وزیراعظم نے ممنون حسین صاحب کو صدر کیوں بنایا؟


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3\"بہت سے لوگ حیران ہوتے ہیں کہ اچانک ممنون حسین صاحب کو صدر کیوں بنا دیا گیا؟ حالانکہ نہ تو وہ اس دوڑ میں شامل تھے اور نہ ہی سیاسی سرگرمیوں کے لحاظ سے ان کا نام بار بار عوام کے سامنے آتا تھا۔ ہمیں بھی اس معاملے پر حیرت ہوئی تھی، اس لیے ہم نے معتبر ترین ذرائع سے تصدیق کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے ہم نے آب پارہ کا رخ کیا تاکہ خفیہ معلومات مل سکیں۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ سینہ گزٹ کی خبریں سچ ہوتی ہیں اور ان کا سب سے بڑا سورس علاقے کا حجام ہوتا ہے۔ اس لیے چھوٹے اور درمیانے درجے کے سرکاری ملازمین کے رہائشی علاقے جی سکس کے مرکز آب پارہ کے سب سے مصروف حجام کی دکان پر ہم طویل قطار میں اخبار اٹھا کر بیٹھ گئے اور ایسے ہی برسبیل تذکرہ کہہ دیا کہ ممنون حسین صاحب کسی خبر میں نظر ہی ہیں آتے ہیں، حیرت ہے کہ انہیں صدر کیوں بنایا گیا ہے۔ اس جملے کو ادا کرنے بعد ہماری حجامت ہونے تک جو معلومات ہمیں حاصل ہوئیں، وہ حجام کی زبانی آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ کم از کم ہم صحافی لوگ حجام کی بات کو سچ ہی جانتے ہیں۔ تو حجام کا بیان کچھ یوں ہے۔

سب سے پہلے تو رائے عامہ جاننے والے پول کے ذریعے یہ بات سامنے آئی کہ خواہ جو بھی صدر بنے، اب آئنی ترامیم کے بعد اس کی حیثیت وہی ہو گی جو کہ چودھری فضل الہی کی ہوا کرتی تھی۔ اس پر میاں صاحب نے سوچا کہ پھر آٹھ دس وزارتوں کا قلمدان سنبھالنے کے ساتھ ساتھ وہ خود ہی صدر بھی بن جاتے ہیں۔ اس پر انہوں نے وزیر قانون سے مشورہ کرنا چاہا تو انہیں معلوم ہوا کہ ان دنوں وہ خود ہی وزیر قانون ہیں۔ اس لیے لاچار ہو کر انہوں نے اپنے سب سے زیادہ قابل اعتماد ساتھی چودھری نثار کو طلب کر لیا اور پوچھا:

\"nisar-ali-khan-june\"

چودھری صاحب، کیا آئینی طور پر مجھے واقعی کسی صدر کی ضرورت ہے؟

میاں صاحب، میں نے اس پر کبھی غور نہیں کیا ۔ مگر میرا خیال ہے کہ صدر کی تقرری آئینی تقاضا ہے۔ ورنہ چیف جسٹس سے حلف کون لے گا اور افواج پاکستان کا سربراہ کون ہو گا؟

اچھا اس منصب کے لیے کوئی موزوں شخص آپ کی نگاہ میں ہو تو بتائیں۔

میاں صاحب، میں نے کبھِی اس پر بھی غور نہیں کیا ہے۔ مگر آپ آگے پیچھے دیکھیں تو ممکن ہے کہ آپ کی جوہر شناس نگاہوں کو بالکل سامنے ہی کوئی دکھائی دے جائے۔

میاں صاحب نے اپنے سامنے میز پر چائے رکھتے ہوئے بیرے کو دیکھ کر مایوسی سے سر ہلایا اور کہنے لگے: اچھا جب آپ کے ذہن میں کوئی موزوں نام آئے تو مجھے مطلع کریں۔

اگلے ایک ہفتے کے دوران میاں صاحب نے صدر مملکت کے تقرر کے لیے ہر ایک سے ہی مشورہ کیا۔ انہوں نے وزرا، گورنروں، ممبران پارلیمنٹ، سرمایہ کاروں، تاجروں اور ترکوں سمیت سب سے ہی مشورہ کیا۔ حتی کہ بعض اوقات تو وہ وزیراعظم ہاؤس کے جنگلے سے لگے باہر سے گزرنے والے راہگیروں سے بھی مشاورت کرتے دکھائی دیے۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ اس بڑے منصب پر تقرری کا فیصلہ تن تنہا نہیں کرنا چاہتے تھے۔

جیسے جیسے وقت گزرتا رہا تو شارٹ لسٹڈ امیدواروں کی لسٹ لمبی ہوتی رہی۔ حتی کہ اس میں پچیس سینیٹر، چھیاسی ممبران پارلیمنٹ، چاروں گورنر، ڈیڑھ درجن خواتین، اور وزیراعظم کی سیکیورٹی پر مامور بیس پولیس والے اور وزیراعظم ہاؤس کے تین مالی بھی شامل ہو گئے جن کے ناموں پر سنجیدگی سے غور کیا جانے لگا۔

\"nawaz_sharif_fly_zpsf11f904a\"

جب بھی وہ چودھری نثار کو مشاورت کے لیے طلب کرتے اور ان سے پوچھتے کہ چودھری صاحب، آپ کی نظر میں کوئی موزوں امیدوار ہو تو بتائیے، تو وہ یہی جواب دیتے کہ میاں صاحب، آپ جوہر شناس ہیں، موزوں بندہ آپ کے سامنے ہے، بس آپ توجہ کریں تو دقت نہیں ہو گی، لیکن نام ذہن میں نہیں آ رہا ہے جو آپ کو دیا جا سکے۔ آپ خود ہی سامنے دیکھ لیں۔

وزیراعظم صلاح مشورے میں جتے رہے۔ انہوں نے ٹی وی اینکروں، کھلاڑیوں، کالم نگاروں، اور گوالمنڈی کے بلدیاتی کونسلروں سے بھی مشورہ کیا، مگر کسی نام پر یکسو نہ ہو سکے۔ آخری تنگ آ کر انہوں نے دوبارہ چودھری نثار کو بلایا۔

چودھری صاحب، وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ میری مدد کریں۔ مجھے بتائیں کہ صدر کے منصب کے لیے کون شخص موزوں ہے؟

میاں صاحب، ایسے تو ذہن میں کوئی نام نہیں آ رہا ہے، مگر آپ جوہر شناس ہیں، توجہ سے دیکھیں گے تو سامنے ہی موزوں ترین شخص دکھائی دے جائے گا۔ کوئی ایسا شخص ہونا چاہیے جو کہ سیاست میں طویل عرصے سے رہا ہو، داخلی امور کو خوب جانتا ہو، پولیس اور سیکیورٹی اداروں کے معاملات سے واقف ہو، پارلیمان کو اندر باہر سے جانتا ہو، بس ایسا ہیرا شخص ہونا چاہیے۔

اچھا چودھری صاحب، ایسے بندے کا نام ذہن میں آ جائے تو مجھے فوراً بتائیں۔

پورا ہفتہ موجودہ و سابقہ ممبران اسمبلی کا تانتا بندھا رہا۔ ان کے علاوہ اوورسیز پاکستانیوں کے وفد بھی آتے رہے۔ وزیراعظم کو قائل کرنے کے لیے انہوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ اور ان میں سے ہر ایک اسی یقین سے ایوان وزیراعظم سے رخصت ہوتا تھا کہ اس کا نام تقریباً فائنل ہو چکا ہے۔

\"mamnoon-nawaz-2\"

پھر ایک دن انہوں نے وزیراعظم ہاؤس کے دوسرے کمرے میں میاں شہباز شریف صاحب کو یہ کہتے سنا کہ لازمی طور پر کسی وزیر کو ہی صدر بنایا جانا چاہیے۔ میاں صاحب سخت طبیعت کے آدمی ہیں۔ ان کو کوئی مجبور نہیں کر سکتا ہے کہ آپ یہ فیصلہ کریں۔ اس لیے انہوں نے فوراً امیدواروں کی لسٹ میں سے اپنی کابینہ کے تمام افراد کا نام کاٹ دیا۔

اب یہ آخری دن تھا جب کہ صدر کے انتخابات کے لیے کاغذات جمع کروائے جانے تھے۔ میاں صاحب صدارتی امیدواروں کی لسٹ سامنے رکھے سوچ میں گم بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ بیگم کلثوم نواز صاحبہ نے کہا، میاں صاحب، ممنون حسین صاحب کی بیگم سے مجھے بہت شرمندگی ہونے لگی ہے۔ ہم چار مرتبہ کھانے پر ان کے گھر جا چکے ہیں، مگر ان کو ایک مرتبہ بھی ان کو کھانا کھانے کے لیے اپنے گھر نہیں بلایا ہے۔ جب بھی ان کو بلانے کی بات ہوتی ہے تو آپ بہانہ کر دیتے ہیں کہ اب یہ مصروفیت ہے اور اب وہ مصروفیت ہے اور وزیراعظم ہاؤس کے ڈنر کے مہمانوں کی لسٹ میں ان ان صاحب کا نام لکھا ہوا ہے جنہیں پہلے کھانے پر بلانا ہے۔ آپ کی لسٹ جائے بھاڑ میں۔ بس اب ممنون حسین صاحب کا نام فائنل ہے۔

میاں صاحب نے گھبرا کر بیگم صاحبہ کا چہرہ دیکھا، اور ممنون حسین صاحب کا نام فائنل کر دیا۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments