کا فرق مٹا دیا ہے۔ سوشل میڈیا پہ وائرل ہونے وال پھپوؤں پہ بنے پھکڑ لطیفے اسی کی ایک چھوٹی سی مثال ہیں۔

عمومی خیال یہ ہے کہ جب لوگ کسی مہذب معاشرے میں رہنا شروع کر دیتے ہیں تو ان کی سوچ اور فکر میں تبدیلی آتی ہے، لیکن ویڈیو بنانے والے صاحب نے اس نظریے کی بھی تصحیح کردی، یعنی اگر آپ کے اندر تہذیب کی روشنی نہیں ہے تو مہذب سے مہذب معاشرہ بھی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ملک سے باہر رہنے والوں پہ دوہری ذمہ داری ہوتی ہے وہ اپنے قول و فعل کے ذریعے مختلف قوموں کے سامنے صرف اپنے نہیں بلکہ اپنے وطن اور مذہب کے بھی نمائندہ ہوتے ہیں۔

پاکستان کے کپتان سرفراز کے ساتھ انہوں نے جو کیا وہ ہماری پوری قوم کے لئے شرمندگی کا باعث ہے اور اس پہ ہم بحیثیت قوم معذرت خواہ ہیں۔ کسی بھی غیرت مند قومی ہیرو یا سلیبرٹی کے لئے اس سے زیادہ تکلیف دہ لمحہ کوئی نہیں ہوتا جب اس کو کسی پبلک مقام پہ جان بوجھ کے نظر انداز کر دیا جائے، یہ بھی ناراضگی کا ایک اظہار ہے۔ اگر آپ اپنی بے چینی زائل کرنا ہی چاہتے ہیں تو تمیز سے شکوہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن کوئی اپنے خاندان سمیت کہیں موجود ہو اور اس کو اس کے بچوں کے سامنے انتہائی نازیبا کلمات سے پکار کے دنیا کے سامنے فخر یہ اظہار کیا جائے تو اس سے زیادہ نیچ حرکت کوئی نہیں۔ ہم سرفراز کے حوصلے کی بھی داد دیتے ہیں جو مغلظات کے جواب میں ایک بھی لفظ کہے بغیر برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوے آگے بڑھ گئے۔

کرکٹ پاکستانیوں کے خون میں ہے، یہاں رہتے ہوے بھی ہم اور ہمارے بچے بہت شوق سے میچ دیکھتے ہیں لیکن سچ کہوں تو تسلسل سے ہارنے نے ہمارے شوق پہ بھی پانی پھیر دیا ہے، لیکن ہم مایوس نہیں۔ ہمیں امید ہے کہ پر مسّرت اور اچھے لمحے بھی آئیں گے۔

میچ والے دن عجیب کیفیت تھی۔ ہمارے گھر کے نیچے والے پورشن میں انڈین رہتے ہیں تو صورتحال بہت دلچسپ تھی۔ اوپر والے پاکستان کے لئے خوش ہو رہے تھے اور نیچے سے انڈین ٹیم کے وکٹیں گرانے پہ شور و غل کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اور پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ ہم نے خوش دلی سے نا صرف ان کو مبارکباد دی بلکہ گھر میں دعوت سے سلسلے میں بننے والی کچوریوں اور بریانی بھیج کے ان کی تواضع بھی کری جس کا انہونے فراخدلی سے شکریہ ادا کیا۔ یہی مہذب معاشرے اور لوگوں کا طرز عمل ہے۔

ہمیں اپنی نسل کو محبت اور نفرت دونوں کے احساس اور اظہار میں توازن سکھانا ہوگا۔ اپنے اندر برداشت اور اعلی ظرفی پیدا کرنی ہوگی تاکہ ہمارے لوگ گالم گلوچ اور پھپووں کے لطیفوں کی میلی دنیا سے باہر نکل کر تازہ ہوا میں سانس لیں اور سوچیں۔ ہار جیت، خوشی غمی زندگی کا حصّہ اور اختلاف زندگی کا حسن ہے۔ سلیقہ شرط ہے۔

ان سے ضرور ملنا سلیقے کے لوگ ہیں
سر بھی قلم کریں گے بڑے احترام سے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).