ماؤں کی بیشتر صبحیں ایسی ہی کیوں ہوتی ہیں؟ بھاگ دوڑ، اٹھا پٹک، گھڑی کی سیکنڈ کی سوئی کے ساتھ چلتے پاؤں ایک قدم ادھر ایک قدم ادھر، ایسا بھی تو ہو سکتاہے کہ صبح کے ایک دو گھنٹوں کا وقت ذرا تھم کر چلا کرے یا دو تین گھنٹوں کے بعد کی گھڑیاں سویرے والیوں سے اپنی جگہ ادل بدل کر لیا کریں۔ اگر یہ پڑھتے ہوئے آپ کو میری ذہنی حالت پہ کچھ شبہ ہو رہا ہے تو بالکل ٹھیک ہے کیونکہ ہم ماؤں کی ذہنی حالت صبح سویرے کچھ ایسی ہی ہو تی ہے اور اس کیفیت میں تھوڑا اور اضافہ ہو جاتا ہے جب میاں جی دورے پہ ہوں۔
آج بھی کچھ ایسا ہی ہوا صبح چار بجے انھیں خدا حافظ کہا پھر نیند کا ایک جھونکا، سویرے سویرے بستر سے نکلنا پہلے ہی ایک امتحان اس پہ سب کو اٹھانے کا فریضہ سر انجام دینا پڑے تو کوفت اور جھلاہٹ غالب آ جاتی ہے۔ چھوٹے صاحب ابھی اسکول نہیں جاتے ان کو اٹھانا سب سے مشکل کام ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ نہ اسکول جانا ہو نہ کام پہ ایسے میں کوئی ہمیں صرف اس لیے نرم گرم بستر سے نکالے کہ بہن اور بھائی کو چھوڑنے جانا ہے تو ہم بھی وہ فساد برپا کریں کہ الامان الا حفیظ لیکن جب وہ یہی کام کرتے ہیں تو سمجھ نہیں آتا کے کیا کریں۔
Read more