فنکار اور قحط الرّجال


دلدار پرویز بھٹی مرحوم کہا کرتے تھے : ”اَیس مُلک وچ رہن دا اُصول اے جیہڑا ماڑا اے اوہدی ہتھی پے جاؤ تے جیہڑا تگڑا اے اوہدے پَیری پے جاؤ“۔ زمانۂ طالب علمی میں ان کے پروگرام شوق سے دیکھا کرتی بلکہ ایک بار آرٹ کی طالبہ کی حیثیت سے ان کے پروگرام میں بطور مہمان بلائی گئی تھی وہ یاد، یادوں کے جھروکوں سے اُبھرتی رہتی ہے۔ دلدار پرویز بھٹی مرحوم کا یہ جملہ زندگی کی راہوں پر چلتے ہوئے بارہا مجھ سے آن ٹکرایا۔

آج بھی یہ جملہ سعدیہ قریشی کا حسن جعفری پہ لکھا ہوا دلخراش کالم پڑھا تو یاد آگیا۔ کالم پڑھ کر سینے میں درد بیٹھ سا گیا اور یقین مانیے باقاعدہ دکھ کی چبھن محسوس ہوئی یہ الفاظ نہیں احساس ہے۔ سعدیہ نے فیس بُک پہ اپنے کالم کے ساتھ مرحوم حسن جعفری کی تین تصاویر بھی اپ لوڈ کی ہیں جن کے رنگ آپس میں نہیں ملتے اُن کی ایک تصویر میں زندگی اپنی پوری خودداری کے ساتھ چہرے پہ ٹھہری ہوئی عظمت کی دلیل ہے۔ دوسری تصویر میں کیچڑ میں لت پت وہ لاش ہے جس کے کندھوں پہ لٹکا کیمرہ اس بات کاثبوت ہے کہ فنکار کواپنے فن سے لازوال محبت تھی موت بھی جدا نہ کرسکی۔

لڑنے والے کو زخم بھی گہرے لگتے ہیں کبھی زندگی کے ہاتھوں اور کبھی موت کے ہاتھوں لیکن کچھ لوگ ایسے شہ سوار ہوتے ہیں کہ ہارنہیں مانتے اپنی ہٹ کے پکے ہوتے ہوئے کوئی شکایت بھی نہیں کرتے۔ بس اپنے پیاروں کی خاطر زندگی کرتے چلے جاتے ہیں نہ لبوں پہ کوئی شکوہ نہ کوئی اُف۔ حسن جعفری کو مَیں اس سے پہلے بالکل نہیں جانتی تھی۔ ایک عام سا فوٹوگرافر جو اپنی جان جلا کر سردی، گرمی اور موسموں کی شدت کو سہتے ہوئے اپنی تصویروں کے ذریعے خبریں بہم پہنچاتا تھا اُسے لوگ کیوں جانیں بھلا۔

اُجرت نہ ہونے کے برابر تھی فقط چھ ہزار ماہانہ وہ ایک نامی اخبار کا فوٹوگرافر تھا۔ دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کا باپ تیس دنوں کے بعد جب ہزار ہزار کے چھ نوٹ لے کر جاتا ہوگا تو آنکھیں پانیوں سے بھر جاتی ہوں گی دال پکاؤں یا سبزی یا مرغی یا صرف پیاز۔ کیا جَری مرد تھا سَر اُٹھا کر خوداری سے جیتا رہا۔ حسرت کا شعر یاد آگیا!

جو چاہے سزا دے لو، تم اور بھی کھیل کھیلو
پر ہم سے قسم لے لو، کی ہو جو شکایت بھی

آج مَیں نے تعزیت کے لیے ان کی بیوہ کو فون کیا تو معلوم پڑا لگ بھگ سال بھر سے وہ بے روز گار تھے گھرکا چولہا ایک بیٹے کی تنخواہ سے چلتا تھا۔ اس نفسانفسی کے دور میں انسان کے پاس ایک دوسرے کے لیے دوگھڑیاں نہیں، حقوق العباد، اخلاقیات، علم و دانش کا ایسا فقدان آگیا ہے کہ اس کی کھیتی سوکھنے لگی ہے۔ مختار مسعود اپنی کتاب آوازِ دوست میں لکھتے ہیں : ”قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے اور قحط الرّجال میں زندگی۔ مرگِ انبوہ کا جشن ہو تو قحط، حیاتِ بے مصرف کا ماتم ہوتو قحط الرّجال۔

ایک عالم موت کی ناحق زحمت کا دوسرا زندگی کی ناحق تہمت کا۔ ایک سماں حشر کا دوسرا محض حشرات الارض کا۔ زندگی کے تعاقب میں رہنے والے قحط سے زیادہ قحط الرّجال کا غم کھاتے ہیں“۔ کتنے خوب صورت جملے لکھ گئے وہ۔ آج ہم اسی قحط الرّجال کے غم سے گزر رہے ہیں۔ بھوک تو شاید برداشت ہوجائے لیکن جس قوم میں قحط الرّجال آجائے تو وہ نوشتہ ہے جس پہ اس قوم کی موت کندہ ہے۔ دنیا سے قحط کا توخاتمہ ہوگیا لیکن ترقی پذیر ممالک میں قحط الرّجال ختم نہ ہوا بلکہ بڑھ گیا۔

صحافی برادری جو کتاب دوست کہلاتی ہے، ادبی انجمنیں سجاتی ہے لیکن حق مارنا بھی ان دنوں چلن بن چکا ہے۔ وقت پر مزدوروں کی مزدوری ادا نہ کرنا اَوچھا وتیرہ بن چکا ہے۔ یوں تو بہت سی صحافتی تنظیمیں ہیں لیکن کیا اُن میں ایک دوسرے کی فلاح کے لیے کوئی خاطر خواہ کام سرانجام دیے جاتے ہیں یا یونہی تقریریں جھاڑی جاتی ہیں۔ عصرِ حاضر میں میڈیا کی تمام جہتیں طرح طرح کی مشکلات اور بحرانوں کا شکار ہیں۔ ایسے میں نامور صحافیوں کو تو بہترین اُجرت دی جاتی ہے لیکن عام صحافیوں کو زندگی کرنا دشوار ہوگیا ہے۔

سُنا ہے حسن جعفری مغل پورہ کی طرف اپنے گھر کو جاتے ہوئے ایک تیزرفتار کار کی ٹکر کا نشانہ بن کر نہر میں جاگِرے۔ حیرت ہے مغل پورہ کی طرف سے بہت سے انڈر پاس بننے او ر سڑکیں کھُلی ہونے جانے کی وجہ سے ایکسیڈنٹ کے خطرات کم ہوگئے ہیں لیکن یا تو کار والابہت تیزی میں تھایا پھر وہ بے چارہ فوٹو گرافر کسی خوابیدہ سو چ کے تانے بانے بُن رہا تھا۔ زندگی کی بنیادی ضروریات سے آشنائی اور مہنگائی کی ستائی ہوئی عوام حالات کے تقاضوں سے اُلجھتی ہوئی صبح سے شام تک چلتی ہے اور پھر تھکی ماندی رات کی سیاہ چادر اوڑھ لیتی ہے۔

اگلے دن کا سنہری سورج پھر مُٹھی میں چمکتے خواب تھما دیتا ہے اور حضرتِ انسان کی تلاش شروع ہوجاتی ہے۔ علم الاقتصاد کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم کے درخشاں مستقبل کا انحصار اس ملک کی دولت اور آبادی پہ ہے۔ اگر آبادی میں اضافے کی شرح اس ملک کی دولت کی شرح سے کم ہو تو وہ قوم مفلسی کا شکار ہوجاتی ہے۔ حسن جعفری تو دنیا کے خارزار جھاڑیوں سے لہولہان ہوتا ہوا اپنے رب کے حضور پیش ہوگیا۔ کہتے ہیں حلا ل کی کمائی کے راستے میں موت آئے تو شہید کا درجہ ملتا ہے۔

اس کی ناگہانی موت کو رائیگاں ہونے سے بچانا ہمارا اولین فرض ہونا چاہیے۔ اس جیسے اور بہت سے معمولی رپورٹرز، فوٹو گرافرز، دفتروں میں چائے دینے والے، فائلوں کی جانچ پڑتال کرنے والے ایسے بے شمار لو گ ہیں جن کی بے زبانی زبان کا کام کررہی ہے۔ کیا باقی اہلِ قلم ان کی بے زبانی کو آواز دے سکتے ہیں۔ حسن جعفری کے گہرے دوست محمد اکمل جو خود بھی ایک نجی اخبار کے فوٹو گرافر ہیں ان سے بات ہوئی تو بتانے لگے کہ وہ بہت خوددار اورخوش خلق انسان تھے۔

خود حالات کی سختی کا شکار ہونے کے باوجود دوستوں کی مدد کو ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ کیا انسان تھا جس کی اپنی رات دن میں ڈھلتی نظر نہیں آتی تھی اس کی زندگی کی طرح موت بھی اس کے قابو میں نہ تھی۔ باغِ صحافت میں جو پھول کھلتے ہیں اور اس کی رونق کو بڑھاتے ہیں اگر ان پھولوں کی آبیاری نہ کی گئی تو اُجڑتا ہوا باغ دیکھ کر رنگ رنگ کے پنچھی وہاں آنا چھوڑ دیں گے۔ میری التجا ہے ان میڈیا مالکان سے خدارا! اگر آپ درد شناس ہیں تو کم از کم تنخواہیں وقت پر ادا کر دیا کریں۔

مختلف اخبارات کے کتنے بہت سے سفید پوش صحافی ہیں جن کو کئی مہینوں سے تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی گئی۔ اپنی زندگیوں کا ایک بڑا حصہ صحافت کو دینے کے بعد بھی یہ لوگ اس بات کی مانند ہیں جو بہت آہستگی سے کہی گئی ہو اور سُننے والے کے کان تک نہ پہنچ سکی ہو۔ ایسی کمزور آواز پہ سفید پوشی کی طاقت بھی آنسو بہاتی ہے اور وہ انسان خود کو صرف مٹھی بھر خاک سمجھتا ہے جو کسی بھی لمحے بکھرنے کو تیار بیٹھی ہو۔ محکوم بن کر رہنے والے عام لوگوں کے دلوں کو آزادی کی لذت سے آشنا نہیں ہونے دیتے۔

پیچھے بہت سے بچ جانے والے صحافیوں کے لیے صحافتی تنظیمیں، پریس کلب، نامی کالم نگار اور اینکر پرسن اپنی آواز بلند کریں اور کچھ ایسے قوانین بنائیں کہ روز گارِ زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے عزتِ نفس مجروح نہ ہو۔ یہ دنیا ہی کمائی کا ذریعہ ہے آگے بڑھیے، حقوق و فرائض دونوں کا خیال رکھیے۔ قحط الرّجال کو دُور کرنے میں قدم بڑھائیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).