خاتون رہنما کے لئے ایک مشورہ


پاکستان ملٹری اکیڈمی سے پاس آؤٹ ہو کر لگ بھگ ڈھائی تین سو لفٹین ہر سال انفنٹری سکول کوئٹہ میں کیرئیر کے پہلے تربیتی کورس کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں۔ بیس بائیس سال کی عمر کے اس سیمابی دور میں جبکہ شخصیت سازی اور پیشہ ورانہ ساخت کے خدو خال واضح ہونے کو اک عمر باقی ہو، ان نوجوان افسروں میں مگراپنے پیشے اور ایک دوسرے سے وفاداری اور بھروسے کا رشتہ تفاخر کے اٹل احساس کے ساتھ چٹان کی طرح دلوں میں راسخ ہو چکا ہو تا ہے۔

1986 ء میں منعقدہ کورس کی ایک صبح درجن بھر لفٹین معمول کی کلاسز کی بجائے کمپنی کمانڈر کے دفتر کے سامنے کھڑے تھے۔ گزشتہ نصف شب کے آس پاس یو بلاک میں رہائش پذیر کورس کے سینئیر سٹوڈنٹ کے کمرے پر ایک دو پتھر پھینکے گئے تھے۔ کورس سینئیر انجینیئرنگ یونیورسٹی لاہور سے ڈگری کے بعد کپتانی میں ڈائریکٹ کمیشن لینے کے بعد سیدھے لفٹینوں کے ساتھ کورس کرنے چلے آئے تھے۔ خشک مزاج تھے، چنانچہ چند ہی روز میں غیرمقبول ہوچکے تھے۔

ڈیوٹی پر موجود سنتری نے چہرے تو نا دیکھے تھے تاہم کمروں کی عمومی نشاندہی کر دی جن کی طرف پتھراؤ کرنے والے بھاگتے ہوئے غائب ہوئے تھے۔ صبح سویرے کمپنی کمانڈر نے دس بارہ مشتبہ لفٹینوں کو قطار میں کھڑا کر کے گزشتہ شب کے واقعہ کے ذمہ داروں کہ جن کے نام سے اب تک پورا کورس واقف تھا، کے بارے میں پوچھا۔ لفٹینوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ کمپنی کمانڈر نے انہیں بتایا کہ ’مجرمان‘ کے نام پتا نہ چلنے کی صورت میں دوپہر سے پہلے پہلے سب کا کورٹ مارشل کیا جائے گا جس کے نتیجے میں دو چار سال جیل تو معمولی بات ہے۔

گہری تشویش میں مبتلا لفٹین ایک دوسرے کا منہ تکتے، وسوسوں میں گھرے کھڑے رہے، یہ مگر ممکن نہیں تھا کہ نوجوان افسر دباؤ میں آ کر اپنے ساتھیوں سے بے وفائی کے مرتکب ہوتے۔ عمر کے اس حصے میں بھی وہ جانتے تھے کہ گھبرا کر کسی ایک نے اپنی جان بخشی کے لئے کمزوری دکھائی تو وہ کمزور لمحہ ساری عمر داغ بن کر ان کے ماتھوں پر چپکا رہے گا۔

فلم ’سینٹ آف دی وومن‘ میں شہرہ آفاق اداکار الپچینو نے نابینا کرنل فرینک کا لازوال کردارادا کیا ہے۔ فلم ایک چارلی نامی نوجوان کے گرد گھومتی ہے جسے اپنے دوستوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے یا نہ کرنے کے نتیجے میں بالترتیب ہارورڈ میں داخلے یا پھر سکول سے نکالے جانے میں سے ایک آپشن کو چننا ہوتا ہے۔ چارلی خاموشی کو ترجیح دیتا ہے تو کرنل فرینک اس کو سکول سے نکالے جانے کے فیصلے کے خلاف سکول کی ڈسپلن کمیٹی کے سامنے ایک دھواں دھار تقریر کرتے ہوئے پوچھتا ہے کہ آپ کس طرح کے لیڈرز پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ وہ جو اپنے ساتھیوں کے راز افشا کریں؟ وہ چو ہے جوڈوبتے جہاز سے سب سے پہلے چھلانگ لگاتے ہیں؟ یا کہ چارلی جیسے صاحب کردار اور بہادر افراد؟

یقیناً جھوٹ، چوری، بدیانتی اور دھوکہ دہی کے مرتکب اور ان کے دفاع میں کھڑے ہونے والوں کو صاحب کرداربہادروں کی صف میں شمار کیا جانا قرین انصاف نہیں کہ جو موقع میسر آتے ہی اپنے ساتھیوں کو بیچ بازار ٹھکانے لگا نے کی صلاحیت سے مالا مال ہوتے ہیں۔ رات کے اندھیرے میں خفیہ معاہدے کر کے ساتھیوں کو جیلوں میں سڑنے کے لئے چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرنے والے راہنماؤں کی تاریخ ہمارے ہاں بہت پرانی نہیں ہے۔

دنیا بھر کی پیشہ ور افواج ’قبائلی عصبیت‘ سے لبریز قدیم قبیلے کی مانند ہوتی ہیں۔ گزرتے ماہ و سال یہ جذبہ راسخ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اپنے پی ایم اے کورس اور پلٹن سے وابستگی اور ادارے سے وفاداری کے جذبات ہر رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے افراد کو ایک ہی رنگ میں رنگ دیتے ہیں۔ ایسا رنگ جو مرتے دم تک اترتا نہیں۔ سرد راتوں کے گھپ اندھیروں میں دور افتادہ چوٹی پر مورچہ سنبھالے سپاہی کا خاندان اس کے دائیں اور بائیں مورچوں میں بیٹھے ساتھی ہوتے ہیں۔

رات کی تاریکی میں جب کسی ایک یونٹ کے ڈیڑھ دو سو کے لگ بھگ جوان اپنے افسر کی قیادت میں چند سو گز دور ٹیلے پر واقع دشمن کی پوسٹ پر حملہ آور ہونے کے لئے صف آراء ہوتے ہیں تو وہ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی بھی لمحے انہیں چوٹی پر نصب مشین گنوں اور قطار اندر قطار مورچوں سے گولیوں کی اندھا دھند بوچھاڑ کا سامنا کرنا ہو گا۔ ان تاریک لمحوں میں جبکہ کسی ایک فرد کا صف سے کھسک کر کسی کھائی میں چھپنا مشکل نہ ہو تو دائیں اور بائیں ہاتھ کے ساتھی کے کندھے سے کندھا ملا کر آگے بڑھتے رہنے اور اپنے کمانڈر کے زبانی حکم پرمر مٹنے کو ترجیح دینے کے پیچھے یہی طلسمی عصبیت کارفرما رہتی ہے۔

ایسے پراسرار افراد کو تضحیک آمیز نعروں اور خون ریزی کی دھمکیوں سے دبانا ممکن نہیں۔ سوات اور دیگر قبائلی علاقوں میں جب طالبان دہشت گردوں نے نوجوان افسروں اور جوانوں کے گلے کاٹنے اورلاشوں کی بے حرمتی کا سلسلہ شروع کیا تو پاک فوج کے نوجوان افسروں نے خوفزدہ ہونے کی بجائے، آگے بڑھ کر جنگ کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ دنیا کی عسکری تاریخ ایسی کسی بھی متحیر کر دینے والی عسکری مہم اور کامیابی سے یکسر خالی ہے جہاں ہر دس شہید ہونے والوں میں ایک نوجوان افسر شامل ہو۔ کئی ایک شہداء اگر زندہ رہتے تو آج جرنیل ہوتے۔ پاک فوج کا کوئی جرنیل، افسر اور جوان ایسا نہیں کہ جو آگ اور خون کے دریا کے پار نہ اترا ہو۔ لہذا شہداء کے ورثا اور غازیوں کی جرنیلوں اور جوانوں میں تفریق کا بیانیہ بھی ایک سعی لاحاصل کے سوا کچھ نہیں۔

زیر نظر تحریر کی تحریک مجھے دو عوامل سے ملی۔ اولاً یہ کہ اگلے ماہ کے آغاز میں میرا بائیس سالہ بیٹا لیفٹینٹ عمر حسن انفنٹری سکول میں اسی تربیتی کورس کے لئے جا رہا ہے کہ جس کے دوران آج سے قریباً تینتیس سال قبل زبیر، عمران، حامد، فائض جنود اور میں دیگر ساتھیوں کے ساتھ کمپنی کمانڈر کے دفتر کے سامنے کھڑے کیے گئے تھے۔ مجھے امید ہے کہ ایسی کوئی بھی صورتحال درپیش آنے کی صورت میں لیفٹیننٹ عمر اور اس کے نوجوان ساتھی پاک فوج کی تابندہ روایات کے امین ثابت ہوں گے۔

دوسرا محرک گزشتہ دنوں گوجرانوالہ میں ایک سیاسی جماعت کے سوشل میڈیا سیل سے وابستہ ایک غیر معروف نوجوان کی اداروں، بالخصوص شخصیات سے متعلق فیس بک پر جاری مہم کے نتیجے میں گرفتاری ہے۔ اس گرفتاری کے فوری بعد خاتون راہنما کا ٹویٹر اکاؤنٹ آگ اگلنے لگا۔ گرفتار ہونے والا نوجوان میر ے بیٹے کا ہم عمر معلوم ہوتا ہے چنانچہ مجھے اس سے دلی ہمدردی ہے۔ مجھے امیدہے کہ اداروں کی نفرت میں مبتلا کیے گئے ایسے نیم خواندہ نوجوانوں کو سیاسی نفرت، ذاتی خواہشات کی تکمیل اور خوئے انتقام کی آگ کا ایندھن بنانے اور ان کے مستقبل سے کھیلنے کا سلسلہ بالآخر بندکیا جائے گا۔

آج آپ نے ’قبائلی عصبیت‘ کامقابلہ ’سیاسی عصبیت‘ سے کرنے کی ٹھانی ہے۔ کل اگر سیاسی عوامل بدل گئے تو امکان یہی ہے کہ آپ کا بیانیہ بھی فوری تبدیل ہو جائے گا۔ یاد رکھنے کی بات مگر یہ ہے کہ جس ادارے پرآج آپ کی تائید سے نیم خواندہ نوجوانوں کے جتھے حملہ آور ہیں، کسی بدلے ہوئے سیاسی منظرنامے میں اس کے نوجوان افسروں کے دلوں کو اس قدر آسانی سے بدلنا آپ کے لئے ممکن نہ ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).