امریکہ اور طالبان کا رومانس: پاکستان کی زمین پر


پاکستان کی قومی اسمبلی میں بجٹ پیش ہوا اور پھر وہی ہوا جو پہلے بھی ہوتا آیا ہے۔ تو تکار، آوازیں کسنے اور الزام تراشیوں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس شور شرابے میں کسی کو یہ محسوس کرنے کی فرصت نہ ملی کہ انہی دنوں میں یعنی جون 2019امریکہ کی سینٹ میں ان کے سالانہ دفاعی اخراجات کا بل  National Defense Authorization Actبرائے 2020 پیش ہوا۔ اور اب بھی اس میں بہت سی ترامیم زیر غور ہیں۔ ہم ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے میں اتنے مصروف تھے کہ ہم میں سے اکثریت کو یہ علم ہی نہ ہو سکا کہ اس میں پاکستان کی حکومت نہیں بلکہ کچھ پاکستانیوں کے لئے بجٹ تجویز کیا گیا ہے۔ بالکل جس طرح کسی بچے کو ٹافی یا چاکلیٹ دے کر کہا جاتا ہے کہ اگر چپ کر کے بیٹھَے رہے تو اور بھی دیں گے۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ اس بل کا سیکشن 1215 ان کوششوں کی مدد کرنے کے بارے میں ہے جو کہ حکومت افغانستان طالبان سے مفاہمت اور تعلقات قائم کرنے کے لئے کر رہی ہے۔ اور اس میں یہ ذکر ہے کہ اس سلسلہ میں سیکریٹری دفاع کو یہ اختیار ہو گا کہ وہ افغانستان کے کسی شخص یا کسی وجود (entity) یا حکومتی ایجنسی کو مدد دے تاکہ طالبان کو مفاہمت پر رام کیا جا سکے۔ گویا افغانستان کی حد تک تو امریکہ کا سیکریٹری دفاع یہ اختیار رکھتا ہے کہ وہ طالبان سے تعلقات قائم کرنے کے لئے چاہے تو حکومتی ادارے کو مدد دے یا اگر پسند کرے تو افغانستان میں کسی بھی شخص یا ملک کے کسی غیر حکومتی ادارے کو استعمال کرے۔ اور اس بل میں اس مدد کے لئے  Covered Supportکے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ اس شق کے جز D کے شروع میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ :

The Secretary of Defense may only provide covered support within Afghanistan.

ترجمہ : سیکریٹری دفاع صرف افغانستان میں یہ Covered Support مہیا کرے گا

اگر اس جملہ سے پاکستانیوں کو یہ تسلی ہو کہ یہ تو افغانستان کے لئے ہے اور ہمارا اس سے کیا تعلق؟ تو اگلے فقرے اس خوش فہمی کو خاک میں ملا دیتے ہیں۔ اس کے آگے لکھا ہے :

The Secretary of Defense may provide covered support in Pakistan if the Secretary determines, and certifies to the congressional defense committees, that providing covered support in Pakistan is in the national interests of the United States. Not later than 15 days before the date on which the Secretary of

Defense provides covered support to a nongovernmental designated person or entity or provides covered support in Pakistan, the Secretary shall submit to the congressional defense committees written notice۔ ۔

ترجمہ : سیکریٹری دفاع پاکستان میں بھی یہ Covered Support مہیا کر سکتا ہے اگر وہ دفاع کی کانگرسی کمیٹی کو یہ یقین دلادے کہ کہ پاکستان میں یہ Covered Support مہیا کرنا امریکہ کے قومی مفادات میں ہے۔ اور سیکریٹری دفاع پاکستان میں کسی ایسے شخص یا  Entity کو Covered Support مہیا کر سکتا ہے جس کا تعلق حکومت سے نہ ہو۔ اور وہ اس سے پندرہ دن قبل دفاع کی کانگرسی کمیٹی کو اس بارے میں تحریری طور پر مطلع کرے گا۔

فرق یہ ہے کہ افغانستان کی حد تک تو یہ امکان کھلا رکھا گیا ہے کہ طالبان سے روابط قائم کرنے کے لئے حکومتی ا یجنسی سے کام لیا جا سکتا ہے لیکن الفاظ واضح ہیں پاکستان میں امریکہ یہ کام صرف غیر حکومتی اشخاص یا گروہوں سے لیا جائے گا۔ اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ یہ  Covered Supportہے کیا بلا؟ اس کے تحت کیا کچھ آجاتا ہے؟

تو اس بل میں اس کی وضاحت یہ کی گئی ہے کہ Covered Support کے تحت وہ تمام چیزیں آ جاتی ہیں جن کو United States کے کوڈ کے سیکشن 2350 میں درج کیا گیا ہے۔ جب ہم نے اس سیکشن کا جائزہ لیا تو اس میں ‘اسلحہ’ بھی شامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس بل کے ذریعہ سیکریٹری دفاع کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اگر پسند کریں اور محسوس کریں کہ یہ امریکہ کے مفاد میں ہے تو پاکستان میں طالبان سے مفاہمت کرنے کے لئے اسلحہ تک تقسیم کر سکتے ہیں۔ اور اس کے لئے پاکستان کی حکومت کو اطلاع کرنے کی ضرورت بھی نہیں صرف پندرہ روز قبل کانگرسی کمیٹی کو اس کارنامے کی اطلاع کر دیں۔ پاکستان کے مفادات اور پاکستان کی خود مختاری کا ذکر ہی کوئی نہیں۔

(Congressional Record Vol 165 No 103)

آخر ہمیں یہ سوچنا تو چاہیے کہ اگر بیرونی حکومتیں اپنے مفادات کے لئے اس طرز پر پاکستان میں اسلحہ اور مالی مدد تقسیم کرتی رہیں تو پاکستان کے حالات پر کیا اثر پڑے گا بلکہ عالمی امن پر کیا اثر پڑے گا؟ اس کے لئے زیادہ سر کھپانے کی ضرورت نہیں۔ امریکی سینٹ کے جن اجلاسات میں یہ بل پیش ہوتا رہا۔ انہی دنوں میں امریکی سینٹ کے بعض اراکین نے کسی اور موضوع پر اظہار کرتے ہوئے جو کچھ کہا ، اس میں ہی اس سوال کا جواب مل جاتا ہے۔

20  جون 2019 کو امریکی سینٹ میں تقریر کرتے ہوئے سینیٹر Raund Paul نے کہا کہ پاکستان میں ایسا بھی مدرسہ ہے جو کہ سعودی عرب کی مدد سے چل رہا ہے اور اس کے فارغ ہونے والے اسی فیصد طلبا طالبان کی عسکری خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ اور ہم اس کے باوجود سعودی عرب کو اسلحہ کیوں دیئے جا رہے ہیں۔

(Congressional Record Vol 165 No 104)

سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے وزیر  خارجہ کو یہ علم ہے کہ ان دنوں امریکہ کی سینٹ میں جو بل منظوری کے مراحل سے گذر رہا ہے ، پاکستان کے لئے اس کے کیا مضمرات ہیں؟ کیا ہماری پارلیمنٹ نے اس بل کا نوٹس لیا ہے؟ کیا ہم نے یہ محسوس کیا ہے کہ ہماری خود مختاری اور طویل المعیاد مفادات پر اس قسم کے رویوں کے کیا اثرات ہوں گے؟ کیا امریکہ کی سینٹ نے کبھی کسی یوروپی ملک یا کینیڈا یا کسی اور مغربی ملک میں مداخلت کے لئے اس قسم کا بل علی الاعلان منظور کیا ہے؟ یا اس قسم کی شفقت صرف پاکستان اور افغانستان جیسے ممالک کے لئے مخصوص ہے۔

اگر کسی کو یہ غلط فہمی ہے کہ امریکہ ہماری حکومت کے تعاون کے ساتھ طالبان کے ساتھ یہ مذاکرات چلا رہا ہے تو ان صاحب سے درخواست ہے کہ ایک بار اس بل کے متن کو غور سے پڑھیں۔ اس میں پاکستان کے بارے میں واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ یہ مدد جس میں اسلحہ بھی شامل ہے غیر حکومتی اشخاص اور گروہوں کے ذریعہ کی جائے گی اور پاکستان کی حکومت کے ذریعہ نہیں کی جائے گی۔ اب ہمیں تسلیوں اور خوش فہمیوں کی بجائے حقائق کا سامنا کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).