قوم پرست رہنما جی ایم سید کی رہائش گاہ اور سندھ کی سیاست کا مورچہ ’حیدر منزل‘ مسمار


جی ایم سید

کراچی میں بزرگ قوم پرست رہنما جی ایم سید کی رہائش گاہ ‘حیدر منزل’ کو مسمار کیا جا رہا ہے

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بزرگ قوم پرست رہنما جی ایم سید کی رہائش گاہ ’حیدر منزل‘ کو مسمار کیا جا رہا ہے۔

ان کے خاندان نے یہ عمارت ایک بلڈر کو فروخت کر دی تھی۔ حیدر منزل کو مسمار کر کے اب یہاں ایک کثیر المنزلہ عمارت تعمیر ہو گی۔

حیدر منزل کی تاریخ؟

حیدر منزل سولجر بازار میں نشتر پارک کے قریب مسلم ہاؤسنگ سوسائٹی میں واقع ہے۔

یہاں سے نصف کلومیٹر دور پاکستان کے بانی محمد علی جناح کا مقبرہ ہے۔ حیدر منزل کو گرانے کے کام کا آغاز ہو چکا ہے اور اس پلاٹ کے باہر نئے بننے والے ’حیدر منزل اپارٹمنٹس‘ کا بورڈ لگا دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

بھٹو، ضیا اور جی ایم سید

جی ایم سید: پاکستان کے صوفی بھی باغی بھی

’گرونانک محل‘:افواہ نے شیر محمد کو بےگھر کر دیا

کراچی کی تاریخ پر مبنی کتاب ’کراچی سندھ کی ماری‘ کے مصنف گل حسن کلمتی کا کہنا ہے کہ مسلم ہاؤسنگ سوسائٹی سنہ 1932 میں سیٹھ طیب علی نے قائم کی تھی، جس میں سندھ کے سیاست دانوں نے اپنے بنگلے تعمیر کرائے۔

سیٹھ طیب علی نے ان تعمیرات کے لیے بینک سے قرضے کے حصول میں معاونت کی تھی۔

یہاں جی ایم سید کے علاوہ ذوالفقار علی بھٹو کے والد شاہنواز بھٹو اور ایوب کھوڑو کی رہائش گاہیں تھیں جو انھوں نے بعد میں فروخت کر دی تھیں۔

جی ایم سید

اس پلاٹ کے باہر نئے بننے والے ‘حیدر منزل اپارٹمنٹس’ کا بورڈ لگا دیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ جی ایم سید قومی سیاست سے قبل سنہ 1928 میں کراچی ضلعی لوکل بورڈ کے رکن اور بعد میں صدر بھی رہے اور انھوں نے کراچی میں رہائش اختیار کی۔

حیدر منزل سندھ کی خود مختاری کی تحریک کا مورچہ

قیامِ پاکستان سے قبل جی ایم سید مسلم لیگ میں شمولیت سے پہلے خاکسار تحریک کے رہنما اور انڈین نیشنل کانگریس کے اتحادی رہے، انھوں نے سندھ کی سطح پر پارٹی تنظیمیں بنائیں۔

نامور قوم پرست ادیب اور جئے سندھ تحریک کے سابق رہنما تاج جویو کا کہنا ہے کہ حیدر منزل سندھ کی خود مختاری کا مورچہ رہی ہے جب برطانوی دور میں سندھ کو بمبئی کے حوالے کیا گیا تھا اور اس کے خلاف تحریک چلی تو اس کا مرکز حیدر منزل ہی تھی۔

جی ایم سید نے جب سنہ 1943 میں سندھ قانون ساز اسمبلی میں قیامِ پاکستان کے حق میں قرارداد پیش کی تو اس وقت ان کی رہائش حیدر منزل میں ہی تھی، تمام مشاورت اور حکمتِ عملی یہاں ہی طے کی گئی تھی۔

جئے سندھ تحریک کے رہنما تاج جویو کا کہنا ہے کہ محمد علی جناح اور جی ایم سید میں سنہ 1945 میں مسلم لیگ سندھ کے انتخابات کے دوران اختلافات ہوئے تو اس وقت بھی مسلم لیگ کی سیاست کا مرکز حیدر منزل ہی تھی۔

بقول ان کے محمد علی جناح نے تنظیم کے صوبائی انتخابات میں مداخلت کی تھی جس پر جی ایم سید نے انھیں کہا تھا کہ وہ تنظیم کی صوبائی خود مختاری میں مداخلت نہ کریں، اس وقت وہ مسلم لیگ سندھ کے صوبائی صدر تھے۔

حیدر منزل برصغیر کے سیاست دانوں کی میزبان

حیدر منزل محمد علی جناح اور مسلم لیگی رہنماؤں کے علاوہ مولانا ابوالکلام آزاد، شیخ مجیب الرحمان، میر غوث بخش بزنجو، نواب خیر بخش مری، عطااللہ مینگل، خان غفار خان، ولی خان اور عبدالصمد اچکزئی سمیت کئی اہم سیاسی رہنماؤں کی میزبان بنی۔

جئے سندھ محاذ کے سربراہ خالق جونیجو کا کہنا ہے کہ برصغیر میں ایسے تین مقامات ہیں جہاں رہائشی عمارتیں سیاسی تحاریک کا مرکز بنیں۔ ان میں نہرو خاندان کا آنند بھون، بنگلہ دیش کے شیخ مجیب الرحمان کا دھان منڈی کا گھر اور تیسرا پاکستان میں حیدر منزل۔

یہ عمارت تاریخ کی گواہ ہی نہیں بلکہ شریک کار ہے لیکن بدقسمتی سے اس کو صرف سریے اور لوہے کی عمارت سمجھ کر مسمار کر دیا گیا۔

جئے سندھ محاذ کا قیام

محمد علی جناح سے اختلافات کے بعد جی ایم سید مسلم لیگ سے دور ہو گئے اور سنہ 1970 کے انتخابات میں انھوں نے جئے سندھ متحدہ محاذ نامی تنظیم کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا۔ انھیں شکست ہوئی اور کئی ساتھی ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔

جی ایم سید نے 18 جون 1972 کو حیدر منزل پر ’جئے سندھ محاذ‘ کی بنیاد رکھی جس نے ’سندھو دیش ‘ کا نعرہ دیا۔

اس کے بعد یہ عمارت سندھ کی جدید قوم پرست سوچ و فکر کا قبلہ بن گئی۔ جئے سندھ محاذ دھڑوں میں تقسیم ہوتی گئی لیکن تمام جماعتوں کے رہبر جی ایم سید ہی ہوتے تھے۔

رہائش اور کھانا بھی

حیدر منزل میں ایک حصہ رہائشی تھا جہاں جی ایم سید کا خاندان رہائش پذیر تھا اور اس کا دروازہ حیدر منزل کے عقب میں تھا جبکہ دوسرا حصہ سیاسی سرگرمیوں کے لیے مختص تھا۔

عبدالخالق جونیجو کا کہنا ہے کہ عمارت میں کوئی چوکیدار نہیں تھا اور کوئی کسی سے یہ سوال نہیں کرتا تھا کہ آپ یہاں کیوں آئے ہیں، کارکن سیدھے جی ایم سید کے بیڈ روم تک چلے جاتے تھے۔

جی ایم سید

حیدر منزل میں ایک حصہ رہائشی تھا جہاں جی ایم سید کا خاندان رہائش پذیر تھا

دیگر شہروں سے کارکن آتے انھیں نہ صرف رہاش ملتی بلکہ کھانا بھی اور چائے تو سارا دن دستیاب ہوتی تھی۔

’حیدر منزل کارکنوں کے لیے گھر تھا، جہاں سیاسی بحث مباحثے ہوتے تھے، سائیں سے جو شخصیات ملنے آتیں انھیں ان کو سننے کا موقع ملتا اور اس طرح یہ عمارت ایک سیاسی تربیتی مرکز بھی تھا۔

جی ایم سید کے دو بیٹے ہیں، امیر حیدر شاہ اور امداد محمد ۔ حیدر منزل خاندان کی مشترکہ ملکیت ہے۔

تاج جویو کا کہنا ہے کہ حیدر منزل مسمار ہونے سے ہمارے دل زخمی ہوئے ہیں۔ ’جی ایم سی کی وفات کے بعد یہ دوسرا بڑا صدمہ ہے۔‘

’سید خاندان کو حیدر منزل کو قومی ورثہ قرار دے کر اسے سائیں جی ایم سید میوزیم بنانا چاہیے تھا جہاں دستاویزات اور ان کی کتب رکھی جاتیں۔ لیکن بدقسمتی سے سید خاندان کے نوجوان جلال محمود شاہ کو معلوم نہیں کن لوگوں نے مشورہ دیا جو اسے فروخت کر دیا گیا ہے۔‘

ہماری ملکیت ہماری منزل

سندھ یونائٹیڈ پارٹی کے سربراہ اور جی ایم سید کے پوتے جلال محمود شاہ کا کہنا ہے کہ حیدر منزل ہماری ذاتی ملکیت ہے جب تک ضرورت تھی اسے اپنے پاس رکھا اور جب ضرورت پڑی تو فروخت کر دیا۔

’یہاں جو اپارٹمنٹ بنیں گے ان میں سے ایک میں اپنا دفتر قائم کریں گے، جہاں جی ایم سید سے وابستہ اشیاء بھی موجود ہوں گی۔‘

جلال محمود شاہ کا کہنا ہے کہ سنہ 1995 میں جی ایم سید کی وفات کے بعد سے حیدر منزل پر کوئی سیاسی سرگرمی نہیں ہوتی تھی۔ انھوں نے جب 2006 میں سندھ یونائیٹڈ پارٹی بنائی تو اس کے بعد سنہ 2007 میں یہاں اس کا دفتر قائم کیا اس کے بعد یہاں سیاسی رونق واپس آئی۔

جی ایم سید

’حیدر منزل ہماری ذاتی ملکیت ہے جب تک ضرورت تھی اسے اپنے پاس رکھا اور جب ضرورت پڑی تو فروخت کر دیا‘

’یہاں بجلی، پانی کا مسئلہ تھا آس پاس میں بڑی عمارتیں بن چکی ہیں ہمارے لیے یہاں رہنا دشوار ہو چکا تھا۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ کرائے کے گھر میں رہیں۔ ہم نہ پیپلز پارٹی سے ہیں اور نہ لیگ سے اور نہ ہی چوری چکاری کرنا جانتے ہیں، اس عمارت کو فروخت کرکے اپنی رہائش کا انتظام کیا ہے۔‘

یہ پہلا موقعہ نہیں ہے کہ سندھ میں سیاسی تحریک کی اہم شخصیت سے وابستہ عمارت کو فروخت کیا گیا۔

اس سے قبل حیدرآباد میں ہاری حقدار تحریک کے بانی اور ہاری کمیٹی کے سربراہ حیدر بخش جتوئی کی یادوں سے وابستہ عمارت کو ان کے خاندان نے فروخت کر دیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp