حافظ سعید کے خلاف حالیہ مقدمات: عالمی دباؤ کا نتیجہ یا پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی؟


حافظ سعید (فائل فوٹو)

مقدمات کے اندراج کے باوجود تاحال حافظ سعید کو حراست میں نہیں لیا گیا ہے (فائل فوٹو)

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں حکام نے رواں ہفتے کالعدم تنظیم جماعت الدعوۃ کے بانی حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں سمیت لشکرِ طیبہ اور جماعت الدعوۃ کی ذیلی تنظیم فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن کے کل 13 رہنماؤں کے خلاف 23 مقدمات درج کیے ہیں۔

پنجاب کے انسدادِ دہشت گردی کے محکمے کے حکام کا کہنا ہے کہ ان تنظیموں کے خلاف تحقیقات کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے۔

جماعت الدعوۃ کو رواں برس مارچ میں ہی کالعدم قرار دیا گیا تھا اور ماضی میں اس جماعت اور اس کے سربراہ حافظ سعید کے حوالے سے عالمی سطح پر پاکستان کا مؤقف رہا ہے کہ ’ان کے خلاف پاکستان کی عدالتوں میں کوئی مقدمات نہیں یا ان کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ثبوت موجود نہیں ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

جماعت الدعوۃ اور فلاحِ انسانیت کالعدم، جیش محمد کے اہم ارکان زیرِ حراست

جماعت الدعوۃ کے رہنما عبدالرحمان مکی کون ہیں؟

جماعت الدعوۃ کا سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ

حافظ سعید اور دیگر کے خلاف الزامات کیا ہیں؟

پنجاب کے محکمہ انسدادِ دہشت گردی کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جماعت الدعوۃ، لشکرِ طیبہ اور فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن کے معاملات میں بڑے پیمانے پر تحقیقات کا آغاز کیا گیا ہے۔

سی ٹی ڈی پنجاب کے مطابق ’ان تنظیموں نے دہشت گردی کے لیے اکٹھے کیے جانے والے فنڈز سے اثاثے بنائے اور پھر ان اثاثوں کو استعمال کرتے ہوئے دہشت گردی کے لیے مزید فنڈز جمع کیے۔‘

سی ٹی ڈی کا مؤقف تھا کہ ان تنظیموں نے یہ اثاثہ جات مختلف غیر سرکاری تنظیموں یا فلاحی اداروں کے نام سے بنائے اور چلائے۔ ایسے فلاحی اداروں میں دعوت الارشاد ٹرسٹ، معاذ بن جبل ٹرسٹ، الانفال ٹرسٹ، الحمد ٹرسٹ اور المدینہ فاؤنڈیشن ٹرسٹ شامل ہیں۔

محکمہ انسدادِ دہشتگردی کے مطابق حافظ سعید اور دیگر 12 افراد ’انسدادِ دہشت گردی کے قانون 1997 کے تحت دہشت گردی کے لیے پیسے جمع کرنے اور منی لانڈرنگ کے مرتکب ٹھہرے ہیں اور ان کے خلاف انسدادِ دہشتگردی کی عدالت میں مقدمات چلائے جائیں گے۔‘

حافظ سعید

جن فلاحی اداروں کا نام سی ٹی ڈی نے لیا ہے ان میں دعوت الارشاد ٹرسٹ، معاذ بن جبل ٹرسٹ، الانفال ٹرسٹ، الحمد ٹرسٹ اور المدینہ فاؤنڈیشن ٹرسٹ بھی شامل ہیں

مقدمات اب ہی کیوں؟

جماعت الدعوۃ کے ذیلی ادارے فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن سمیت دیگر تمام وہ ادارے جن کا سی ٹی ڈی کے بیان میں ذکر کیا گیا ایک عرصے سے کام کر رہے ہیں۔ فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن کے تحت ایمبولینس سروس، سکول و مدارس، ہسپتال اور دیگر فلاحی ادارے چلائے جاتے تھے۔

رواں برس ہی حکومتِ پنجاب نے ان اثاثہ جات کو اپنی تحویل میں لیتے ہوئے فلاحی اداروں کا انتظام سنبھال لیا تھا۔ تاہم مبصرین یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ حکومتی اداروں کو یہ جاننے میں اتنی دیر کیوں لگی کہ یہ فلاحی ادارے مبینہ طور پر دہشت گردی کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے میں ملوث ہو سکتے تھے۔

تجزیہ کار عامر رانا کے مطابق اس کا ایک سیاق و سباق بظاہر موجود تھا۔ پاکستان کے ایک دوست اسلامی ملک انڈونیشیا نے پہلی بار ایشیا پیسیفک گروپ میں یہ شکایت کی تھی کہ جماعت الدعوۃ کے چند ذیلی فلاحی ادارے ان کے ملک اور وہاں سے چند ہمسایہ ممالک کے اندر امدادی کاموں میں مصروف تھے۔

ان کے مطابق ’اس شکایت کے بعد فنانشل ایکشن ٹاسک فورس یعنی ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو دوبارہ گرے لسٹ میں شامل کیا تھا۔‘

پاکستان دہشتگردی کے عالمی تصور سے متفق؟

عامر رانا کے مطابق حالیہ مقدمات کے اندراج سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ’دہشت گردی کا وہ تصور جو عالمی سطح پر قابلِ قبول ہے پاکستان نے پہلی مرتبہ اس کو مانا ہے۔‘

اس سے قبل پاکستان دہشت گرد تنظیموں کو مختلف اقسام میں تقسیم کرتا تھا یعنی وہ جو پاکستان میں متحرک ہیں یا نہیں ہیں اور وہ جو پاکستان کے لیے براہِ راست خطرہ ہیں یا نہیں۔

عامر رانا کے مطابق ایف اے ٹی ایف میں بھی پاکستان کے اسی تصور کی مخالفت پائی جاتی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ پیرس میں ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے حالیہ اجلاس کو دیکھا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’پاکستان نے کہا تھا کہ یہ تنظیمیں پاکستان کے اندر (دہشت گرد کارروائیوں میں) ملوث نہیں ہیں، ان سے کم خطرہ ہے اور زیادہ خطرے والے گروپوں جیسا کہ تحریکِ طالبان پاکستان یا داعش کو الگ کیا گیا تھا۔‘

تاہم ’عالمی برادری کی تشویش یہ تھی کہ تمام تنظیموں سے یکساں خطرات ہو سکتے ہیں۔‘

کیا حالیہ مقدمات محض ایف اے ٹی ایف کے دباؤ کا نتیجہ ہو سکتے ہیں؟

محکمہ انسدادِ دہشت گردی پنجاب کے مطابق کالعدم تنظیموں جماعت الدعوۃ اور لشکرِ طیبہ کے مالی معاملات میں بڑے پیمانے پر تحقیقات پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کی سفارشات اور اقوامِ متحدہ کی جانب سے ان تنظیموں پر لگائی جانے والی پابندیوں کی روشنی میں کی گئیں۔

تاہم اس حوالے سے تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔

سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ مقدمات محض ایف اے ٹی ایف یا عالمی برادری کے دباؤ پر قائم کیے گئے یا پھر یہ حکومتِ پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی کی طرف اشارہ ہے؟

تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق پاکستان کے اندرونی اور بیرونی حالات کا تقاضا یہی تھا کہ پالیسی میں تبدیلی لائی جائے۔

’بہتر ہوتا کہ تبدیلی پہلے لائی جاتی تاکہ عالمی دباؤ کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور نہ ہمیں بین الاقوامی فورمز پر ہزیمت اٹھانا پڑتی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ ضروری ہے کہ ایسے اقدامات پر مکمل عملدرآمد کیا جائے۔ ’یہ درست ہے کہ لشکرِ طیبہ وغیرہ نے پاکستان کے اندر کارروائیاں نہیں کیں اور اسی وجہ سے وہ ہمارے دوست بھی رہے ہیں مگر اب مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں ان کی یہ دوستی بھی مہنگی پڑ رہی ہے۔‘

ان کے خیال میں پاکستان اب اسے مرحلے پر آ چکا ہے جہاں آخرکار اسے ان تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنا پڑے گی۔

حافظ سعید

جماعت الدعوۃ کو رواں برس مارچ میں ہی کالعدم قرار دیا گیا تھا

’جب تک نہیں کریں گے، عالمی دباؤ قائم رہے گا اور بڑھتا رہے گا۔ ایک زمانے میں ہم طالبان کا بھی دفاع کیا کرتے تھے۔ پھر انھی کے خلاف کارروائی کرنا پڑی۔‘

فلاحی اداروں کے چندے سے دہشت گردی کیسے؟

محکمہ انسدادِ دہشت گردی پنجاب نے اس حوالے سے کوئی تفصیلات تاحال جاری نہیں کیں کہ فلاحی اداروں کا جمع کردہ چندہ کس طرح دہشت گردی میں استعمال ہوا۔

تاہم عامر رانا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ان تنظیموں پر عائد کیے جانے والے الزامات انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں۔ اس سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ سی ٹی ڈی پنجاب کے پاس ان کے خلاف ثبوت موجود ہوں گے۔‘

یہ جاننا زیادہ مشکل نہیں کہ ان تنظیموں کے پاس پیسہ کہاں سے آتا تھا۔ عامر رانا کے مطابق ان کے مختلف ذرائع تھے۔ ان میں ایک ان کو موصول ہونے والے عطیات اور دوسرا ان کے قائم کردہ ادارے ہیں۔

انھوں نے بتایا ’جماعت الدعوۃ یا فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن کے تحت قائم کردہ 700 کے قریب دعوٰی ماڈل سکول یا ہسپتال بھی مکمل طور پر فری نہیں تھے۔ ان سے بھی ان کو آمدن ہوتی تھی۔‘

تاہم یہ ثابت کرنے کے لیے کہ یہاں سے آنے والا پیسہ کیسے اور کہاں دہشت گردی کے لیے استعمال ہوتا تھا، سی ٹی ڈی پنجاب کو عدالت میں ٹھوس شواہد دینا ہوں گے۔

’اگر سی ٹی ڈی پنجاب کے پاس ٹھوس شواہد موجود نہ ہوئے تو ان الزامات کو عدالتوں میں ثابت کرنا بہت مشکل ہو گا۔‘

عامر رانا کا کہنا تھا کہ یہ اس لیے بھی اہم ہو گا کہ ’جماعت الدعوۃ اور اس کے ذیلی ادارے یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ انھوں نے پیسے دہشت گردی کے لیے نہیں بلکہ فلاحی مقاصد کے لیے جمع کیے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32470 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp