پاکستان عالمی سیاحوں کے لئے جنت کیوں نہیں بن سکتا؟


یہ کافی سال پرانی بات ہے کہ جب وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے سندھ سرکار کو حکم دیا کہ سندھ کے مشہور سیاحتی مرکز ”گورکھ ہل“ کو جدید طرز پر استوار کر کے عام لوگوں اور بین الاقوامی سیاحوں کے لئے کھول دیا جائے۔ سندھ سیکریٹریٹ کے تغلق ہاؤس کی تیسری منزل پر واقع کمیٹی روم میں ہونے والی اعلی سطحی اجلاس میں بڑے بڑے دماغ اس بات پر سوچنے لگ پڑے کہ وہاں تک پکا راستہ، ہوٹل، ریسٹ ہاؤس، مساجد، پارک، جھولے، دکان اور دیگر انفراسٹرکچر تعمیر کیا جائے تو یقیناً جوق در جوق سیاح آنے شروع ہوجائیں گے۔ ایک گھنٹے کی پریزینٹیشن اور تین گھنٹے کی میٹنگ کے بعد سب ایک دوسرے کو دیکھ کر سوچ رہے تھے کہ ”کیا یہ ممکن ہے جو ہم سوچ رہے ہیں؟ “

اس وقت کے سیکریٹری پلاننگ محمد ہاشم میمن نے کھڑے ہوکر بولنا شروع کیا ”اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ لوگ سندھی بریانی اور پلہ مچھلی کھانے کے لئے گورکھ ہل آئیں گے تو مجھے افسوس ہے یہ سب کچھ ممکن نہیں ہے۔ آپ کو سیاحت کے جدید اور وہ اصول اپنانے پڑیں گے جو باقی دنیا اپناتی ہے۔ ہم اپنے خیالی پلاؤ خود پکا کر خود ہی کھا سکتے ہیں، دنیا والوں کو نہیں کھلا سکتے۔ انہوں نے کہا کہ“ ہم پاکستان کے سب سے بڑے بیچ کراچی کو عالمی سیاحوں کے معیار مطابق نہیں بنا سکتے تو دادو کی ”گورکھ ہل“ کس کھاتے میں آتی ہے۔

ہان اگر آپ سہون اور دادو سے ایک سو کلومیٹر دور چٹیل پہاڑوں کی چوٹی گورکھ ہل پر سیکیورٹی کے ساتھ عالمی معیار کے دو فائیو اسٹار ہوٹلز، دو تین کسینوز، جوئے خانے، وسیع ڈانسنگ کلب، شراب خانے، پب، سئنیماز اور دیگر اسپورٹس کلبس بنائیں یا ان کی اجازت دیں، آپ دیکھیں گے یہ تمام انفراسٹرکچر بنانے والے سرمائے کے ساتھ ہی خود آجائیں گے اور پورے عرب ممالک، افریکن، یورپ اور آمریکا کے لوگ دبئی اور لاس ویگاس جانے کے بجائے دادو آئیں گے، آپ ستر کی دہائی میں لاہور میں قائم ایشیا کے سب سے بڑے ڈانسنگ کلب انٹر کانٹینل (موجودہ پی سی ہوٹل) اور سب سے بڑے بار بیچ لگزری ہوٹل کراچی کو بند کروا کے اب سوچ رہے ہیں کے لوگ آپ کے پاس سندھی بریانی، پلہ مچھلی، کشمیری دال چاول اور پھجے کے پائے کھانے آئیں گے تو یہ آپ کی بھول ہے۔

”اس کے بعد کمیٹی روم میں سناٹا چھا گیا اور“ گورکھ ہل ڈولپمینٹ اتھارٹی ”بنا کر میٹنگ کو ختم کردیا گیا، 20 سال ہونے کو ہیں“ گورکھ ہل ڈولپمینٹ اٹھارٹی ”اب بھی کام کر رہی ہے، مگر اس وقت تک ایک بھی غیر ملکی سیاح گورکھ ہل نہیں آیا، خود سندھ کے مختلف شہروں کے لوگ بھی وہاں جانے سے پہلے دو وقت کا کھانا اور ایک پانی کا کولر ساتھ لے کر جاتے ہیں اور سورج غروب ہونے سے پہلے ہی واپس نکل آتے ہیں۔

مری، نتھیا گلی، کالام، گلگت اور ہنزہ میں بھی زیادہ تر سیاح اپنے ملکی ہوتے ہیں، جو گرمی اور بجلی کی لوڈشیدنگ سے تنگ ہوکر وہاں جاتے ہیں۔ باہر کے اکثر لوگ بھی وہ ہی ہوتے ہیں جو کسی پاکستانی کی دعوت پر آئے ہوتے ہیں، ان کے لئے شراب وغیرہ کا بندوبست بھی میزبان کی طرف سے خود ہی کیا جاتا ہے۔ کراچی بیچ پر میاں بیوی بھی ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر نہیں گھوم سکتے، وہاں اونٹ کی سواری اور مکئی کے سٹے سے زیادہ دلچسپی کی کوئی چیز نہیں ہے۔

اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ سیاحت کے اصل عوامل شراب، شباب اور جوئے کو کھولنے سے اپنا سماج خراب ہوتا ہے تو شاید اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ اس وقت ہمارا سماج دنیا میں سب سے پاک و پوتر اور مثالی سماج ہے یا پھر ان کو دوسرے اسلامی ممالک ترکی، دبئی، ملائشیا اور مالدیپ کے سیاحتی مراکز اور طریقہ کار کا پتا نہیں۔ یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ دوبئی اپنے تمام ڈانسنگ کلبس کے لئے بھارت کی سرمئی اور یورپ کی گوری عورتیں منگواتا ہے جبکہ نائیٹ کلبس اور نائیٹ لائیف کے لئے سیکس ورکرز کے طور پر سب سے زیادہ گندمی رنگت کی لڑکیاں پاکستان سے امپورٹ کی جاتی ہیں اس کے بعد باری آتی ہے فلپائن، روس اور بھارت کی۔

مطلب ان میں عرب سیکس ورکرز بالکل نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ اسی طرح سے ہر ملک کے اندر سیکس ورکرز کی مکمل یا زیادہ تر تعداد کسی اور ملک کی ہوتی ہے۔ اگر پاکستان میں سیاحت کی ترقی کے لئے یہ قدم اٹھائے جائیں یا سیاحوں کو کم سے کم وہ سہولیات دی جائیں جو ضیاء دور سے پہلے ملک کے تمام جیم خانوں اور آرمی میسز میں میسر ہوا کرتی تھی تو بھی دنیا بھر کے سیاحوں کو لبھایا جاسکتا ہے۔

وزیر اعظم پاکستان عمران خان اس وقت ملک میں سیاحت کی ترقی کے لئے کافی دلچسپی لے رہے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں متعلقہ اداروں کو اقدامات اٹھانے کا حکم بھی دیا ہے۔ سرکار کو چاہیے کہ اس سلسلے میں لفاظی کرنے اور خیالی پلاؤ پکانے اور عوام کو کھانے کے بجائے حقیقی اقدامات اٹھائے۔ کم سے کم وہ اقدامات تو اٹھائے جاسکتے ہیں جو سعودی عرب کے ولی عہد شہزادے محمد بن سلمان نے خود سعودی عرب کے اندر اٹھانے کا اعلان کیا ہے کہ اب جزیرہ حجاز کے سوا پورے سعودی عرب کے بیچز اور صحرا پوری دنیا کے سیاحوں کے لئے کھول دیے جائیں گے۔

یقیناً اب مستقبل میں سعودی عرب کے ان علاقوں آنے والے سیاحوں کی تعداد حج وعمرہ پر آنے والے لوگوں سے زیادہ ہوگی، اور سعودی عرب کی تیل والی کم ہوتی معیشت کو یہ سیاحت ہی سہارا دیگی۔ پاکستان بھی چاہے تو تھر، روہی اور چولستان کے صحرا نخلستان بن سکتے ہیں، لاہور اور کراچی بھی لندن اور سانتیاگو بن سکتے ہیں۔ اگر نہیں تو پھر ہم کو پاک چائنہ بارڈر سے لے کر گوادر تک ”سندھی بریانی اور پجھے دے پائے“ کی نئیں برانچیں کھولنے کا اشتہار دینا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2