مسقبل پہ میری نگاہ


2014 سے میں نے ایک خاص موضوع پر بہت لکھا۔ موضوع تھا پاکستان کا مسقبل کیا ہے؟ اور یہ کہ میں مسقبل کیسے دیکھتی ہوں۔ میری جمع تفریق ماضی اور حال کے پیٹرن کو دیکھ کر ہوتی یے۔ اللہ کا فضل ہے کہ اس نے وہ شعور عطا کیا ہے کہ پرانی روش دیکھ کر آنے والے فیصلے کا اندازہ ہو جایا کرتا ہے۔

2017 میں جب نواز شریف کو نا اہل قرار دیا گیا تو میں 25 اور 26 جولائی کو متوقع فیصلہ لکھ کر سوشل میڈیا پر شئیر کرچکی تھی وہ دونوں نوٹ اب بھی سوشل میڈیا کی ہسٹری میں موجود ہیں۔ بعد میں جو کچھ ہوا وہ بالکل ویسا ہی تھا جیسا تحریر کیا بلکہ برطانیہ میں اسوقت منی لنڈرنگ کی تحقیق کا قانون ہی نہ تھا۔ وہ بھی بعد میں منظور ہوا جبکہ میں پہلے لکھ چکی تھی کہ ایسا ممکن ہے۔

دسمبر 2018 میں ایک تحریر لکھی۔ ان سوالات کے جواب میں جو سوشل میڈیا پر نوجوانوں کی طرف سے کیے گئے۔ گزشتہ چند سالوں سے میرے ساتھ منسلک لوگوں کو میرا تجزیہ پسند ہے۔ میری محنت ٹھکانے لگتی ہے تو خوشی ہوتی ہے کہ کہیں تو کوئی امید کی شمع جلتی ہے جب ہر طرف مایوسی کا راج ہو۔

اس کا عنوان ہے ’داستان وطن فروشاں‘

”وزیر اعظم عمران خان نے بیان دیا ڈاکوؤں سے پیسہ نکلوا کر تعلیم پہ خرچ کریں گے۔
ہمارے یہاں گزشتہ 70 سال سے سمجھوتے اور مصلحت کی سیاست نے پاکستانیوں کے اعتماد کو اس قابل نہیں چھوڑا کہ وہ کسی کی بھی بات کا مکمل یقین کرلیں چاہے ملک کا سربراہ ہی کیوں نہ ہو۔

عمران خان کا کمال یہ ہے کہ وہ سیدھے سادے جملے میں بہت بڑی بات کہہ جاتے ہیں اور اس بار بھی یہ جملہ کہہ دیا جسے لوگ کوئی خاص توجہ دینا نہیں چاہتے لیکن میری رائے عمومی رائے کے برعکس ہے۔

فرض کر لیجیے۔ یہ صرف ایک جملہ نہیں بلکہ آئندہ چند ماہ میں ہونے والی ان کارروائیوں کی طرف اشارہ ہو جن میں اس ملک کے خزانے خالی کرنے والوں کی تجوریاں خالی کرنے کی کوئی حکمت عملی طے پا گئی ہو؟

فرض کیجئے اس ملک میں قانون بالادست ہوجائے اور کوئی معاہدہ کسی کرپٹ کو نہ بچا سکے؟
فرض کیجئے کیا ہو جو ایسا نظام بن جائے کہ کوئی غیر قانونی معاہدہ آئندہ کبھی ہو ہی نہ سکے؟
فرض کر لیں۔ اس ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لاکر ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح پہ خرچ کردی جانے لگے؟

فرض کر لیجیے۔ آپ کے میرے بچے اپنے ملک میں اپنی سرحدوں میں محفوظ اور آسودہ ہوجائیں؟
فرض کر لیجیے۔ ادارے کام کرنے لگیں جس کام کے لئے ان کی تشکیل ہوئی اور محنت کا بول بالا ہونے لگے؟
فرض کر لیجیے کہ اس ملک کے باشندے وہی کمانے لگیں جس کے لئے محنت کی اور وہی کامیاب ہو جو دیانتداری سے کام کرے؟

تو چلیں پھر آج فرض کرلیں۔ ایک بار دل کو تسلی دے ہی ڈالیں کہ بدلاؤ آگیا۔
زیر زمین بہتی تبدیلی کسی آتش فشاں کی طرح پھٹ کر یک دم نظر نہیں آئے گی۔
انقلاب اپنا راستہ دھیرے دھیرے بناتا ہے۔

قوموں کی تقدیر صرف اسوقت بدلتی ہے جب وہ سوچ لیں کہ اب بدلاؤ چاہیے!
آصف علی زرداری کی کرپشن پر جے آئی ٹی کی رپورٹ جمع کروادی گئی۔
جیسے شریف خاندان کی کرپشن پر جے آئی ٹی نے رپورٹ پیش کی تھی یہ بھی ویسی ہی ایک داستان ایمان فروشاں اور داستان وطن فروشاں ہے۔

آئندہ تین سے چار ہفتوں میں ہونے والا کیا ہے؟
نواز شریف کی واپسی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوگی۔ البتہ مریم کو شاید کوئی استثنی مل جائے۔

قوم کے لئے یہاں خوشخبری اگر بنتی ہے تو وہ اس خاندان سے بھاری رقم قومی خزانے میں جمع کروانے کی ایک امید نظر آتی ہے جو آئندہ سال مارچ کے بعد ممکن ہوسکتی ہے۔ کیسے؟

یوں تو میرے پاس کیسے کا جواب عموما نہی ہوتا لیکن۔ مکمل پڑھنے کے لئے اس لنک پر کلک کیجئے۔

بہرحال میری طرف سے آپ محب وطن پاکستانیوں کو بھرپور تسلی ہے کہ امید بہار قائم رکھیں۔

آپ عنقریب روشنیوں کا سفر کرنے والے ہیں۔ دنیا آپ کو حسرت کی نگاہ سے دیکھے گی اور آپ ایک مضبوط قلعہ میں محفوظ و مسرور زندگی گزارتے ہوں گے۔ ان شاء اللہ
سندھ کے باسیوں کو بھی آزادی ملنے والی ہے اور انہیں ماننا پڑے گا کہ بھٹو خاندان اب ختم ہوچکا۔ کم از کم سیاست میں تو اب ان کا وجود نظر نہیں آئے گا۔
ایک دوست نے کہا صنم بھٹو مر جائے گی لیکن اپنے بچوں کو سیاست میں نہ لائے گی۔ تو باکل درست۔ سچ کہا۔

بلاول کو بھٹو بنانے والے بھی سمجھ لیں کہ وہ بھٹو نہیں زرداری نسل ہے اس لیے آئندہ سیاست میں اگر کچھ باقی بچتا ہے تو وہ بلاول ہے۔
البتہ بلاول کی طبیعت میں ابھی مجھے لیڈر والی چھایا دکھتی نہیں۔ شاید وقت ابھی آیا نہیں کہ اس پہ بات ہی کی جاسکے اس لیے فی الحال اس قصے کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔

شہباز شریف کو بھی پتا ہے کہ یہ پبلک اکاونٹس کمیٹی کا سربراہ لگنا بھی کچھ کارگر ثابت نہ ہوگا البتہ چند سرد راتیں گرم بستر میں سو کر گزر جائیں گی اور پھر وہی ہوگا جو منظور خدا ہوگا اور اب کے غریبوں کے خدا نے ان کی ذلت کا سامان کررکھا ہے سو دیکھئے اب کیا ہوتا ہے خادم اعلی کے ساتھ۔

آئندہ آنے والے وقت میں ادارے بھرپور محنت کریں گے اور خالی خزانہ بھی بھریں گے اور ہاں۔ جب بات احتساب کی ہوگی تو حوصلہ رکھیں۔ اب کہ ان کا بھی احتساب ہوگا جو کسی نہ کسی مقدم و مقدس لباس میں محفوظ رہے۔

ابکہ ہر ادارے میں جھاڑو پھرے گا۔ کچرا نکالا جائے گا۔ کوئی ذرا جلدی کرے گا تو کوئی دھیرے دھیرے۔ ۔ لیکن احتساب ہوگا۔ ضرور ہوگا
اب اگلے چند ہفتوں میں شور شرابے کے بعد آصف علی زرداری کی بارات جیل میں داخل ہوجائے گی۔ ”

اس بلاگ کا لنک ہے جو 21 دسمبر 2019 کو پبلش ہوا تھا۔ اس تحریر کو آپ سے شئیر کرنے کا مقصد صرف اتنا سا ہے کہ صحافی کے قلم کو سچ کی روشنائی نہ ملے تو اس کی تحریر بے اثر ہوجاتی ہے۔ حق بات کہنا ہی حق ہے۔

گزشتہ کالموں میں عمران خان پر تنقید کو بہت منفی لیا گیا جبکہ صحافت کا اصول ہے کہ وہ غیر جانبداری سے حق کی بات کرے۔ یہ اور بات ہے کہ ہر کسی نے سچ کی تعریف اپنے حساب سے کررکھی ہے تو اختلاف ہو سکتا ہے۔

اگر تعریف بنتی ہے تو کریں گے لیکن جہاں تنقید کی ضرورت ہے تو یہ بھی ضروری ہے۔

پاکستان سب سے پہلے اور قوم کی فلاح مجھے عزیز۔ تو جب مجھے نقص نظر آئے گا میں ضرور نشاندہی کرونگی جہاں مجھے اچھا لگے گا داد دوں گی۔ میرا ذاتی کوئی ایجنڈا نہیں ماسوائے پاکستان کی سلامتی اور ترقی کے۔
داستان وطن فروشاں کو پڑھ کر جن کی امیدیں روشن ہوئیں وہ آج خوش ضرور ہوں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).