اپوزیشن کا اجڑا میلہ اور حکومت کی فتوحات


لوگ مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ ہیں۔ بجلی، گیس اور پیٹرول کا کیا ذکر بہت سوں کو تو کھانے پینے کے لالے پڑ گئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود حکومت مستحکم ہے۔ اس نے اپنے پہلے وزیر خزانہ کے وعدے کو پورا کرتے ہوئے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔ دور دور تک بہتری کے آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔

عام طور پر جب ایسا ہو تو حکومت غیر مقبول ہوتی ہے اور اپوزیشن کی پتنگ چڑھ جاتی ہے۔ لیکن اس مرتبہ ایسا ہوا کہ حکومت تو بے فکر ہو کر شغل لگانے میں مصروف ہے لیکن اپوزیشن حواس باختہ دکھائی دے رہی ہے۔ میاں نواز شریف اندر ہیں، مریم نواز چپ ہیں، آصف زرداری گرفتار ہو چکے ہیں، اور ان کی پارٹیاں دبکی بیٹھی ہیں۔

بہت رو پیٹ کر آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی۔ اس میں بھی حکومت کو چیلنج دینے کا کوئی متفقہ لائحہ عمل تیار نہیں کیا جا سکا۔ مولانا فضل الرحمان اسمبلیوں سے استعفے دینے کی تجویز پیش کیے بیٹھے تھے مگر بلاول نے یہ کہہ کر کہ اس کے نتیجے میں سیاسی سسٹم تباہ و برباد ہو سکتا ہے، مولانا کی تجویز کو رد کر دیا۔ دبے دبے لفظوں میں یہ بتایا گیا کہ جی ہم چیئرمین سینیٹ بدل دیں گے۔

حالانکہ یہ وہی چیئرمین سینیٹ ہیں جنہیں آصف زرداری نے منتخب کروایا تھا اور اس انتخاب کے دوران بعض اطلاعات کے مطابق ”ایک زرداری سب پر بھاری کے ساتھ نیازی، زرداری بھائی بھائی“ کے نعرے بھی لگائے گئے تھے۔ اس وقت مسلم لیگ ن کو شکست دینا مقصود تھا۔ اب پیپلز پارٹی کو پتہ چلا ہے کہ ”نیازی زرداری بھائی بھائی“ کا نعرہ تو درست ہے لیکن اس رشتے میں زرداری برادر خورد ہیں اور برادر خورد کی حیثیت ایک مشہور فارسی محاورہ ہمیشہ کے لئے متعین کر گیا ہے۔

اپوزیشن کے حامی اپنے دل کو یہ کہہ کر تسلی دے دیا کرتے تھے کہ جب تحریک انصاف کی حکومت اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار رہی ہے تو اسے ڈسٹرب نہیں کرنا چاہیے، عمران خان کا بخار اسی صورت میں عوام کے سر سے اترے گا اگر انہیں عمران خان کی حکومت کا مزا چکھایا جائے۔ لیکن اب جس طرح آسانی سے تحریک انصاف کی حکومت نے اپنا بجٹ پاس کروا لیا ہے اور بلاول بھٹو محض دھاندلی کا شور مچاتے رہ گئے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ اپوزیشن بالکل بے بس ہو چکی ہے۔ بلاول اب عوام سے اپیلیں کر رہے ہیں کہ وہ حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔

سوال یہ ہے کہ اس وقت عوام کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ معیشت سکڑ رہی ہے۔ لوگوں کی نوکریاں جا رہی ہیں۔ کاروبار بند ہو رہے ہیں۔ ایسے میں کون سی ایسی پارٹی ہے جو عوام کے جذبات کو زبان دے رہی ہو؟ کون سا لیڈر ہے جو یہ کہہ رہا ہو کہ وہ عوام کی تکلیف کو سمجھتا ہے اور اس کی خاطر کچھ کرنے کا متمنی ہے؟ اپوزیشن میں کون ہے جو عوام کے ان مسائل کو بنیاد بنا کر حکومت پر دباؤ ڈال رہا ہو؟

عوام کو جب یہ دکھائی دے گا کہ نہ تو حکومت ان کے ساتھ ہے اور نہ ہی اپوزیشن کا کوئی لیڈر، تو پھر سڑکوں پر ایک بے قابو ہجوم ہی نکلے گا جس کا کوئی لیڈر نہیں ہو گا۔ اس ہجوم کے لئے اپوزیشن کے لیڈر بھی اتنے ہی قابل نفرت ہوں گے جتنے حکومت کے۔ عوام اس پر بلاول کی خواہش کے مطابق حکومت کے خلاف نہیں بلکہ سسٹم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ انہیں خواہ کالا چور ہی روٹی دینے کا وعدہ کرے وہ اس کا ساتھ دیں گے۔ پھر خواہ بوٹ آئیں یا داعش، یہ عوام کی قسمت ہو گی۔ نتیجے میں سیاسی سسٹم تباہ و برباد ہو سکتا ہے جسے بچانے کی چاہ بلاول رکھتے ہیں۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ اپوزیشن لیڈر عوام کے ساتھ کھڑے دکھائی دیں۔ صرف یہی فیکٹر سیفٹی والو کا کام دے سکتا ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar