حکومت کو اصل خطرہ کس سے؟


وقت کا پہیہ تیزی سے گھوم رہا ہے مگر رفتار سست ترین۔ اعداد و شمار کے گورکھ دھندے چلتی سانسوں کا شمار کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔

تجارتی، مالیاتی خسارے انسانی خسارے کو جنم دے سکتے ہیں۔ مہنگائی کے بڑھتے پیمانے انسانوں کو سائے میں بدل سکتے ہیں مگر احساس کی موت واقع ہو چکی ہے۔ المیہ یوں بھی ہے کہ الزام در الزام کے اس دور میں عام آدمی محض عام سا ہو کے رہ گیا ہے۔

بلاخر اسد عمر بھی پھٹ پڑے۔ آئی ایم ایف کا جو پیکج وہ دے رہے تھے اور دے نہ پائے، آئی ایم ایف کی وہ شرائط جو پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنے کا وعدہ تحریک انصاف کی حکومت کر رہی تھی مگر عملدرآمد نہ کر سکی، بلاآخر یہ معاملہ ایک عوامی نمائندے یعنی اسد عمر کے ہاتھوں ہی انجام کو پایا۔

مجھ ناچیز نے کچھ عرصہ قبل یہ تحریر کیا تھا کہ بجٹ اجلاس میں اسد عمر پھٹ پڑیں گے اور وہی ہوا۔

چینی کی قیمتوں سے لے کر خوردنی تیل اور بجلی کے نرخوں میں اضافے سے لے کر گیس تک کے بارے میں آئی ایم ایف کیا کہتی تھی اور کیا ہوا، وہ پارلیمنٹ کی کارروائی کا حصہ بن چکا ہے۔

اسد عمر نے اپنے ووٹر سے کیا وعدہ پورا کیا مگر تحریک انصاف ایوان کو نہ سہی اپنے اوپننگ بیٹسمین کو کیا جواب دے گی۔ یہ ایک اہم سوال ضرور ہے جس کے جواب کی توقع نہ رکھی جائے تو بہتر ہو گا۔

جناب من! اب تک کے سارے اندازے غلط ثابت ہو رہے ہیں۔

یعنی تحریک انصاف کے نعرے کہ حکومت کے وجود میں آتے ہی بیرون ملک سرمایہ کاری سے لے کر ٹیکسوں کی فراوانی تک کا ادھورا خواب ہو یا پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر اور کروڑوں کو روزگار کا وعدہ۔۔۔ جو ہنوز وعدہ ہی ہے۔

ایمنسٹی نہ دینے کے دعوے سے دینے تک اور اُس کے فی الحال خاطر خواہ نتائج آنے کے خواب بھی ادھورے ہی ہیں۔۔۔ ایمنسٹی آئی اور پی ٹی آئی سرکار کے لئے ہزیمت لائی۔

اسد عمر

تحریک انصاف ایوان کو نہ سہی اپنے اوپننگ بیٹسمین کو کیا جواب دے گی

وزیراعظم کی بار بار اپیلوں کے باوجود اخباری اطلاعات کے مطابق صرف چند سو افراد اب تک چھپائے ہوئے اثاثے سامنے لا پائے ہیں جن سے لگ بھگ چار سو پچاس ملین روپے اکٹھے ہو پائے۔

سوال یہ ہے کہ اگر تیس جون تک اس میں اضافہ اسی طرح ہوا تو ٹیکس چوروں کو تحفظ دینے کی پالیسی کا دفاع تحریک انصاف کیسے کر پائے گی؟

بین الاقوامی اداروں کی جانب سے پاکستانی معیشت کی منفی ریٹنگ کا تسلسل ہو یا دن بدن گرتا ہوا روپیہ، اسٹاک مارکیٹ کی مسلسل گراوٹ ہو یا افراط زر میں مسلسل اضافہ، حکومت گذشتہ حکومتوں کی ناقص کارکردگی کے پیچھے کتنے دن چھپ سکتی ہے؟

ایک طرف معیشت کے محاذ پر آئی ایم ایف کی شرائط سے لڑتی حکومت اور دوسری جانب فنانشل ٹاسک فورس کی کٹھن شرائط پر پورا اترنے کی جدوجہد میں مصروف ریاست، اندرونی کشمکش، عوام کی توقعات کا بوجھ اور بین الاقوامی برادری کی خواہشوں کا انبار، ایسے میں معاشی کونسل کی تشکیل کس طور معاشی بحران سے نمٹ پائے گی اور کیا ریاست کے تمام ادارے اس بحران کی ذمہ داری لینے کو تیار ہوں گے؟

یوں محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حالات میں حکومت کی توجہ معیشت کی بہتری کی نسبت احتساب کی جانب زیادہ ہے۔

پکڑ دھکڑ کے اس ماحول میں نیب کا متنازعہ کردار مزید متنازعہ بنا دیا گیا ہے۔ آنے والے دنوں میں اپوزیشن بھی سڑکوں پر ہو گی جس کے امکانات روشن ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

معیشت

یوں محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حالات میں حکومت کی توجہ معیشت کی بہتری کی نسبت احتساب کی جانب زیادہ ہے

حکومت اب چاہے گی کہ جس طرح اب تک معاشی بحران میں تمام ریاستی ادارے حصہ دار بن رہے ہیں، پارلیمنٹ بھی بن جائے مگر کیا اس کے بدلے حکومت بھی رعایتیں دینے کو تیار ہو گی؟

شہباز شریف کی دوبارہ میثاق معیشت کی آفر اور مریم نواز کی مخالفت یہ سمجھنے کے لیے کافی نہیں کہ آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا ہے؟

کیا اپوزیشن گرتی معیشت میں حصہ ڈالنے کو تیار ہو جائے گی؟ کیا شہباز شریف ایک بار پھر مفاہمت کے نام پر مصالحت سے کام لیں گے اور کیا اُن کی جماعت تقسیم نہیں ہو گی؟

حکومت کو بلاشبہ نہ تو اپوزیشن کی تحریک سے خطرہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی کسی احتجاج سے۔۔۔ ہاں البتہ معیشت کے اُلٹے چلتے پہیے سے خطرہ ضرور رہے گا۔

یاد رہے کہ ماضی میں خراب معیشت کی ذمہ دار ہمیشہ حکومتیں ہی قرار پائیں۔۔۔ کیا تحریک انصاف حکومت اس کے لیے تیار ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).