ریا ست مدینہ کا سلیکٹڈ خان، ریلو کٹے اور درباری مسخرے


خان صاحب کو ہمیشہ سے خبروں میں رہنے کا ہنر آتا ہے اس میں ان کی کرشماتی شخصیت کا بڑا اثر رہا۔ جب وہ خیر سے کھلاڑی تھے تو ان کے معاشقوں کی خبریں عالمی میڈیا کی بھی ہیڈ لائن ہوا کرتی تھیں۔ پھر خیر سے عالمی کپ بھی ان کے نصیب سے پاکستانیوں کو حاصل ہوا تو ظاہر ہے خان صاحب کے انداز بھی بدل گئے۔ پھر جب انہوں نے شوکت خانم ہسپتال کی بینادیں رکھیں تو عوام نے دل کھول کر ان کا ساتھ دیا۔ یہاں تک کہ اس وقت کے اور اب کے بیچارے میاں صاحب بھی ان کے سحر میں جکڑ گئے اور ان کو زمین بھی دی اب یہ تو اس وقت ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ آگے چل کر خان صاحب ہی ان کے پیروں تلے زمین نکال لیں گے۔ پھر کسی نیک بندے نے، اور وہ تو ریلو کٹا ہوگا نہیں، خان کو اس گرانقدر مشورے سے نوازا کہ آپ سیاست میں آجائیں۔

جب خان صاحب سیاست کے اس پر خطر میدان میں جاپہنچے جہاں سیاست کی اندھی سڑکوں پر ٹامک ٹوئیاں مار تے مارتے خان صاحب کو بالآخر وہ سایہ دار درخت مل گیا جس کی چھتر چھایا میں وہ خوب پھلے پھولے۔ آخر کار ان کو وہ شیروانی پہننا نصیب ہو ہی گئی جس نے بڑے بڑوں کو سلاخوں یا پھر موت کے گھاٹ اتار دیا۔

خان صاحب جب اپوزیشن میں تھے تو بڑے بڑے بلند بانگ دعوے کیا کرتے تھے حکومت کے ہر اقدام پر ہاتھ میں پرچے لہرا لہرا کر قوم کو بتایا کرتے تھے کہ کس قدر ظالم کرپٹ اور غدار حکمران ہیں جو کبھی ایمنسٹی اسکیم دے رہے ہیں، تو کبھی آئی ایم ایف کے پاس جارہے ہیں یا پھر انڈیا سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

دن رات بتایا کرتے تھے کہ جب وہ حکومت میں آئیں گے تو کس قدر شفافیت کا مظاہرہ ہوگا۔ واقعی دنیا نے دیکھا کہ کس طرح حکومت بنانے کے لیے خان صاحب نے اپنے ارد گرد دوسری پارٹیوں کے ریلو کٹے جمع کرلیے اور اسد عمر کو خودکشی سے بچاکر آئی ایم ایف سے اپنی شرائط پر قرضہ لیا۔ ساتھ ہی ادھر ادھر چکر وکر لگا کر بھی آگئے اور ہاتھ کے ہاتھ کسی کی کار ڈرائیو بھی کرلی۔ ویسے بھی یہ سب ملک کے لیے ہی کیا، اب تو سنا ہے کہ جو آتے ہی وزیر اعظم ہاؤس میں یونی ورسٹی کا منصوبہ تھا وہ بند ہوگیا۔

ہاں مگر ایوان صدر میں طوطے ضرور اڑرہے ہیں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ بجٹ دیکھ کر یہ رلتی سسکتی عوام کے جو معدودے چند طوطے تھے تو وہ کب کے اڑ گئے۔ ادھر ہماری کرکٹ ٹیم جس میں ریلوکٹے ہیں قوم کا دل توڑنے میں مصروف ہے تو ادھر وزیرا عظم کے شاندار کھلاڑی اپنی پرفارمنس میں مصروف ہیں۔ کبھی اسمبلی کو کسی چڑیا گھر کا روپ دیتے ہیں، تو کبھی گلے پھاڑ پھاڑ کر دس سال کے احتساب کے نعرے لگاتے ہیں، تو کبھی اپوزیشن کو جیل میں بھیج کر بغلیں بجاتے ہیں تو کبھی ٹی وی شوز میں بیٹھ کر نوکریاں بانٹتے ہیں۔

ہاں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ بجٹ پاس کروانے کے لیے اتحادیوں کو وزارت دینا کتنا ضروری ہے۔ تو کبھی ترقیاتی فنڈ کے نام پر لاتعداد روپے جاری کرنا کتنا ضروری ہے۔ لیکن مارکیٹ میں جو بے قدری ہماری کرنسی کی ہوئی وہ ضروری ہے کیونکہ زندہ قومیں قربانیاں دیتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے وہاں احتساب کے نام پر سیاسی انتقام نہیں لیا جاتا۔

خان صاحب کون سی ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں آپ کی تو بنیاد ہی جھوٹ پر رکھی ہوئی ہے۔ آپ کو تو سلیکٹد کا لفظ اتنا برا لگ رہا ہے کہ اسے اسمبلی کی کارروائیوں سے حذف کیا جارہا ہے۔

آپ کے ریلو کٹے اور درباری مسخرے اپنے اپنے کھیل کھیل رہے ہیں اور ان سب میں نقصان میں عوام ہے۔ بہت معذرت نہ ایسی ہوتی ہے ریاست مدینہ نہ ہی ایسا ہوتا ہے ریاست مدینہ کا کپتان۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).