آج عبداللہ حسین کی برسی ہے


معروف امریکی ناول نگار E. L. Doctorow نے ایک گفتگو میں کہا تھا کہ لکھاری کسی خلا میں جنم نہیں لیتا۔ لکھاری تو گواہ ہوتا ہے۔ ھمیں لکھاری چاہیئں کیونکہ ھمیں اس صدی کو قلمبند کرنے کے لئے گواہ چاہیئں ۔

جیسے Doctorow کو بیسیوں صدی کا ایم ترین ناول نگار سمجھا جاتا ہے، ویسے ہی عبداللہ حسین بھی اردو زبان اور پاک و ھند کے اہم ترین ناول نگار گردانے جاتے ہیں۔ وہ بھی ایسے ہی لکھاری تھے جو خلاٗ میں نہیں ہوئے بلکہ پہلی جنگ عظیم، دوسری جنگ عظیم اور تقسیم ھند کے نتیجے میں ہونے والی ہولناکیوں کے گواہ ٹھہرے۔ گو کہ وہ خود سمجھتے اور علی الاعلان کہتے تھے کہ وہ حادثاتی مصنف ہیں۔ سادہ سی نوکری کے دوران بوریت کی وجہ سے لکھنا شروع کیا تو پہلا ناول سامنے آیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ناول نے کئی نسلوں کو نہ صرف متاثر کیا بلکہ ان کے اندر کے ازلی دکھ اور اداسی کو شناخت دی؛ ان متاثرہ نسلوں کو نام دیا۔ اداس نسلیں۔

مستنصر حسین تارڑ نے اداس نسلیں کوبٹوارے پر پاکستان کا بڑا اور اھم ناول کہا ہے۔ ناول کے اثر، اس کی شہرت ان بلندیوں پر جا پہنچی کہ خود عبداللہ حسین اس سے خائف تھے، ان کا ماننا تھا کہ عام قاری یہ سمجھتا ہے کہ میں نے صرف ایک ہی ناول لکھا ہے۔ اب اپنے آپ کو حادثاتی سے باقاعدہ تجربہ کار ناول نگار ثابت کرنے کے لئے انہوں نے مزید دو ناول لکھے۔ جن میں باگھ جو ذاتی طور پر ان کا پسندیدہ ترین ناول تھا، اور نادار لوگ جس میں مشرقی پاکستان اور بعد میں حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کی جھلکیاں پیش کی گئیں۔

دلچسپ بات ہے کہ سرکار، ریاست اور سیاست سے ان کی کم ہی نبھی۔ ایک واقعہ جو انہوں نے اس سال لاہور لٹریچر فیسٹویل میں بھی سنایا کہ اداس نسلیں پر پابندی لگانے کی مہم چل رہی تھی ، دوسری جانب ناول آدم جی ایوارڈ کے لئے نامزد ہوگیا۔ ایوارڈ تب کے صدر مملکت ایوب خان کی طرف سے دیا گیا، محفل کے بعد موصوف نے عبداللہ حسین کو ھدایت کی کہ وہ “قومی ناول” لکھا کریں۔ اب یہ قومی ناول کیا ہوتا ہے نہ ہمیں پتہ ہے اور نہ انہیں کبھی عبداللہ حسین کو سمجھ آ سکی۔

اداس نسلیں اور دیگر ناول آپ حضرات نے پڑھ رکھے ہوں گے سو اس ہر تنقید و تعریف آپ کی صوابدید ہے، میں صرف ان کی شخصیت کے بارے جتنا جان سکا اتنا کہوں گا۔

عبداللہ حسین عادات اور لباس میں نہایت سادہ تھے۔ عام طور پر آپ کسی بھی معروف مصنف کو دیکھ کر پہچان تو سکتے ہیں لیکن ان کی کتابوں کی طویل فہرست شاید ہی یاد ہو۔ عبداللہ حسین کے ساتھ معاملہ الٹا تھا، لوگ اداس نسلیں اور نادار لوگ کو تو جانتے تھے، ان کے نام سے بھی بخوبی واقف تھے، لیکن وہ شکلا گم نام تھے۔ ان کے اونچے لانبے قد کاٹھ کو دیکھ کر ٹھتک جاتے۔ سادہ سی پتلون کے ساتھ رننگ شوز ان کا ٹریڈ مارک تھا۔ مہمان نوازی بھی اتنی ہی سادہ اور اپنائت سے بھرپور۔ وقت کے نہایت پابند ۔ یعنی مشرق و مغرب کے رکھ رکھاو کا ملا جلا چلن۔

عبد اللہ حسین نے ایک کے بعد دوسرا اور پھر تیسرا ناول طویل وقفے کے بعد لکھا۔ خود کہتے تھے کہ اردو سے زیادہ واقف نہیں تھے، ان کا اسلوب بھی نہایت سادہ تھا اور اسی وجہ سے شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ بہر حال ناول تشکیل دینے میں جو مدت صرف ہوئی اس سے خاصے مطمئین تھے۔ کہتے تھے کہ بعض لکھاری ھفتے میں کئی کتابیں لکھ ڈالتے ہیں، چیچہ وطنی تک کا سفر کریں تو سفرنامہ تیار۔۔

اس کے باوجود ان کی مستنصر حسین تارڑ سے خاصی دوستی بھی تھی۔۔

ادب کے بارے ان کا خیال تھا کہ اس کی تخلیق و تشکیل محنت طلب کام ہے جس سے اب ادیب حضرات جی چراتے ہیں ۔ خیر اداس نسلیں لکھی، پھر اس کا ترجمہ بھی خود ہی کیا جو The Weary Generation کے نام سے شائع ہوا۔ اس دوران وہ لندن میں رہائش اختیار کر چکے تھے اور وہاں ایک بار چلاتے تھے۔ ہونا تو وہ کاروبار چاہیئے تھا لیکن اصل میں تفریح اور یاروں کی بیٹھک کا بہانہ بن گیا۔ ایک واقعہ جو اس حوالے سے انہوں نے بیان کیا کہ ہمیشہ اعلیٰ اور مہنگا مشروب پیش کرتے، لیکن دوست یار کبھی مطمئین نہ ہوئے، پھر کسی نے مشورہ دیا کہ ھم تو دیسی کے عادی ہیں کچھ سستا، وافر اور گھٹیا پلاو تو راضی ہوں گے۔

اسی بار پر ان کی ملاقات بی بی سی کے ایک پروڈیوسر سے ہوئی جنہوں نے عبداللہ حسین کو کاغذ پر انہماک سے کچھ لکھتے دیکھا۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ کہانی لکھی گئی ہے۔ پڑھنے پر وہ اتنی پسند آئی کہ بی بی سی کی طرف سے ایک فلم کی بنیاد بنی۔ اس کے علاوہ پاکستان ٹیلی ویژن نے ان کی کتاب “نشیب” پر ایک سیریز بھی بنائی تھی۔ سو شہرت انہیں بے انتہا ملی لیکن وہ ذاتی طور پر تنہائی پسند واقع ہوئے تھے۔ چند برس پہلے جب لندن سے لاہور واپس آئے تو قریبی رفقاٗ کے اصرار پر محفلوں میں جانا شروع کیا مگر وہ بھی اکتاہٹ، بے زاری اور عدم دلچسپی کے ساتھ۔ ترجیح یہی ہوتی کہ وقت پڑھنے لکھنے، خود پکانے میں صرف ہو۔ میری ہر ملاقات میں خود خاطر مدارت کی، کسی زمانے میں سگار کے بے حد شوقین تھے، بعد میں سگرٹ پر گزارہ کرتے رہے۔

سوشل میڈیا اور خاص طور پر فیس بک پر وقتا فوقتا اپنے دوستوں سے ھم کلام رہتے تھے؛ وہیں سیاستدانوں پر طنز اور ملکی مسائل پر جملے بازی چلتی۔ اس سال کے شروع میں ایک اخبار میں دلچسپ اور عجیب خبر چھی کہ گدھوں کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ عبداللہ حسین نے تبصرہ فرمایا کہ عوام کو یہ بھی بتایا جائے کہ ان کی تعداد کتنی ہے، کتنے ایمانداری سے روزگار کماتے ہیں، کتنے قصائی کے پاس پہنچتے ہیں اور کتنے اسمبلیوں میں۔

اسی طرح سیاسی بیانات پر لکھا۔۔ مستونگ حملہ کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا، کراچی قتل عام کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔۔ اف توبہ! ہمیں بجلی کی کم اور نئے cliches کی زیادہ ضرورت ہے۔ اداس نسلیں تخلیق کرنے والے کو “غیر اداس” قرار دیا گیا، جو ان کے طنزیہ فقرے بازی اور زندہ دلی اور لا ابالی پن سے ظاہر ہے۔

جتنے بے دھڑک اور صاف گو تھےاتنے ہی موت جیسی حقیقت سے آشنا۔ دوران علاج جس تکلیف کا شکار تھے اس کا ذکر کرتے ہوئے فیس بک پر ہی لکھا کہ مجھے تکلیف سے تفرت ہے، اور یہ دور نہیں ہو رہی، لیکن پھر مجھے اس دنیا سے بھی کسی حد تک گھن آتی ہےاور یہ بھی دور نہیں ہو رہی۔۔ لکھاری تو ناخوش لوگ ہیں۔

یہ ناراضی یا نا خوشی بیماری، بڑھاپے، سیاسی، سماجی یا معاشرتی حالات کے ساتھ ساتھ جذباتی پیچید گیوں کی وجہ سے بھی تھی۔ ان کے ناول میں عورت اور خاص طور پر ماں کا کردار کیسا ہے اس کا فیصلہ آپ کریں مگر خود عبداللہ حسین بن ماں کے پلے بڑھے، سو جب وقت آخرت ایا تو ماں کا ہی خیال آن موجود ہوا۔

 بقول ان کے دوست عرفان جاوید کے عبداللہ حسین نے فون پر انہیں بتایا کہ انہوں نے ایک خواب دیکھا ہے جسکا لب لباب یہ تھا کہ ان کی ماں انہیں اپنی آغوش میں سمیٹنا چاہتی ہے۔ یہ ماں کا احساس ہی شاید ان کی زندگی کی سب سے بڑی کمی اور سب سے بڑی محرومی تھی۔ اس کے چند روز بعد عبداللہ حسین علاج مکمل ہونے سے پہلے ہی رخصت ہو گئے۔۔

 لکھاری خلاٗ میں جنم نہیں لیتا، وہ گواہ ہوتا ہے صدی کی ہولناکیوں کا۔ عبداللہ حسین کی گواہی بھی اختتام کو پہنچی، انہوں نے بھی خلاٗ میں جنم تو نہیں لیا لیکن جانے کے بعد جو خلاٗ چھوڑ گئے، اسے پر کرنا ممکن نہیں۔

(یہ تحریر سوسائٹی آف اردو لٹریچر واشنگٹن کے جولائی 2015 کے اجلاس میں پڑھی گئی۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).