پرانی انارکلی میں ناصر کاظمی کا گھر


حفیظ ہوشیار پوری کے خاکے میں ناصر کاظمی نے لکھا ہے کہ وہ لاہور میں تبادلے کے بعد رات ساڑھے گیارہ بجے ان سے ملنے آئے تو اس وقت وہ اپنے تاریک کمرے میں موم کی شمع جلائے کلیات میر پڑھ رہے تھے۔  اچھی بات ہے کہ مذکورہ کلیات اب بھی محفوظ ہے۔  باصر سلطان کاظمی نے اس انتخاب کے تعارف میں اس نسخے کے بارے میں لکھا کہ یہ میر کے اس مصرعے کے مطابق ہے۔

چشم بصیرت وا ہووے تو عجائب دید کی جا ہے دل

ان کے بقول:

 ” اس کے اوراق اتنے شکستہ اور منتشر ہیں کہ مجھے بے اختیار میر ہی کا شعر یاد آتا رہا :

دلِ صد پارہ کو پیوند کرتا ہوں جدائی میں

کرے ہے کہنہ نسخہ وصل جوں وصال مت پوچھو

پھر اس میں سرخ، نیلی، کالی پنسلوں اور قلموں سے اتنے بہت سے اور مختلف نشانات لگے ہوئے ہیں اور حواشی لکھے ہوئے ہیں کہ مظفر علی سید کا یہ بیان درست معلوم ہوتا ہے : ”میر کو اردو ادب کی تاریخ میں ناصر کاظمی سے زیادہ شاید ہی کسی نے پڑھا ہو اور اس کا بہترین انتخاب ناصر کے سوا کوئی نہ کرسکتا تھا۔ “

باصر سطان کاظمی نے بتایا کہ ناصر کاظمی نے اس شعر میں

ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر

اداسی بال کھولے سو رہی ہے

جن دیواروں کا ذکر کیا ہے وہ اسی گھر کی دیواریں ہیں۔

یہ شعر بھی اس گھر میں کہا گیا:

چہکتے بولتے شہروں کا کیا ہوا ناصر

کہ دن کو بھی مرے گھر میں وہی اداسی ہے

ناصر کاظمی اپنی اہلیہ کو اسی گھر میں بیاہ کر لائے۔  یہ چھ جولائی 1952 کی بات ہے۔  بیوی ساہیوال میکے چلی جاتیں تو اداس ہوجاتے۔

 ” پھر شفیقہ (تسکین من) کو خط تحریر کیا۔ وہ آج بہت یاد آئی۔ گھر سونا سونا معلوم ہوتا ہے۔  کاش وہ جلدی آجائے۔ “

باصر کاظمی ساڑھے تین سال اس گھر میں رہے۔  ان کا پیار کا نام گُڈّو ہے۔  ناصر کاظمی نے سولہ ستمبر 1953 کو ڈائری میں لکھا ہے :

گڈو میاں کی منت کی مہندی پرانی انارکلی سے نکالی۔

یہ دعا بھی مانگی:

یا اللہ میرا گڈو میرے سامنے جوان ہو!  پھلے پھولے۔

عمر وفا کرتی تو دیکھتے کہ گڈو نہ صرف جوان ہوا بلکہ شاعری میں باپ کے نقش قدم پر چلا اور اس کے گھنے سائے سے نکل کر شاعری میں اپنا نام بنایا اور یہ شعر کہا :

اس کاروبارِ عشق میں ایسی ہے کیا کشش

پہلے پدر خراب ہوا پھر پسر خراب

حساس دل ناصر کاظمی انسان کے غم میں ہی نہیں گھلتے تھے، پرندوں کی تکلیف بھی ان سے دیکھی نہ جاتی۔ ایک دفعہ موسلا دھار بارش ہوئی اور چڑیا کا بچہ آشیانے سے گر گیا تو بے کل ہوگئے۔  خراب موسم میں پڑوسی سے سیڑھی مانگ کر چڑیا کے بچے کو جائے اماں تک پہنچایا۔

پرانی انارکلی کے اس گھر کی مرکزی اہمیت تو یہی ہے کہ ناصر کاظمی کا یہ ٹھور ٹھکانہ رہا لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ یہاں نامور ادیب ان سے ملنے آتے رہے۔  دوستوں کی منڈلی جمتی۔ چند محفلوں کا ذکر ڈائری میں بھی موجود ہے :

پرانی انارکلی لاہور

٭گھر میں انتظار حسین کے ساتھ ٹیبل ٹاک کی۔ شیخ صاحب خاموش بیٹھے رہے۔  موضوع تھا، ”سوچ اور جذبات۔ “

٭شام کو بارش ہوئی۔ انتظار، شہرت، اقبال اشرف (خوش نویس) عبدالمجید بھٹی، صلاح الدین ندیم، شہزاد احمد، شیخ صلاح الدین اور شاہد حمید کو گھر چائے کی دعوت دی۔

ناصر کاظمی کی محبت اور تعلق لکھنے والوں کو یہاں کھینچ لاتا۔ البتہ ایک دفعہ ڈاکٹر سید عبد اللہ یہاں سخت غصے میں آئے۔  وجہ جاننے کے لیے ناصر کی ڈائری سے یہ اقتباس ملاحظہ ہو۔ :

 ” ہر آواز پر میر غالب رہا

ناصر

یہ مصرع میں نے ڈاکٹر سید عبداللہ کو غالب کے نام پر سنایا۔ کہنے لگے دیوان میں تو نہیں۔  میں نے نسخہ حمیدیہ کا حوالہ دیا۔ مان گئے۔  بعد کو میری نظم ”نیا شہر“ چھپی۔ پڑھ کر شل ہوگئے۔  ایک دن صبح صبح گھر پہ آئے۔  بہت بگڑے کہ تم نے جھوٹ کیوں بھولا۔ میں نے کہا کہ یہ جھوٹ نہ بولتا تو اتنی بڑی داد کیسے ملتی؟

مصرع غالب کے نام سے سنا دو تو واہ۔ خود کہو تو خیر ہاں اچھا ہے۔  خوب ہے وغیرہ وغیرہ۔ بت پرست کہیں کے۔  ”

ہماری خوش قسمتی ہے کہ ناصر کاظمی کے دوستوں سے ہمارا ملنا جلنا رہا اور ان سے بارہا اس مکان کا تذکرہ سنا۔ ناصر کاظمی کے قریبی دوست انتظار حسین اور شاہد حمید سے مکان اور اس کے منفرد مکین کے بارے میں بہت کچھ جانا۔ احمد مشتاق نے ٹیلی فون پر گفتگو میں کئی دفعہ اس مکان کا ذکر کیا۔ ناصر کی شاعری اور شخصیت میں دلچسپی اور ان کے دوستوں سے دوستی کے بعد باصر سلطان کاظمی سے ربط ضبط کی وجہ سے ناصر سے تعلق میں اور زیادہ گہرائی پیدا ہوگئی۔

ناصر کاظمی کے کرشن نگر والے گھر کا ذکر بہت ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے کہ انھوں نے زندگی کے آخری چودہ برس وہیں بسر کیے۔  ان کے بعد خاندان آباد رہا اور اب بھی وہ مکان انہی کی ملکیت ہے، لیکن پرانی انارکلی والے گھرکا ذکر خال خال ہوتا ہے جبکہ اس کی شاعر کی تخلیقی اور ذاتی زندگی میں بڑی اہمیت ہے، اسی بات کے پیش نظر کچھ ہی عرصہ پہلے یہ خیال ہوا کہ اس گھرکا سراغ لگانا چاہیے۔  یہ سوال بھی ذہن میں اُبھرا کہ مکانِ کہنہ کہیں امتداد زمانہ کی نذر نہ ہوگیا ہو؟ یہ ذہنی خلش دور کرنے کے لیے زیادہ تردد نہیں کرنا پڑا۔ انگلینڈ میں مقیم باصر کاظمی سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ مکان موجود ہے اور کسی عزیز کے قبضے (قانونی) میں ہے۔  کہا کہ چند دنوں میں لاہور آنا ہے تو ان شا اللہ دیکھنے چلیں گے۔  اپریل کے آخری دنوں میں وہ لاہور آئے تو پرانی انارکلی بھگوان سٹریٹ جانے کا پروگرام طے ہو گیا۔ ہم نے جس کسی سے برسبیل تذکرہ اس پروگرام کا ذکر کیا اسے ساتھ چلنے کو تیار پایا۔ یوں تین بندے ہمارے ہم راہ ہوگئے، جن میں معروف اینکر اور اداکار نور الحسن، نامور شاعر اور رفیق کار سجاد بلوچ اور عزیزم فرحان احمد خان۔ مقررہ دن کو ہم گاڑی پر منزل کی طرف روانہ ہوئے، راستے میں ناصرکاظمی کی باتیں ہوتی رہیں۔  پرانی انارکلی کی گلیوں میں قدامت کا رنگ پوری طرح گہنایا نہیں، پرانے طرز کے مکان اور درو دیوار موجود ہیں، ماحول میں خاص قسم کی پُراسراریت بھی ہے۔

ناصر کا مکان دیکھنے سے پہلے ہم تاثیر نقوی کے یہاں اکٹھے ہوئے، جہاں سے سے قریب ہی ہماری منزل مقصود تھی، ادھر پنجاب یونیورسٹی شعبہ فلسفہ کے سابق چیئرمین اور باصر کاظمی کے دوست ڈاکٹر ساجد علی اور ایک اور دیرینہ دوست جاوید اقبال اعوان موجود تھے، جو وفاقی سیکرٹری کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔  ناصر کاظمی کے عشاق میں سے ہیں، ان کی کوششوں سے ہی ناصر کاظمی کا یادگاری ٹکٹ جاری ہوا۔ کچھ دیر بعد تاثیر نقوی کی معیت میں ہم وہ مکان دیکھنے پہنچے جسے ناصر ایسے مکین کی وجہ سے شرف حاصل ہے۔  یہ تین منزلہ مکان ہے۔  ناصر نے کہنہ لال اینٹوں کا ذکر کیا ہے لیکن اب اینٹوں پر دھندلی سی سفیدی ہے اور بیرونی دیواروں پر پلستر ہے۔  ان ساعتوں اور لمحوں کا تصور کیا جب رات کا بے نوا مسافر یہاں مقیم تھا۔ وہ کمرہ دیکھا جہاں ان کا بسیرا تھا۔ دیواروں کی حالت خستہ تھی، سیلن کے باعث جہاں تہاں سے دیواروں سے سیمنٹ اکھڑا ہے اور سفیدی بھی جھڑتی ہے۔  تاثیر نقوی نے بتایا کہ دروازے، کھڑکیاں اور روشن دان، یہ سب جوں کے توں ہیں۔  ناصر کے کمرے کا دروازہ گلی میں کُھلتا ہے، جہاں اگلے وقتوں میں چِق پڑی ہوتی تھی، ایک دروازہ کمرے کے درمیان ہے جو صحن میں جا نکلتا ہے اور ایک دوسرے کمرے میں جانے کے واسطے۔  ناصر کا کمرہ اب کسی وکیل کا دفتر ہے، اس میں لکڑی کا کیبن ہے جس کے باہر کمرے کا تھوڑا سا حصہ ہی رہ گیا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3