قدیم زمانے کے لوگوں کی بھنگ سے آگاہی


بھنگ

پامیر کے پہاڑوں میں اونچائی پر واقع تدفین کے مقام پر قدیم موسیقی آلے ہارپ سے نکلنے والی دھُن اور جلتے ہوئے گانجے اور جونیپر کی خوشبو ہوا میں پھیل گئی تھی۔۔۔ یہ ماورائی طاقتوں اور مردہ افراد سے رابطہ کرنے والی تقریب کا ایک حصہ تھا۔

چین کے مغربی صوبے سنکیانگ میں فورینسک ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے آثار قدیمہ کی جانچ کرنے والے سائنس دانوں کے مطابق یہ رسومات 2500 سال پہلے ادا کی جاتی تھیں اور نفسیاتی طور پر فعال کرنے والی خصوصیات کے لیے بھنگ کا یہ اب تک کا قدیم ترین استعمال ہے۔

ان کے نتائج کو بدھ کے روز سائنس ایڈوانسز نامی جرنل میں شائع کیے گئے۔ قدیم پودوں کے ماہر روبرٹ سپینگلر کے مطابق ریسرچرز کا ماننا ہے کہ سیب سے لے کر اخروٹ تک، گانجے کا شمار ان بڑھتی ہوئی فصلوں میں ہوتا ہے جو قدیم سلک روڈ کے آس پاس اُگ کر اپنی جدید حالت میں آئیں۔

جرمنی کے شہر جینا میں واقع میکس پلانک انسٹیٹیوٹ فار دی سائنس آف ہیومن ہسٹری کے روبرٹ سپینگلر کہتے ہیں ‘ہماری تحقیق اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ گانجا پھونکنے اور بھنگ کے پودے کی مخصوص کیمیائی مقدار کی حامل اقسام سے متعلق علم ثقافتی روایات کا حصہ تھا جو سلک روٹ کے ذریعے سے ملحقہ علاقوں میں پھیلا۔’

یہ بھی پڑھیے

پشاور میں سکندر اعظم کے دور کی ورکشاپ دریافت

ہڑپہ کے ’پراسرار جوڑے‘ کی قبر سے راز افشا

دو ہزار سال پرانے تابوت سے کیا نکلا؟

اس تحقیق سے حاصل ہونے والی معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ 6000 سال پہلے مشرقی چین میں تیل سے بھرے بیجوں، رسیوں اور پائیدار کپڑے کے لیے اگائی جانے والی بھنگ کے پودے کی کم طاقتور اقسام کا استعمال اس کے برعکس ہوتا تھا۔

حالیہ تحقیق میں چین اور تاجکستان کی سرحد کے قریب واقع جرزنکل قبرستان کا مطالعہ کیا گیا ہے جہان کُھدائی کا کام سنہ 2013 میں شروع ہوا۔

تحقیق کاروں کو قبر کشائی کے اس مقام سے دس لکڑی کی انگیٹھیاں ملی ہیں جس میں پتھر ہین اور جن میں جلانے کے واضح نشانات ہیں۔

قدیم ترین قبرستان سطح سمندر سے تین ہزار میٹر کی بلندی پر واقع ہے اور اس کی چند نمایاں خصوصیات ہیں۔

اس کا اوپری حصہ سیاہ اور سفید پتھروں سے ڈھکا ہوا ہے جو لمبی دھاریوں میں ترتیب سے لگائے گئے ہیں اور جس کے بیچ بیچ میں دائرہ نما اونچی قبریں یا ٹیلے ہیں اور ان کے نیچے پتھروں کے چھلے بنے ہیں۔

اس قسم کے ٹیلے اس زمانے میں پورے وسطی ایشیا میں پائے جاتے تھے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ مشترک تہذیب اور مذہب کے ماننے ومالے تھے لیکن انگیٹھی کے مقصد کا علم فوری طور پر نہیں ہو سکا۔

بھنگ

انسانی قربانی

سائنس دانوں نے انگیٹھی اور جلے ہوئے پتھروں کے تجزیے کے لیے فورنسک جائزوں میں استعمال ہونے والے طریقہ کار گیس کرومیٹوگرافی-ماس سپیکٹرومیٹری (جی سی ایم ایس) کا استعمال کیا۔

اس میں پہلے کیمائی مرکبات کو جدا یا علیحدہ کیا جاتا ہے اور پھر اس کے عناصر کی مالیکیولر یا سالماتی سطح پر شناخت کی جاتی ہے۔

یونیورسٹی آف چائنیز اکیڈمی آف سائنسز میں پروفیسر اور اس تحقیق کے رہنما پروفیسر یمینگ یانگ نے کہا: ‘ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ہمیں بھنگ کے وہ بایومارکرز ملے جن کیمیکلز کا عمل دخل بطور خاص نفسیاتی خواص کا حامل ہے۔’

لکڑی کی انگیٹھی کے ساتھ جو بھنگ کے عناصر ملے وہ خاص طور سے کینابائنول (سی بی این) تھے جو کہ بھنگ کے کے عناصر ہیں اور وہ جب ہوا میں گھلتے ہیں تو ان میں اثرات پیدا ہوتے ہیں۔

ان شواہد کے ساتھ دوسرے لوازمات جیسے کونے والے ہارپ جو کہ قدیم زمانے میں تدفین کے وقت کا ایک اہم ساز ہوتا تھا، صنوبر کی لکڑی سے بنی انگیٹھی جس سے تارپین کی خوشبو آتی ہے وغیرہ سے پتہ چلتا ہے کہ دھوئیں کے بادلوں کے درمیان بڑے پیمانے پر تدفین کی تقریب ہوتی تھی جس میں لوگ ذہنی طور پر دوسری ہی دنیا میں پہنچ جاتے تھے۔

یانگ نے خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ان قبروں میں سے ایک میں ایک شخص کا جسم ملا ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی قدرتی طور پر موت ہوئی تھی لیکن دوسرے لوگوں کا جو دھانچہ ملا ہے ان کی ہڈیوں اور کھوپڑی پر کٹنے کے نشان تھے جس کھدائی کرنے والوں نے انسانی قربانی سے تعبیر کیا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ان ڈھانچوں کے ڈی این اے کی جانچ کی جا رہی ہے تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ آیا وہ آپس میں رشتہ دار تھے۔

بھنگ

کاشتکاری یا دونسلوں کا ملاپ؟

سپینگلر کے مطابق اس علاقے میں زیادہ مقدار میں ٹی ایچ سی کے خواص والے بھنگ اگانے کے متعلق دو خیالات ہیں۔

پہلا یہ کہ لوگ وہاں بھنگ کی کاشتکاری کرتے رہے ہوں گے اور وہ ان بھنگ کے پودوں کو منتخب کرتے ہوں گے جن میں نفسیاتی طور پر متحرک کرنے کے زیادہ خواص رہے ہوں اور انھیں زیادہ اونچائی پر لگاتے ہوں تاکہ ان میں ٹی ايچ سی کی زیادہ سطح ہو۔

دوسری توجیہ ‘دو نسلوں کا ملاپ’ ہے۔ اس کے مطابق یہ کہا جا سکتا ہے کہ ‘انسان کے ساتھ پودوں کے طویل مدتی رفاقت کے دوران تمام پودوں کو پالتو نہیں بنایا گیا تھا لیکن بعض کو ان کے خواص کی وجہ سے تیزی کے ساتھ پالتو بنایا گيا۔’

اس نظریے کے مطابق جب لوگ شاہراہ ریشم (سلک روڈ) کے ساتھ بڑھتے رہے وہ اس کے ساتھ غیر ارادی طور پر بیج پھیلاتے رہے اور اس کے نتیجے میں مختلف نسلیں پیدا ہوئیں جن کے نئے خواص تھے۔

وسطی یوریشیا میں منشیات کے استعمال کا موضوع ایک عرصے سے تاریخ دانوں اور آثار قدیمہ کے ماہرین کو پریشان کرتا رہا ہے اور حالیہ تحقیق سے قدیم یونان کے تاریخ دان ہیروڈوٹس کے ایک واقعے کی تصدیق ہوتی نظر اتی ہے۔

پانچویں صدی قبل مسیح میں وہ لکھتے ہیں کہ کس طرح بحر قزوین کے میدانی علاقے میں لوگ چھوٹے چھوٹے خیموں میں بیٹھ کر ایک پیالے میں گرم پتھروں سے پودے جلاتے تھے۔

ہندوؤں کی مقدس کتاب رگ وید میں اساطیری مشروب ‘سوم’ یا سوما اور زرتشتوں کے اویستاں میں ‘ہاؤما’ پر بھی تاریخ دانوں کا ایک عرصے سے تجسس رہا ہے اور سپینگلر کا خیال ہے کہ اس نئی تحقیق سے ایک بار پھر سے ان چیزوں پر بحث شروع ہو جائے گی۔

انھوں نے کہا: ‘میرے خیال سے اس تحقیق سے ہم نے سوم کی بحث کو حل نہیں کر لیا ہے لیکن مجھے امید ہے کہ ہم نے دنیا کے اس حصے میں پودوں کے قدیم زمانے میں استعمال کے متعلق دلچسپی ضرور پیدا کی ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp