کالونی ٹیکسٹائل ملز، تاریخ کا سچ اور کالم نویس کی غلطی


\"mehmudul محترم ہارون الرشید صاحب نے یکم اگست کو اپنے کالم ’’آدمی اپنا جج خود نہیں ہوتا ‘‘میں لکھا:

 1977ء کی انتخابی دھاندلی کے بعد بھٹو کے خلاف احتجاجی تحریک کا آغاز ہوا تو 329افراد قتل کردیے گئے ۔ صرف کالونی ٹیکسٹائل ملز میں 200 احتجاجی مزدور ، جس پر بھٹو کے ’’جانشین ‘‘ معراج محمد خان احتجاجاً مستعفی ہوگئے تھے۔‘‘

 معروف کالم نویس نے ان دوڈھائی لائنوں میں حقائق کو مسخ کرکے رکھ دیا ہے ۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ کالونی ٹیکسٹائل ملز کا واقعہ ذوالفقار علی بھٹو دور کا نہیں، یہ جنوری 1978ء میں ہوا جب پاکستان میں ہارون صاحب کے محبوب رہنما ضیاء الحق کی ناجائز حکومت تھی۔ مزدوروں کے اس احتجاج کا پی این اے کی تحریک سے بھی لینا دینا نہیں تھا۔ اسی طرح ، معراج محمد خان کے وزارت سے احتجاجاً مستعفی ہونے کا اس واقعے سے دورکا بھی واسطہ نہیں، وہ تو مزدوروں پر یہ قیامت گزرنے سے 5 برس پہلے وزارت چھوڑ چکے تھے۔

 محترم ہارون صاحب نے الزام لگایا ہے کہ بھٹو دورمیں پی این اے کی تحریک کے دوران 329 افراد قتل ہوئے، جس میں ان کے بقول، 200 مزدورشامل تھے، امید ہے آیندہ جب وہ پی این اے کی تحریک کے دوران قتل ہونے والے افراد کی تعداد کالم میں درج کریں گے تو 200 افراد اس میں سے منہا کردیں گے،اور ان کا شمارضیاء دور میں کریں گے، جس سے یہ بھی ظاہر ہوگا کہ اس عہد میں کم ازکم 200 بے گناہ افراد تو مارے گئے تھے اور یہ بات جب ہارون صاحب کے قلم سے لکھی جائے گی تو اسے سند کا درجہ حاصل ہوجائے گا۔ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ\"masood\" مذکورہ واقعہ ضیاء دورمیں پیش آیا، جن کے دور ہی میں سانحہ اوجڑی کیمپ ہوا تھا، جس کے باعث معصوم شہریوں کے چیتھڑے اڑے اور لوگوں کواسلحہ ڈپو میں دھماکے سے یوں لگا جیسے دشمن ملک نے حملہ کر دیا ہو۔ اوجڑی کیمپ سانحہ میں ملوث صاحبان میں سرفہرست اس معتبر کا نام تھا، جس پر محترم ہارون صاحب ’’فاتح‘‘ کے نام سے کتاب لکھ کر قلم توڑ چکے ہیں۔ محمد خان جونیجو کی حکومت ختم کرنے کی ایک بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ اوجڑی کیمپ سانحہ کے ذمہ داران کو کٹہرے میں لانا چاہتے تھے جبکہ ضیاء اور ان کے ساتھیوں کویہ عمل قطعاً قبول نہ تھا ۔

 کالونی ٹیکسٹائل ملز میں ہونے والی بربریت کے نتیجے میں جان کے بازی ہارنے والے خاک نشینوں کی تعداد مختلف جگہوں پرمختلف بیان ہوئی ہے۔ اس خبرکو دبانے کی بھی کوشش کی گئی، جن اخبارات میں یہ خبرشائع ہوئی، ان میں ہلاکتوں کی تعداد بیس بائیس سے آگے نہیں جاتی۔ مزدوروں کے مطابق اصل تعداد دو سو تھی۔ ورکرز ایکشن کمیٹی نے قتل ہونے والے مزدوروں کی تعداد 133 بتائی۔ کامریڈ لال خان کے بقول ’’سائیکل سٹینڈ پر 80 سائیکلیں جن پر مزدور سوار ہو کر آتے جاتے تھے، سبھی اپنے سواروں کی دوبارہ سواری نہ بن سکیں۔‘‘

\"Pictureممتاز ادیب اور صحافی مسعود اشعراس وقت ملتان میں ’’امروز ‘‘کے ریذیڈنٹ ایڈیٹرتھے، اور وہ یہ ذمہ داری 19 برس سے انجام دے رہے تھے،انھیں اس عہدے سے ہٹائے جانے کی ایک وجہ یہ بھی بنی کہ ’’امروز‘‘ کے ڈاک ایڈیشن میں کالونی ٹیکسٹائل ملزکے واقعہ کی خبراور تصویر چھپ گئی تھی، جس پرمارشل لا حکام ان سے خفا ہو گئے۔ یاد رہے کہ کالونی ٹیکسٹائل ملزکے مالک مغیث اے شیخ کی ضیاء الحق سے دوستی بھی تھی۔

 آخر میں ہارون الرشید صاحب سے گزارش ہے کہ وہ اپنی غلطی کو تسلیم کرلیں کیونکہ غلطی نہیں، غلطی پر اصرار، صحافیوں کو برباد کر دیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments