نواز لیگ کے ’’اندرونی انتشار‘‘ کا سبب ووٹ بینک


بہت سوچ بچار کے بعد اپنائی حکمت عملی بھی بسا اوقات وہ پیغام پہنچانے میں ناکام رہتی ہے جو کسی جماعت کے نظر بظاہر ایک دوسرے سے مختلف رائے رکھنے والے اپنی جماعت کے بارے میں یکسوہوکر دینا چاہتے ہیں۔ نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی پاکستان مسلم لیگ کے تمام تر احتیاط اختیار کرنے کے باوجود ان دنوں ایسی ہی الجھن کا شکار ہے۔

ہفتے کی سہ پہر محترمہ مریم نواز نے لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ان کا سواگھنٹے تک پھیلا خطاب ٹی وی چینلوں پر لائیو چلا۔ ایک لمحے کو بھی ان کی آواز کئی حساس معاملات کا ذکر کرتے ہوئے بھی میوٹ نہ ہوئی۔اس طویل خطاب سے بنیادی پیغام یہ ملا کہ وہ اپنے چچا کی اپنائی حکمت عملی سے متفق نہیں۔

عمران حکومت کے مشیروں کے لئے یہ خوش کن پیغام تھا۔ 29جون تک انہیں حکومت کا پہلا بجٹ منظور کروانا ہے۔ Hawksاور Dovesمیں بٹی مسلم لیگ (نون) بجٹ کی منظوری میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کر پائے گی۔

تحریک انصاف اور اس کے اتحادی اسے “Aye”(ہاں)کی گردان کے ساتھ بآسانی منظور کروالیں گے۔

ٹھوس اعدادوشمار کی بنیاد پر نظر آتی حقیقت کا منطقی انداز میں جائزہ لیں تو عمران حکومت کے پہلے بجٹ کو قومی اسمبلی میں رائے شماری کے ذریعے نامنظور کروانا ویسے بھی ممکن نہیں تھا۔اختر مینگل کے پاس فیصلہ کن نمبر نہیں ہیں۔ایم کیو ایم کی اپنی مجبوریاں ہیں۔آصف علی زرداری نے قومی اسمبلی میں آکر ایک مرحلے پر اس کے رکن صلاح الدین کی تقریر میں مداخلت کرتے ہوئے جو فقرے کہے انہوں نے اس جماعت کو مزید پریشان کردیا ہے۔

سندھ سے آصف علی زرداری کی ازلی نفرت میں مبتلا افراد جو ان دنوں GDAکی چھتری تلے جمع ہیں،بہت بے تابی سے پیپلز پارٹی کے لگائے وزیر اعلیٰ -مرادعلی شاہ- کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کا انتظار کررہے ہیں۔اس کے بعد انہیں پیپلز پارٹی سے ویسے ہی ’’پیٹریاٹ‘‘ برآمد ہوتے نظر آرہے ہیں جو جنرل مشرف کی معاونت کے لئے 2002کے احتساب بیورو نے دریافت کئے تھے۔

گجرات کے چودھری ’’ٹھنڈا کرکے کھانے‘‘ کے عادی ہیں۔ وہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ عمران حکومت کے بجٹ کو نامنظور کروانے میں مدد دے کر انہیں فی الوقت کچھ نہیں ملے گا۔ جو میسر ہے اسی پر گزارہ کرنا ہوگا۔

نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی پاکستان مسلم لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوکر موجودہ اسمبلی میں آنے والے 80سے زیادہ اراکین کو بھی اس حقیقت کا بخوبی احساس ہے۔وہ ’’نیویں نیویں‘‘ رہتے ہوئے بُراوقت گزارنے کے چکر میں ہیں۔شہباز شریف،شاہد خاقان عباسی،خواجہ آصف اور سردار ایاز صادق جیسے جہاندیدہ افراد کو قوی امید ہے کہ بالآخر ’’عمران خان کو لانے والے‘‘ یہ جان لیں گے کہ وزیراعظم اور ان کی لگائی ٹیم پاکستانی معیشت کے گورکھ دھندوں کو سمجھ ہی نہیں سکتی۔ پاکستان مسلم لیگ (نون) اس تناظر میں ’’بہتر معاشی منیجروں ‘‘پر مشتمل ہے۔ان کی مذکورہ ’’مہارت‘‘ سے رجوع کرنے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔

اندھی نفرت و عقیدت میں تقسیم ہوئی قوم میں لیکن عصبیت قبائلی سوچ اختیار کر رہی ہے۔ ایسا فقط پاکستان ہی میں نہیں ہورہا۔ ٹرمپ کے حامیوں اور مخالفین کے مابین بھی منافرت ’’قبائلی‘‘ صورت اختیار کر چکی ہے۔ ’’درمیانی راہ‘‘ نکالنے کی خواہش گئے وقتوں کا قصہ بن چکا ہے۔ برطانیہ کی پارلیمان دنیا بھر کی پارلیمانوں کی ماں کہلاتی ہے۔ وہ کئی مہینوں تک کئی اجلاس منعقد کرنے کے باوجود برطانیہ کے یورپی یونین سے باہر آنے کی متفقہ حکمت عملی دریافت نہ کر پائی۔ تھریسامے کو استعفیٰ دینا پڑا۔ شاید اس کی جگہ اب بورس جانسن آجائے جو اپنی سوچ کے اعتبار سے ٹرمپ کا جڑواں بھائی نظر آتا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (نون) کے ’’اندرونی انتشار‘‘ کا اصل سبب اس کا ’’ووٹ بینک‘‘ ہے۔ عمران حکومت کے قیام کے بعد یہ ووٹ بینک بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافے، مسلسل پھیلتی بے روزگاری، افراطِ زر اور منڈی پر حاوی کساد بازاری سے بہت پریشان ہے۔ یہ پریشانی محض مسلم لیگ (نون) کے ’’ووٹ بینک‘‘ ہی کو لاحق نہیں۔ 2018میں تحریک انصاف کو بہت چائو سے ووٹ دینے والے تنخواہ دار اور چھوٹے کاروبار کرنے والے اور دکاندار بھی ان دنوں بہت پریشان ہیں۔

IMFکا اصرار ہے کہ پاکستان کو اپنی معاشی بقاء کے لئے اس سے 6ارب ڈالر کا جو پیکیج درکار ہے اس کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے جولائی 2019سے شروع ہونے والے سال میں کم از کم 5500ارب روپے کے محاصل جمع ہوں۔ پاکستانی روپے کی ڈالر کے مقابلے میں قدر کو ’’بازار میں موجود حقائق‘‘ کی نمائندگی کرنا ہو گی۔ کاروباری حضرات کو اپنے دھندے بڑھانے کے لئے بینکوں سے مہنگی شرائط پر قرضے لینا ہوں گے۔

’’سخت جانی ہائے‘‘ زندگی سے پریشان ہوئے لوگوں کا اصرار ہے کہ شہباز شریف اور ان کی رہبری میں قومی اسمبلی میں موجود 80سے زیادہ اراکین ان کے دلو ں میں جاگزیں ہوئے اضطراب کا بجٹ اجلاس کے دوران ہوئی تقاریر کے ذریعے مؤثر اظہار نہیں کر پائے۔ نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی پاکستان مسلم لیگ (نون) کے ’’ووٹ بینک‘‘ میں موجود بے چینی اور اضطراب کے اظہار کے لئے محترمہ مریم نواز شریف کا ہفتے کے روز ہوا خطاب اس جماعت کی لہٰذا سیاسی ضرورت تھا۔

کسی بھی متعلقہ شخص سے بات کئے بغیر میں کافی اعتماد سے یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ شہبازشریف اور ان کے رفقاء ہفتے کے روز ہوئی پریس کانفرنس سے حقیقی معنوں میں پریشان نہیں ہوئے ہوں گے۔ ’’شہباز کیمپ‘‘ اور ’’نواز کیمپ‘‘ میں واضح طورپر نظر آتی تقسیم ان کے طویل المدتی مفاد کو نقصان نہیں بلکہ تقویت پہنچائے گی۔

ہفتے کے روز ہوئی پریس کانفرنس پاکستان مسلم لیگ (نون) میں کسی ’’فارورڈ بلاک‘‘ کے قیام کی راہ بھی نہیں بنائے گی۔ چودھری نثار علی خان بہت عرصے سے خود کو اس جماعت سے جدا کئے ہوئے ہیں۔ عمران خان صاحب ایچی سن کالج کے زمانے میں ان کے قریب ترین دوستوں میں سے ایک ہوا کرتے تھے۔

چودھری صاحب پنجاب اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوچکے ہیں۔ اپنی رکنیت کا مگر ابھی تک انہوں نے حلف نہیں اٹھایا۔ ’’آزاد‘‘ حیثیت میں منتخب ہونے کے بعد وہ بآسانی تحریک انصاف میں شامل ہو کر پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے بہت تگڑے امیدوار ثابت ہو سکتے تھے۔ وہ اس عہدے تک پہنچنے کی خواہش 1993سے پال رہے ہیں۔ 2018کے انتخابات نے ان کے لئے اپنی دیرینہ خواہش پوری ہونے کے روشن امکانات پیدا کئے۔ انہوں نے مگر جام کو ہاتھ بڑھاکر تھامنے سے گریز کیا۔

شہباز شریف اپنے بھائی کے ’’برادر یوسف‘‘ ہونہیں سکتے۔ شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف اور سردار ایاز صادق کے لئے تحریک انصاف میں ’’کس منہ سے جائو گے‘‘ والا معاملہ ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (نون) کا یکجا رہنا اس جماعت کی مجبوری بن چکا ہے۔ قومی اسمبلی میں اس کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے اراکین ’’نیویں نیویں‘‘ رہ کر ڈنگ ٹپائیں گے۔ اس جماعت کے ’’ووٹ بینک‘‘ میں موجود اضطراب کا اظہار مریم نواز صاحبہ کی پریس کانفرنس اور جلسوں سے خطاب کے ذریعے ہوتا رہے گا اور یہ قصہ آنے والے کئی دنوں تک ایسے ہی چلتا رہے گا۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).