کیا پھپھو واقعی بہت بری ہوتی ہے؟


”تم زیادہ پھپھو بننے کی کوشش نہ کرو“۔
یہ وہ جملہ ہے جو ہمارے ارد گرد بے جا روک ٹوک اور نکتہ چینی کرنے والے فرد کو خاموش کرانے کے لیے عام بولا جانے لگا ہے۔ چاہے غیر ضروری تنقید کرنے والا فرد کوئی مرد ہی کیوں نہ ہو، اسے تشبیہ پھپھو سے ہی دی جاتی ہے۔ حتی کہ قومی یا بین الاقوامی معاملات میں بھی کوئی بڑی شخصیت مسلسل ناراضگی اور ہٹ دھرمی پر مبنی رویہ دکھائے تو اسے بھی سوشل میڈیا پر اکثر پھپھو کے خطاب سے ہی نوازا جاتا ہے۔

آخر پھپھو کی شخصیت میں ایسا کیا ہے جو گھریلو بحث مباحثوں اور سوشل میڈیا پر اس رشتے کا ذکر ہمیشہ جھگڑے، فساد اور دشمنی کے پیرائے میں ہوتا ہے؟ کیا پھپھو واقعی اتنی ہی بری ہوتی ہے؟ یا اسے معاشرے میں بے جا تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے؟ آئیے پھپھو کے کردہ اور ناکردہ گناہوں کا جائزہ لیتے ہیں۔

یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ پھپھو والد کی بہن ہوتی ہے۔ اور یہ بھی سب کے علم میں ہے کہ ہر بہن اپنے بھائی سے بے انتہا محبت کرتی ہے۔ لیکن اپنے بھائی کی بہن ہونے کے ساتھ ساتھ پھپھو دراصل اس کی بیوی کی نند بھی ہوتی ہے۔ بس یہی وہ مقام ہے جہاں سے معاملات گھمبیر شکل اختیار کرنا شروع کرتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں ساس اور بہو کی طرح نند اور بھاوج کے باہمی تعلقات بھی ہمیشہ سرد یا گرم انتہاؤں پر ہی رہتے ہیں۔ شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جہاں ان رشتوں میں بندھی خواتین ایک دوسرے کے ساتھ خوشگوار یا کم از کم انصاف پر مبنی برتاؤ کرتی ہوں۔

تو جناب یہ دراصل نند اور بھابی کے درمیان پایا جانے والا ازلی اور شاید ابدی کھچاؤ ہے جو گھر کی آئندہ نسل کو اپنی پھپھو سے متنفر کرتا ہے۔ بھتیجے اور بھتیجیوں کی اپنی پھپھو سے متعلق منفی رائے کی وجوہات بعض اوقات بالکل جائز بھی ہوتی ہیں اور بعض صورتوں میں بالکل بے بنیاد بھی۔

”اگر آپ اپنی خالہ سے محبت اور پھپھو سے نفرت کرتے ہیں تو جان لیجیے کہ آپ کی والدہ نے اپنا کام بڑی مہارت سے انجام دیا ہے“۔

لوک سوجھ بوجھ سے بھرپور یہ قولِ زریں میں نے سوشل میڈیا کی زنبیل سے برامد کیا ہے اور اس میں جس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ پھپھو کے رشتے کی بدنامی کی مکمل نا سہی ایک اہم وجہ ضرور ہے۔

بعض خواتین معمولی اختلافات کو بنیاد بنا کر اپنے بچوں کو دانستہ طور پر ان کے ننھیال سے قریب اور ددھیال بالخصوص پھپھو سے دور رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ دلوں میں بدگمانی کے اندھیرے بسائے یہ خواتین اپنے زندگی کی مشکلات کو اپنی نند کی دین سمجھتی ہیں اور ردعمل میں آکر اپنے بچوں کو اپنا ”محافظ“ بنانے کی خواہش میں انہیں ان کی پھپھو سے بدگمان کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہتی ہیں۔ ایسے کیسز میں پھپھو اپنے بھتیجے بھتیجیوں پر لاکھ جان نچھاور کرے، انہیں اس کے خلوص کے پیچھے ہمیشہ سازش، مکاری اور برائی ہی نظر آتی ہے۔ نتیجتا ان کی رائے پھپھو کے رشتے کے بارئے میں ویسی ہی بن جاتی ہے جیسی ہمارے معاشرے میں عمومی طور پر پائی جاتی ہے۔

تاہم نند اور بھابی کے آتش گیر رشتے میں نند ہمیشہ بے ضرر بھی نہیں ہوتی۔ ایسے گھرانے بہت بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں جہاں نندیں اپنی بھابیوں کی زندگیاں اجیرن بنانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتیں۔ ایسی صورتوں میں جب بچے اپنی ماں کو پھپھو کی لگائی بجھائی کے باعث اذیت میں مبتلا ہوتا دیکھتے ہیں تو ان کے دل میں اپنی پھپھو کے لیے سختی پیدا ہونا قدرتی امر ہے۔

لیکن بہت سے گھروں میں نند اور بھاوج برابر کی چوٹ بھی ہوتی ہیں۔ یعنی دونوں ہی ایک دوسرے کو منہ توڑ جواب دینے کی طاقت سے بھرپور، ہار ماننے سے انکاری اور گھر کے سکون کو تہہ و بالا کرنے کی خداداد صلاحیتوں سے مالامال ہوتی ہیں۔ ایسی صورت حال میں بھی بچے فطری طور پر اپنی ماں کی طرف داری کرتے ہیں اور گھر میں فساد کی اصل جڑ وہ پھپھو کو ہی قرار دیتے ہیں۔

ان تمام حقائق کے باوصف معاشرے میں ایسے گھرانوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں جہاں سسرالی رشتوں میں سرد مہری یا اختلافات کے باوجود گھر کا مجموعی ماحول خاصا خوشگوار رہتا ہے اور بھتیجے بھتیجیاں اور ان کی پھپھو دوستی اور محبت کے مضبوط رشتوں میں بندھے نظر آتے ہیں۔

ان تمام مثالوں کے علاوہ نند اور بھابی کے باہمی تعلقات کی ایک مثال ایسی بھی ہے جو بہت نایاب ہے۔ یہ مثال ان اعلی ظرف خواتین کی ہے جو اپنے باہمی جھگڑوں میں بچوں کو شامل نہیں ہونے دیتیں۔ بھابی اپنی نند کے برے سلوک کے باعث کیسی ہی تکلیف میں کیوں نہ ہو، وہ اپنے بچوں کو پھپھو کے ساتھ گستاخی کی ہرگز اجازت نہیں دیتی۔ یا نند اپنی بھابی کے ہاتھوں کیسی ہی پریشانی کیوں نہ اٹھا رہی ہو، اپنے بھتیجے بھتیجیوں کے ساتھ اس کا رویہ کبھی تلخ نہیں ہوتا۔ نتیجتا بچوں کے دلوں میں اپنے بڑوں کے لیے والہانہ محبت نا سہی احترام ضرور قائم رہتا ہے اور پھر وہ پھپھو جیسے محترم رشتے کا کم از کم تمسخر نہیں اڑاتے۔

اسی مثال کو مدنظر رکھتے ہوئے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر ہم کسی بھی معاملے میں اپنے ردعمل کو صرف اسی معاملے تک محدود رکھیں اور کسی کے برے عمل کی سزا کسی اور کو دینے سے باز رہیں تو یہ بات ہمارے وقار میں اضافے کے ساتھ ساتھ زندگی کو بہت سی آسانیوں سے ہمکنار کرنے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔

شاہد وفا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شاہد وفا

شاہد وفا ایک براڈکاسٹ جرنلسٹ اور لکھاری ہیں۔ معاشرے میں تنقیدی سوچ اور شعور اجاگر کرنا چاہتے ہیں اس لیے معاشرتی ممنوعات کو چیلنج کرنے، جمود توڑنے اور سماجی منافقت کو بے نقاب کرنے کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

shahid-wafa has 31 posts and counting.See all posts by shahid-wafa