مولانا، مریم اور بلاول کا حکومت گرانے کے بارے میں موقف


26 جون کو ایجبیسٹن گراؤنڈ میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کا کرکٹ مقابلہ تھا پاکستان کے لیے ابھی نہیں تو کبھی نہیں والی پوزیشن تھی۔ ٹورنامنٹ میں زندہ رہنے کے لیے پاکستان کو بہرصورت ناقابلِ تسخیر نیوزی لینڈ کو شکست دینا تھی۔ پاکستان کی شاہینوں نے انہونی کر ڈالی نیوزی لینڈ کو چھ وکٹوں سے ہرا دیا اور کرکٹ کے سب سے بڑے میلے سے ابھی باہر نہیں ہوئے۔

جب نیوزی لینڈ اور پاکستان کا مقابلہ ہو رہا تھا عین اُسی لمحے پاکستان میں سیاست کے کھلاڑی جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں موجودہ حکومت کو اقتدار سے علیحدہ کرنے پر حکمت عملی طے کر رہے تھے۔

طویل ترین مشاورتی اجلاس کے بعد اے پی سی کے بطن سے کوئی خاص چیز نہیں نکلی، اجلاس کی کہانی بیان کرنے والے بتاتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن قبل از وقت انتخابات چاہتے ہیں، مولانا فضل الرحمٰن تو روز اول سے چاہتے تھے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے ممبران اسمبلیوں میں حلف نہ اُٹھائیں۔ انھوں نے دونوں جماعتوں کے سربراہان کو اس پر منانے کی بھرپور سعی بھی کی تھی مگر انھیں اس پر کامیابی نہیں ملی۔

ترپ کا یہ پتہ ضائع ہونے پر اب وہ اس کوشش میں ہیں کہ اسلام آباد میں ایک ایسا دھرنا دیا جائے جو اس حکومت کو ختم کردے، اور نئے انتخابات کے نتیجے میں وہ ایک بار پھر کامیاب ہوکر قومی اسمبلی پہنچ جائیں۔ تحریکِ انصاف نے انہیں ان کے انتخابی حلقوں میں پہلی بار للکارا ہے اور شکست بھی دے دی ہے، اس لیے وہ کسی صورت نہیں چاہتے کہ عمران خان وزارتِ اعظمیٰ کے عہدے پر فائز رہیں۔

مگر پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرادری مولانا کے اس بیانیہ کے سامنے بڑی رکاوٹ بن گئے اُن کا کہنا تھا کہ وہ جمہوریت کو کسی بھی صورت ڈی ریل نہیں کریں گے ان کے آبا و اجداد نے جمہوریت کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں اور رہی بات نئے انتخابات کی تو سوائے مولانا کے کوئی بھی سیاسی جماعت یہ نہیں چاہتی کہ مڈٹرم انتخابات کا انعقاد ہو کیونکہ مشکل معاشی صورتحال کا بھاری بوجھ اُٹھانے کے لیے کوئی تیار نہیں۔

جبکہ مریم نواز کا خیال کچھ اور ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ قبل از وقت انتخابات کے بجائے اِن ہاؤس تبدیلی ہو، کیونکہ عمران خان کی موجودگی میں ملک کے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید خراب ہورہے ہیں، وہ جتنا عرصہ اپنے عہدے پر موجود رہیں گے، مسائل مزید بڑھیں گے اور آنے والی حکومت بھی انہیں حل نہیں کرسکے گی۔

بلاول بھٹو زرداری کو ان کی پارٹی کے سینئر رہنما بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ پہلی بار قومی اسمبلی میں منتخب ہوکر آئے ہیں، اس لیے 5 سال پارلیمانی نظام کی گہرائیوں کو سمجھیں اور پرکھیں، ساتھ ہی ساتھ یہ بھی مشاہدہ کریں کہ 2023 ء کے انتخابات کے لیے دیگر جماعتوں کے کون کون سے اچھے لوگ اپنی طرف لائے جاسکتے ہیں، یوں بلاول 5 سال مکمل کرنے کے بعد وزیراعظم بننے کی خواہش لے کر میدان میں اتریں۔

مریم نواز بھی آنے والے انتخابات میں اہم کردار ادا کرنا چاہتی ہیں لیکن عدالتی فیصلے کے باعث فی الحال انہیں سازگار حالات کا انتظار ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ بھی اِن ہاؤس تبدیلی کے حق میں ہیں، مسلم لیگ (ن) موجودہ حکومت کو مزید مہلت دینے پر تیار ہے کیونکہ اُن کی خواہش ہے کہ عمران خان عوام کے سامنے مکمل ایکسپوز ہو جاہیں وہ موجودہ حکومت کو ہٹا کر تحریک انصاف کو سیاسی شہید کا درجہ دینے کو تیار نہیں۔

اے این پی، نیشنل پارٹی، پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی جیسی چھوٹی جماعتیں تو فوری انتخابات کی حامی ہیں اور دیگر چھوٹی جماعتوں کی طرح ان کا ماننا یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) انہیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہیں۔

قومی وطن پارٹی کی قیادت بھی اسی قسم کی رائے رکھتی ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے اے پی سی کے اجلاس میں مذہبی معاملہ اُٹھایا کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں توہین صحابہ کی اس پر بھی بلاول بھٹو نے منجھے ہوئے سیاستدان کی طرح مولانا کو کہا کہ میں اور میری جماعت کسی بھی صورت میں سیاست میں مذہب کو انوالو نہیں ہونے دیں گے اس پر مولانا فضل الرحمان نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ مولانا بہرصورت اعلامیہ میں اس کو شامل کروانا چاہتے تھے۔ طویل گفت و شنید کے بعد اعلامیہ سے یہ شق نکالی گئی۔

سینیٹ کے چیئرمین کو ہٹا کر بلوچستان سے نئے چیئرمین لانے کا کہا گیا اور سئنیٹر حاصل بزنجو کے نام پر اپوزیشن نے اتفاق کر لیا۔ ایک دو ہفتوں تک رہبر کمیٹی اس کا اعلان کرے گی۔

مسلم لیگ ن کے ایک سینیر رہنما کا کہنا تھا کہ ایک ماہ کا وقت اس لیے دیا گیا اس عرصے میں بجٹ بھی منظور ہو جائے گا اور معاشی دھند مزید گہری ہو جائے گی۔ ن لیگ ہی آگے بڑھے گی اور عوامی احتجاج کی قیادت اپنے ہاتھ لے گی۔ ن لیگ ایک سیاسی قوت ہے اور وہ کبھی سیاسی میدان بارہویں کھلاڑی کے حوالے نہیں کرے گی۔
بارہویں کھلاڑی کے حوالے سے جب راقم نے پوچھا اپ کا اشارہ مولانا فضل الرحمان کی طرف تو نہیں اس پر وہ مسکرائے اور کہنے لگے وقت آنے پر پتہ چل جائے گا۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui