دنگل میں دادا کی جیت کا جشن


\"khurram

اتنی دوستی تو نہیں تھی لیکن جب پوری کلاس ہی مدعو تھی اور دن بھی چھٹی یعنی اتوار کا تھا تو میں بھی پہنچ گیا۔ حویلی کے باہر ہی لوگوں کا ہجوم تھا۔ ڈھول بج رہے تھے۔ رنگ برنگی دھوتی، کرتے اور پگڑیاں پہنے گبرو جوان رقص کررہے تھے۔ پہلی مرتبہ پتہ چلا کہ بھنگڑا، جھومر اور لڈی میں کیا فرق ہوتا ہے۔ چمٹا ہاتھ میں لے کر میں نے بھی کچھ سٹیپ کئے اور اپنی تصویر بنوائی۔ دوست نے بتایا کہ ان کا خاندان صدیوں سے پہلوانی کے لئے مشہور ہے۔ اس کے مرحوم دادا رستم جہاں آباد اور رستم عالم پور تھے۔ جہان آباد ان کے آبائی پنڈ کا نام تھا جس کی آبادی چار سو نفوس تھی۔ دادا کا نام عالم تھا اس لئے اسی گاؤں کو عالم پور بھی کہا جاتا ہے۔ میدان کے بیچوں بیچ دادا کی فریم شدہ بلیک اینڈ وائٹ تصویر سٹول پر رکھی ہوئی تھی جس پر گلاب کے ہار ڈالے گئے تھے۔ یہ اس دن کی تصویر تھی جب قبلہ نے دنگل جیتا تھا۔ میں نے قریب سے دیکھا۔ دادا کے ماتھے پر بڑا سا گومڑا نظر آرہا تھا دائیں آنکھ بری طرح سوجی ہوئی تھی۔ گال پھولے ہوئے تھے۔ سر کے بال ایسے نچے ہوئے تھے جیسے لڑائی کے بعد مرغوں کے پر۔ مجھے دادا سے زیادہ ہارنے والے پہلوان کا سوچ کر اس پر ترس آیا۔ دادا نے یقیناً اسے چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا ہوگا۔ دوست نے بتایا کہ دادا نے سارے پنڈ کے سامنے اس سے زمین پر سات دفعہ ناک رگڑوائی تھی۔ وہاں موجود ہر شخص کے پاس دادا کی شجاعت کے متعلق سنانے کو ایک داستان موجود تھی۔ دادا اپنے بچپن میں ڈرپوک واقع ہوئے تھے خصوصاً چڑیوں کو دیکھ کر تو ان کی گھگی بندھ جاتی تھی اس سے پہلے کہ یہ خبر عام ہوتی اور ان کے پہلوان گھرانے کی بدنامی کا سبب بنتی دادا کے والد نے درجنوں چڑیوں کو فرش پر بچھی چادر کے نیچے چھوڑ کر دادا کو زبردستی چادر پر دوڑایا۔ بس پھر اس دن کے بعد دادا چڑیوں سے نہیں ڈرے۔ اتنی دیر میں دیگوں کے ڈھکن کھل گئے۔ سب لوگ ناچنا بجانا چھوڑ کر کھانے پر پل پڑے۔ میں نے بھی ایک بڑی سی پلیٹ میں ایک طرف پلاو اور دوسری طرف میٹھے چاول لے لئے۔ دوست نے بتایا کہ سب کچھ دیسی گھی میں پکایا گیا ہے۔ یہ سن کر میری طبیعت مالش کرنے لگی اماں کی کہی بات یاد آئی کہ ہم سب گھر والوں کو دیسی گھی ہضم نہیں ہوتا۔ دوست سے پوچھ کر میں حویلی میں موجود بیت الخلا کی طرف روانہ ہو گیا۔ زرا حالت سنبھلی تو باہر نکلا لیکن غلطی سے دائیں کی جگہ بائیں مڑ گیا۔

ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک کمرے میں گھس گیا جس میں دادا کی بڑی بڑی تصویریں ٹنگی تھیں۔ کچھ موٹے موٹے البم بھی کارنس پر دھرے تھے۔ بلا اختیار اٹھا کر دیکھنے لگا۔ بس دادا ہی دادا تھے۔ کہیں ٹرافی اٹھائے، کہیں پھولوں کے ہار پہنے ہوئے، اونچے شملے کی پگ سجائے لڈی ڈالتے یوئے۔ کچھ تصویروں کے پیچھے بھی تصویریں نظر آرہی تھیں۔ اشتیاق سے ایک جو نکالی تو آنکھوں پر یقین ہی نہ آیا۔ دادا کسی پہلوان کے نیچے دبے اپنی شکست قبول کر رہے تھے۔ جلدی جلدی کچھ اور تصویریں کھینچ کر نکالیں جن میں سے کچھ رنگین تھیں یعنی نسبتاً حالیہ ۔ بس اسی طرح کے مناظر تھے۔ دادا حریف پہلوان کے سامنے سجدے میں پڑے ناک سے لکیریں نکالتے ہوئے۔ دادا کا سر پھٹا ہوا، دادا شائقینِ کشتی کے سامنے معافی کے لئے ہاتھ جوڑتے ہوئے۔ دادا اسپتال کے بیڈ پر پڑے جہاں ان کی دونوں ٹانگیں اور داہنا بازو پلستر میں چھپا۔ آخری تصویر میں ان کا دایاں بازو کہنی تک اور دائیں ٹانگ گھٹنے سے اوپر کٹی ہوئی لیکن بیساکھی کے سہارے درجنوں ہار پہنے دادا کی پگڑی کا شملہ دیسی مرغے کی کلغی کی طرح تنا ہوا اور چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ۔ البم جلدی سے بند کرکے میں تیزی سے کمرے سے نکلا تو خود کو تلاش کرتے دوست سے ٹکرا گیا۔ مجھ سے صبر نہ ہوا۔ فوراً ہی ان تصویروں کے بارے میں پوچھ بیٹھا۔ \”تم نے وہ تصویر تو نہیں دیکھ لی جس میں دادا اپنی دھوتی چھوڑ کر دنگل سے اتنی تیزی سے بھاگ رہے ہیں کہ کچھ چڑیاں بھی ان کے قدموں تلے کچلی جارہی ہیں؟ \” اس نے بغیر پریشان ہوئے پوچھا۔ \”نہیں! کیا دادا کے ساتھ یہ بھی یوا تھا؟\” میرے لہچے میں بے یقینی تھی۔ \”تمہارے پردادا کیا کرتے تھے؟\” اس نے میرے سوال کے جواب میں سوال کیا۔ \”ایک دکان پر گھڑیوں کی مرمت کرتے تھے\” \”اور دادا؟\” \”وہ ایک پارسی سیٹھ کے دفتر میں کلرک تھے۔\”میں نے جواب دیا۔ \” تمہارے خاندان میں کوئی پہلوان گزرا یوتا تو تمہیں پتہ ہوتا کہ اگر دادا کی شرمناک شکست کی داستانیں سنائی جاتیں تو پھر ہمارے خاندان میں کوئی بھی پہلوان نہیں بنتا!!\”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments