عمر نعمت کا کیس: چار سال تک سیالکوٹ کے چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے پاس رہنے والے بچے کو والدین تک پہنچنے میں اتنی دیر کیوں لگی؟


نعمت

محمد عمر نعمت اپنے والدین اور پولیس اہلکاروں کے ہمراہ

فاروق آباد شیخو پورہ سے 23 مئی 2015 میں لاپتہ ہونے والا بچہ عمر نعمت چار سال بعد بالآخر اپنے والدین سے ملا۔ مگر چار سال تک پنجاب چائلڈ پروٹیکشن بیورو سیالکوٹ کے پاس رہنے والے بچے کو اتنا انتظار کیوں کرنا پڑا اور کیسے ایک مہینے کی کوششوں سے ایک بچھڑے بچے کو والدین سے ملوایا گیا؟

محمد عمر نعمت کون ہے؟

عمر نعمت ضلع شیخو پورہ کے علاقے فاروق آباد کا رہائشی ہے اور اس کے والد کا نام نعمت ہے جو بس کنڈکٹر ہیں اور اپنی بیوی آسیہ کے ساتھ رہتے ہیں۔

عمر بچپن سے ہی چیزوں کو سمجھنے میں دیر لگاتا تھا یعنی ’سلو لرنر‘ تھا۔ اسی وجہ سے انھیں اپنے بارے میں زیادہ معلومات یاد نہیں تھیں۔

جس دن عمر لاپتہ ہوا اس دن وہ اپنی پھوپھی کے ساتھ گوجرانوالا کے علاقے راہ والی کے بس اڈے پر تھا جہاں سے وہ لاپتہ ہو گیا۔

تفصیلات کے مطابق وہ ایک بس یا ویگن میں سوار ہو کر سیالکوٹ کے علاقے ڈسکہ کے تھانہ دھرم پورہ کی حدود میں جا پہنچا جہاں پولیس نے مساجد میں اعلانات کروائے اور اس کے والدین کو تلاش کرنے کی مقامی طور پر کوشش کی۔ مگر ناکامی پر بچے کو چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے حوالے کر دیا گیا جن کی زیرِ کفالت وہ چار سال تک رہا۔

یہ بھی پڑھیے

غیر تربیت یافتہ پولیس!

کراچی میں لاپتہ ہونے والے بچے کہاں ہیں؟

امریکہ: کیا ہر نوے سیکنڈ میں ایک بچہ لاپتہ ہوتا ہے؟

مستنصر فیروز

سیالکوٹ کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر مستنصر فیروز نے بتایا کہ اس کامیابی نے ان کی حوصلہ افزائی کی ہے

عمر کا کیس کیسے سامنے آیا؟

سیالکوٹ کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کیپٹن ر مستنصر فیروز کہتے ہیں ’اس سال عید کے موقع پر نمازِ عید کے بعد میں نے اپنے شیڈول کے مطابق پولیس کے شہدا کے گھر والوں سے ملنے اور عیدی دینے جانا تھا تو جیسے ہی میں مسجد سے باہر نکلا میرے ساتھ موجود سید بلال حیدر جو سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنر ہیں، انہوں نے مجھے اپنے ساتھ چائلڈ پروٹیکشن بیورو جانے کی دعوت دی۔‘

یہ بھی پڑھیے

غیر تربیت یافتہ پولیس!

طاہر داوڑ کون، انھیں دھمکیاں کیوں ملتی تھیں؟

پھوپھی کو شادی سے نکالنے کے لیے بھتیجے نے پولیس بلا لی

مستنصر کہتے ہیں کہ ’میرا ارادہ نہیں تھا مگر میں نے بلال حیدر کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا اور انھوں نے میرے ساتھ پولیس کے شہدا کے گھر جانے کا فیصلہ کیا اور یوں میں چائلڈ پروٹیکشن بیورو پہنچا۔‘

عمر نعمت سے ملاقات کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ’بیورو پہنچنے پر ہم کئی بچوں سے ملے مگر بیورو والوں نے عمر سے ملاقات کراتے ہوئے بتایا کہ یہ بچہ ہمارے پاس چار سال سے ہے اور بہت پریشان اور اداس رہتا ہے اور اکثر روتا ہے۔ مستنصر کہتے ہیں کہ میرے اپنے بچے ہیں اور اس طرح اس بچے کی پریشانی کا مجھ پر گہرا اثر ہوا اور میں نے دل میں ارادہ کیا کہ میں اس بچے کو اس کے ماں باپ سے ضرور ملوانے کی کوشش کروں گا۔‘

عمر سے تفصیلی ملاقات

عید کے موقع پر اس ملاقات کے ایک ہفتے بعد مستنصر ایک بار پھر عمر سے ملنے چائلڈ پروٹیکشن بیورو گئے اور اس سے تفصیلی گفتگو کی۔ عمر کے کیس میں سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اسے اپنے علاقے کا نام تک یاد نہیں تھا۔

عمر نے مستنصر کو اپنے والد کا نام بتایا اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ اس کی والدہ ملیاں کی رہنے والی ہیں۔ اس کیس میں یہ دو معلومات بہت مفید ثابت ہوئیں اور پولیس کو اس معاملے میں مثبت پیش رفت کی بنیاد ملی۔

عمر کے والدین کی تلاش

نعمت

محمد عمر نعمت کو والدین سے ملانے والی ٹیم: کانسٹیبل رضا علی، ٹریفک وارڈن سب انسپیکٹر محدث بیگ اور سب انسپکٹر محمد ندیم شامل تھے

مستنصر کہتے ہیں کہ ’میں نے اس کے بعد پولیس کی ریکارڈز اور دوسرے سرکاری ریکارڈز سے ملیاں نام کے گاؤں تلاش کیے۔ مجھے ایسے چار گاؤں ملے جن کی بنیاد پر دو پولیس اہلکاروں پر مشتمل ٹیمیں بنائیں جنہیں ان علاقوں کی جانب روانہ کیا گیا۔ یہ ٹیمیں بناتے وقت مستنصر نے اس بات کو ذہن میں رکھا کہ اس میں ایسے اہلکار شامل ہوں جو اس علاقے کے رہائشی ہوں اور علاقے کو جانتے ہوں۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ان ٹیموں کو ہدایت کی گئی کہ وہ علاقے میں جا کر پولیو ورکروں اور میٹر ریڈرز سے ضرور ملیں جنہیں اپنے علاقے کے ہر گھر کے بارے میں معلومات ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ روایتی طریقوں یعنی مساجد میں اعلانات کے بارے میں بھی ہدایات دی گئیں۔

اس کے ساتھ ساتھ متعلقہ تھانوں کی رپورٹس کا بھی جائزہ لیا گیا۔

بلآخر کامیابی ہوئی!

ان سب ٹیموں میں سے جو ٹیم فاروق آباد گئی اس میں کانسٹیبل ساجد علی اور محدث بیگ شامل تھے۔ دونوں نے علاقے میں پہنچتے ہی اپنی تلاش کا آغاز کیا اور اس میں اپنے کزنز کی مدد بھی حاصل کی۔

انھوں نے مقامی میڈیا کے نمائندوں سے ملاقات کی اور ان کے ذریعے پیغام کو سوشل میڈیا تک پہنچایا۔ دوسرے جانب مقامی کیبل آپریٹرز سے رابطہ کیا گیا جنھوں نے پیغام کو آگے بڑھانے میں مدد دی۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف مساجد میں اعلانات کیے گئے اور لاری اڈے پر ڈرائیوروں اور کنڈکٹروں سے پوچھنے پر انہیں کامیابی ملی اور نعمت نام کے دوسرے شخص سے بات کرتے ہی انہیں پتہ چلا کہ یہی عمر کے والد ہیں۔

عمر کی امی ابو سے ملاقات

نعمت

محمد عمر نعمت اپنی والدہ سے چار سال بعد ملے

جب تلاش کا کام مکمل ہوا تو سیالکوٹ پولیس نے عمر کے والدین کو فاروق آباد سے سیالکوٹ بلوایا اور پھر وہ جذباتی لمحہ آیا جب عمر اپنی ماں سے چار سال سے زیادہ عرصے کے بعد ملا۔

اس آپریشن میں مدد کرنے والے سب انسپکٹر محمد ندیم نے اس لمحے کے بارے میں بتایا کہ ’ان کے لیے یہ موقع ایسا تھا جب ایک بچھڑی ماں اپنے لختِ جگر سے برسوں کے بعد لپٹ کر اسے چوم رہی تھی۔‘

انھیں لگا کہ شاید اسی کام کی وجہ سے ان کی بخشش ہو جائے اور یہی نیکی شاید ان کے کام آجائے۔

عمر کی پھوپھی نے بھی شکر ادا کیا کیونکہ بعض رشتے دار ان پر الزام عائد کر رہے تھے کہ انھوں نے بچے کو شاید غائب کر دیا ہے یا بیچ دیا ہے۔ ان کی خوشی بھی دیدنی تھی۔

ایک نیا آغاز

مستنصر فیروز نے بتایا کہ اس کامیابی نے ان کی حوصلہ افزائی کی ہے اور اسی ماڈل کا اطلاق کر کے مزید بچوں کو ان کے والدین سے ملوانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

انھوں نے تجویز دی کہ اگر اس قسم کے کیسز میں رپورٹ درج کروانے والے والدین کا ڈی این اے نمونہ حاصل کیا جائے اور دوسری جانب چائلڈ پروٹیکشن بیورو اور دوسرے اداروں میں آنے والے بچوں کا بھی ڈی این اے نمونہ لیا جائے تو اس کا ایک ڈیٹا بیس بن سکتا ہے۔

ان کے مطابق اس سے تلاش کے عمل میں نہ صرف آسانی پیدا ہو گی بلکہ بہت سے وسائل کی بھی بچت ممکن ہو سکے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32494 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp