مارکسزم کا مختصر تعارف


معلوم انسانی تاریخ میں ایسی ایسی قد آور اور عالی فکر شخصیات گزری ہیں جنہوں نے اس کائنات، مافوق الفطرت ہستیوں اور انسان کے آپسی تعلق کے بارے میں ایسے غیر روایتی نظریات پیش کیے جنہوں نے انسانی زاویۂ نگاہ کو یکسر بدل کے رکھ دیا۔ انسانی سماج نے فکری میدان میں جتنی بھی ترقی کی ہے وہ انہیں سوچنے اور بغاوت کرنے والے دماغوں سے عبارت ہے۔

جدید دنیا میں کارل مارکس ایک ایسا ہی عظیم دماغ ہے جس نے انقلابِ فرانس، برطانوی معیشت اور جرمن فلاسفی کے مفصل تنقیدی جائزے کے بعد سماجی، معاشی اور سیاسی حرکیات کی از سرِ نو تشریح کی اور اپنے انقلابی نظریات پیش کیے ۔ ہیگل کا فلسفہ ’ایبسولیوٹ آئیڈئیلزم‘ کا فلسفہ ہے۔ ہیگل کے مطابق فکر اور سوچ ہی وہ محرکات ہیں جو مادی دنیا کو تبدیل کرتے ہیں۔ ہر تھیسز کا ایک اینٹی تھیسز ہوتا ہے جو مل کے ایک سینتھسز بن جاتا ہے جو کہ ایک نیا تھیسز ہوتا ہے اور یہ زنجیر یونہی آگے بڑھتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ہیگل کا فلسفہ سر کے بل کھڑا تھا اور مارکس نے اسے سیدھا کھڑا کر دیا۔ مارکس کے مطابق حقیقت مادی ہے۔ مادے سے باہر کچھ بھی نہیں۔ چونکہ دماغ تمام ذہنی سرگرمیوں کا مرکز ہے جو کہ ایک مادی شے ہے لہٰذا ذہنی واردات بھی مادے ہی کی بدولت ممکن ہے۔ مادہ ہی حقیقت کا جوہر ہے اور مادہ ہی ذہن کا خالق ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ فکر اور اس سے متعلقہ تمام وظائف چاہے وہ سائنسی نظریات ہوں، فنی نظریات ہوں یا سیاسی نظریات ہوں سبھی کی بنیاد یہ مادی دنیا ہی ہے۔ اگر انسانی شعور اور سماجی سچائیوں کو سمجھنا ہے اور ان کی صحیح تشریح کرنی ہے تو ہمیں مادی دنیا کے حقائق کا ہی سہارا لینا ہو گا کیونکہ یہ حقائق تجربے سے ثابت کیے جا سکتے ہیں۔

مارکس کے نزدیک روایتی منطق اور بورثوا سائنسدان اور تاریخ دان فکری مخمصوں کی بنیادی وجہ ہیں۔ روایتی منطق میں عدد ایک ہمیشہ ایک کے برابر ہو گا یعنی کہ اس کی حقیقت تبدیل نہیں ہو سکتی اور یہی بنیادی مسئلہ ہے کہ روایتی منطق سچائی کو ایک جامد شے بنا کے پیش کرتی ہے۔ مارکس کا فلسفہ حرکت اور تبدیلی کا فلسفہ ہے۔ مثلاً عملی زندگی میں ایسا ممکن نہیں کہ ایک پاؤنڈ چینی ایک پاؤنڈ چینی جیسی ہو۔ شاید مقدار کے حوالے سے تو ایسا ہونا ممکن ہو لیکن معیار کے حوالے سے ایسا نہیں ہو سکتا۔

معاشرے میں مختلف متضاد طاقتیں ہمہ وقت بر سرِ پیکار رہتی ہیں اور آہستہ آہستہ چیزیں تبدیل ہو رہی ہوتی ہیں پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ تبدیل ہوتی ہوئی حقیقت یک دم نمایاں ہو جاتی ہے۔ مارکسی مفکرین حمل کی مثال دیتے ہیں کہ دورانِ حمل آہستہ آہستہ چیزیں تبدیل ہوتی ہیں حتٰی کہ ایک وقت آتا ہے کہ مکمل انسانی بچہ بن جاتا ہے۔ معاشرتی تبدیلیاں بھی ایسے ہی رونما ہوتی ہیں جیسے پانی گرم کرتے کرتے ایک ایسا مرحلہ آتا ہے کہ پانی کی ہئیت بدل جاتی ہے اور وہ بھاپ بن جاتا ہے۔ مارکسزم کے مطابق آہستہ آہستہ وقوع پذیر ہونے والی تبدیلی اچانک ایک بڑی تبدیلی بن کے ابھرتی ہے۔

مارکسزم کا آئیڈئیل ایک ایسے معاشرے کی تشکیل ہے جس میں بورژوا نظام ہائے زندگی رائج نہ ہوں۔ سرمایہ دارانہ استحصالی نظام نہ ہو۔ معاشرے میں کسی بھی قسم کی طبقاتی تقسیم نہ ہو۔ ہر اس نظام کی نفی ہو جو استحصال پہ مبنی ہو۔ مارکس کے نزدیک اکثر سائنسدان، ماہرینِ معیشت اور پروفیسرز اسی استحصالی نظام پہ پل رہے ہیں لہٰذا وہ انقلابی سوچ کو پنپنے نہیں دیتے۔ نیوٹن جیسے لوگ بھی جدید سائنسی نظریات پیش کرنے کے باوجود ان کی وہی توجیہہ پیش کرتے تھے جو کہ چرچ کا پادری پیش کرتا تھا۔ حتٰی کہ ڈارون سے پہلے کے اکثر ماہرینِ حیاتیات اس بات پہ یقین رکھتے تھے کہ دنیا میں اتنی ہی سپیشیز ہیں جتنی کہ تخلیق کی گئیں۔

مارکسزم ایک ایسی فلاسفی ہے جو ہر دور میں ’ریلیونٹ‘ ہے۔ آج بھی طبقاتی تقسیم اسی طرح کے استحصالی نظام کو فروغ دے رہی جس میں اشرافیہ اور غریب میں ایک نہ پاٹی جا سکنے والی خلیج موجود ہے۔ غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ مزدور کا استحصال کیا جاتا ہے۔ مزدوروں اور طلبأ کی تنظیموں کا کوئی خاص وجود ہی نہیں ہے۔ مخالف بیانیہ سامنے لانے والی آوازیں دبا دی جاتی ہیں۔ سچ کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے اور سارے کا سارا نظام محض سٹیٹس کو کا نمائندہ ہے۔ آج بھی مارکسزم ہی ایک ایسی فلاسفی ہے جو صحیح معنوں میں تبدیلی لا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).