نیشنل یوتھ کونسل کی تشکیل: کیا نوجوان طبقہ اس سے واقعی مستفید ہو سکے گا؟


ثنا میر، منیبہ مزاری اور ماہرے خان اس کونسل میں شامل ہیں

ثنا میر، منیبہ مزاری اور ماہرے خان اس کونسل میں شامل ہیں

پاکستان میں سوشل میڈیا پر گزشتہ دو دنوں سے کئی نامور شخصیات مبارکبادیں وصول کرتی رہی ہیں کہ انھیں نیشنل یوتھ کونسل کا رکن بنایا گیا ہے۔ ان میں سے کئی نے اس کونسل کی رکنیت دینے پر وزیراعظم عمران خان کا شکریہ بھی ادا کیا۔

وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے کے اختتام پر نیشنل یوتھ کونسل کے قیام کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، جس کی صدارت تو وہ خود کریں گے تاہم نوجوانوں کے امور کے لیے اس کے چیئرمین وزیر اعظم کے خصوصی اسسٹنٹ عثمان ڈار ہوں گے۔

تینتیس اراکین پر مشتمل اس نیشنل یوتھ کونسل میں چاروں صوبوں میں نوجوانوں کے امور کے وزرا سمیت زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات بھی شامل ہیں۔

اس کونسل کے ممبران میں شمالی وزیرستان میں دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن ضرب عضب میں زخمی ہونے والے میجر تنویر شفیع، اداکارہ ماہرہ خان، حمزہ علی عباسی، منیبہ مزاری، فاسٹ بولر حسن علی، ثنا میر، کوہ پیما ثمینہ بیگ، ٹرانس جینڈر نیوز اینکر مارویا ملک سمیت مختلف کاروبار شروع کرنے والے نوجوان، وکیل اور سماجی کارکن شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستانی نوجوان کے لیے نوکری ہی سب کچھ کیوں؟

تحریکِ انصاف کی کتھا کلی!

پاکستان سے غربت کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟

https://twitter.com/RealHa55an/status/1145933177380323330

کونسل کے ممبران کے لیے عمر کی حد 15 سے 29 سال مقرر کی گئی ہے، جبکہ اس کے اراکین کی رکنیت کا دورانیہ ایک سال ہوگا۔

حکومت اسے ملک میں اپنی نوعیت کی پہلی یوتھ کونسل کہہ رہی ہے، لیکن یہ کام کیا کرے گی، کیسے کرے گی، ایسا لگتا ہے کہ ابھی اس بارے میں کافی کچھ طے ہونا باقی ہے۔

پاکستانی نوجوان

’مسائل پر بات چیت کے لیے نوجوانوں کا پلیٹ فارم`

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کونسل کے چیئرمین عثمان ڈار نے کہا کہ اس کونسل کے قیام کا مقصد پاکستان کے نوجوانوں کو وہ موقع فراہم کرنا ہے جس سے پاکستان کی تعمیر و ترقی میں ان کی شراکت داری ہو۔

اس کے مینڈیٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’یہ کونسل وزیر اعظم کے پروگرام ’کامیاب جوان‘ پر عملدرآمد کے طریقہ کار اور نوجوانوں کے لیے ہماری حکومت کے مختلف فلیگ شپ انیشیئیٹوز پر ایک کوآرڈینیٹر کا کردار ادا کرے گی۔‘

اس سوال پر کہ اس سے ایک عام نوجوان کو کیا فائدہ ہو گا، ان کا کہنا تھا کہ یہ کونسل بنیادی طور پر نوجوانوں کو ’اپنے مسائل پر بات چیت کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرے گی، جیسا کہ اس میں شامل کئی بڑے نام براہ راست نوجوانوں کے ساتھ رابطے میں آئیں گے، انفرادی سطح پر کاروبار کا آغاز کرنے والے نوجوان اس حوالے سے معاملات دیکھیں گے، تعلیم کے شعبے میں کام کے لیے بھی مختلف اراکین کو ٹاسک دیا جائے گا۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم کے یوتھ کونسل کی رکنیت ملنے کی وجہ بھی یہی کونسل ہے کیونکہ اس سے پہلے ملک میں ایسی کوئی تنظیم نہیں تھی۔

ایسا لگتا ہے کہ اس کونسل کے مقاصد میں سب سے اہم کام نوجوانوں کو کامیاب بنانا ہے لیکن ایک ایسا پروگرام جس کے ٹی او آرز پہلے ہی واضح کیے جا چکے تھے کیا صرف اس کے لیے بھی یہ کونسل تشکیل دی گئی ہے، اگر نہیں تو پھر اس کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟

’محض نامور شخصیات کی اینڈورسمنٹ‘

حزب مخالف کے سیاستدانوں کی جانب سے یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ ’کامیاب جوان‘ جیسے پروگرام تو پہلے ہی کام کر رہے تھے تو کیا اس کونسل کا مقصد ان کی نگرانی کرنا ہے؟

مسلم لیگ نون کی رہنما مائزہ حمید سمجھتی ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کا ہدف ’محض نامور شخصیات کی اینڈورسمنٹ‘ ہے۔

انھوں نے موجودہ حکومت کی جانب سے شروع کیے گئے یوتھ پروگرامز کو مسلم لیگ ن کے پروگراموں کی نقل قرار دیا اور کہا ’مجھے نہیں لگتا کہ عثمان ڈار کو ابھی یہ بھی واضح ہے کہ اس کونسل کے ٹی او آرز کیا ہیں، ٹائم لائن کیا ہے، اس کے ممبرز ہیں تو وہ کام کیا کریں گے۔‘

انھوں نے ن لیگ کے دورِ حکومت کے یوتھ پروگرامز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف ان پروگراموں پر خاصی تنقید کرتی رہی ہے اور میڈیا بھی سکروٹنی کرتا تھا۔

’اگر جائزہ لیں تو جو مریم نواز شریف نے پوری ٹیم کے ساتھ مل کر اور نوجوانوں کے مسائل کو سمجھ کر، پروگرام ترتیب دیے تھے، یہ انھی کی نقل ہیں۔ عمران خان کے لیے کنٹینر پر کھڑے ہو کر نعرہ لگانا آسان ہے، لیکن ایک ٹیم بنا کر پروگرام تیار کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اور میں نے نہیں دیکھا کہ (موجودہ حکومت نے) کہیں کوئی ایسا پروگرام بنایا ہو یا کامیابی سے دکھایا گیا ہو جس میں نوجوانوں کو انگیج کیا گیا ہو، یا نوجوانوں نے خود بتایا ہو کہ انھیں اس پروگرام کا کوئی فائدہ ہوا ہے۔‘

وزیر اعظم عمران خان

عمران خان نیشنل یوتھ کونسل کے سربراہ ہوں گے

بی بی سی نے اس کونسل کے متعدد اراکین سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، جن میں سے بیشتر نے کوئی رائے نہیں دی جبکہ ایک رکن نے بتایا کہ انھیں اس کے مینڈیٹ کا علم نہیں اور یہ کہ وہ اس ضمن میں ’چیئرمین سے بات کرنے کے بعد رائے دیں گی۔‘

اس پروگرام کی ایک رکن آمنہ کوثر نے جو خاص طور پر نوجوانوں کی سیاسی تربیت کے حوالے سے کام کرتی ہیں، اسے خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ اس کونسل کے قیام سے انھیں اپنی آواز پارلیمان تک پہنچانے میں مدد ملے گی اور وہ سیاست میں تربیت سے متعلق خاص طور یونینز کے قیام کے لیے کام کریں گی۔

انھوں نے کہا ’اب وہ پلیٹ فارم نہیں جن پر یوتھ خاص طور پر سیاسی طور پر اپنے آپ کو انگیج اور گروم کر سکے، میرا مقصد ہوگا کہ نوجوانوں کو ایسا پلیٹ فارم ملے اور سیاسی جماعتوں کو بھی اس مسئلے کا ادراک ہو۔‘

ٹوئٹر پر رعمل

اس سب کے بیچ کئی نوجوان ٹوئٹر صارف یہ سوال کرتے نظر آئے کہ نیشنل یوتھ کونسل میں، ان کے شعبے یا کمیونٹی کی نمائندگی کیوں نہیں ہے؟

لیکن ٹوئٹر صارف شمسہ خلیل نے کہا ہے کہ اس کونسل میں شامل کئی ممبرز کی عمر مقررہ حد سے زیادہ ہے۔ انھوں نے لکھا ’اس (کونسل) کی رکنیت کے انتخاب کے لیے کیا میرٹ رکھا گیا ہے؟ ہم سوشل سائنس کے گریجویٹس ہیں، اور برسوں تک اس کے بارے میں ہر شے کا مطالعہ کرتے ہیں۔‘

ڈسٹرکٹ کونسل پاکپتن کے سابق ممبر عامر حیات بندھارا نے ٹوئٹر پر کہا ’اس کونسل میں فنکاروں، کھلاڑیوں، وکلا وغیرہ کو تو نمائندگی دی گئی ہے لیکن کیا میں (دیہی علاقوں کے نوجوانوں کا نمائندہ) یہ سوال کر سکتا ہوں کہ کیا اس کونسل میں دیہی آبادی یا نوجوان کسانوں کی بھی کوئی نمائندگی ہے؟ میرا نہیں خیال کہ ایسا کچھ ہے۔ اس یوتھ کونسل میں، میں کہاں ہوں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کسانوں کی نمائندگی کے بغیر کیسے یہ کونسل بنا سکتے ہیں، وہ آبادی جو ساٹھ فیصد ہے اور زراعت سے وابستہ ہے۔

ٹوئٹر صارف فیصل شیر جان کہتے ہیں ’آپ کیسے اس کونسل کو ایک تبدیلی لانے کا باعث کہہ سکتے ہیں؟ وہ کیا ہے جو پاکستان کی بڑھتی ہوئی نوجوان آبادی کی ضرورت ہے؟ کیا ہمیں ایک باقاعدہ منصوبہ بندی سے بنائے گئے پروگرام کی ضرورت ہے یا تیس سے زیادہ سیلیبریٹیز کی تصدیق کی؟‘

واضح رہے کہ اس کونسل کی تشکیل کے لیے دیگر کئی اداروں کے ساتھ پاکستان میں یو این ڈی پی کے دفتر نے بھی معاونت فراہم کی ہے۔

اس کونسل میں شامل کئی نوجوان بلاشبہ اپنے شعبوں میں بہترین انداز میں کام کر رہے ہیں، لیکن کونسل بنانے کا مقصد دراصل کیا ہے، اس کی آواز پالیسی سازی میں کس قدر اہمیت رکھ سکے گی اور کیا اس کے ممبران کی جانب سے دی گئی سفارشات کی کوئی اہمیت ہو گی، اس بارے میں فی الحال یہ کونسل خود بھی خاموش ہی نظر آ رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp