”تاریخ عالم کی سب سے بڑی نا انصافیاں جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں میں ہوئی ہیں“


مصر میں منتخب صدر، ڈاکٹرمحمد مرسی کی افسوسناک موت ایک بار پھر کئی سوالات اٹھا گئی۔ سب سے بڑا سوال تو یہی ہے کہ امریکہ اور یورپ، جو خود کو انسانی حقوق اور جمہوریت کا چمپیئن قرار دیتے ہیں، وہ اس طرح کی درندگی پر چپ کیوں سادھ لیتے ہیں؟ مرسی کا تختہ کس طرح الٹا گیا، کیونکر منتخب صدر کو زنداں میں ڈالا گیا، کس طرح اسے اذیتیں دی گئیں، کیسے مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ایک بزرگ شخص کو علاج و معالجے سے محروم رکھا گیا، کمرہ عدالت کے اندر کن المناک حالات میں اس کی موت واقع ہوئی، کس طرح اس کے قریب تریں عزیزوں کو بھی چہرہ دیکھنے اور نماز جنازہ میں شریک ہونے کی اجازت نہ دی گئی۔

یہ سب کچھ کسی ایک فرد کا نہیں، انسانیت کا المیہ ہے۔ یہ اکیسویں صدی کی اس دنیا کا بھی المیہ ہے جو انسانی حقوق کے بڑے بڑے چارٹر بناتی، بڑے بڑے ادارے تشکیل دیتی اور بڑے بڑے دعوے کرتی ہے۔ لیکن اس طرح کی سفاکی پر آنکھیں موند لیتی ہے۔ اس لئے کہ انسانیت کا ساتھ دینا اس کے اپنے مفاد کے خلاف ہوتا ہے۔ حال ہی میں یہی رویہ سعودی صحافی جمال خشوگی کے بارے میں اختیار کیا گیا۔ دنیا کی سب سے بڑی طاقت نے خشوگی کے بہیمانہ قتل سے اس لئے نظریں چرا لیں کہ اسے اربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنا تھا۔

امریکہ اور یورپ کا یہ ”معیار انسانیت“ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ایسی کوئی واردات مغرب کے کسی نا پسندیدہ ملک میں ہو جائے تو قیامت کھڑی کر دی جاتی ہے۔ احتجاجی قراردادیں منظور ہوتی ہیں۔ اقوام متحدہ کا کمیشن برائے انسانی حقوق حرکت میں آ جاتا ہے۔ نوبت بعض اوقات اقتصادی پابندیوں تک پہنچ جاتی ہے۔ لیکن اگر کسی ملک کے حکمران امریکی اشاروں پر ناچنے کے لئے تیار ہیں اور اس کے عالمی ایجنڈے کو تقویت پہنچا رہے ہیں تو مغرب کو خبر ہی نہیں ہوتی کہ کوئی واردات ہوئی بھی ہے۔

خشوگی اور مرسی تو دو افراد تھے، ایک مدت سے فلسطین اور کشمیر، اسرائیلی اور بھارتی ظلم وستم کی چکی میں پس رہے ہیں لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ صرف اس لئے کہ اسرائیل سب کا چہیتا ہے اور بھارت بہت بڑی عالمی منڈی ہے جسے خفا نہیں کیا جا سکتا۔ فلسطین اور کشمیر میں انسانی حقوق کی بد ترین پامالی، روزمرہ کا معمول بن چکی ہے۔ ایسی ایسی المناک کہانیاں سننے میں آتی ہیں کہ انسان کا کلیجہ پھٹ جاتا ہے لیکن انسانیت، جمہوریت اور بنیادی حقوق کے نعرے لگانے والوں کے دل میں ذرا سا درد پیدا نہیں ہوتا۔

یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ خود اپنے گریبان میں جھانکا جائے تو اور بھی زیادہ افسوس ہوتا ہے۔ ستاون کے لگ بھگ اسلامی ممالک زیادہ تر ملوکیت، آمریت، شخصی حکمرانی یا محدود جمہوریت کے حامل ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ان ممالک میں باہمی اتحاد کا فقدان ہے بلکہ وقتا فوقتا وہ ایک دوسرے کے خلاف جنگیں لڑتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ذرا سا اسرائیل، جو چاروں طرف سے اسلامی ممالک میں گھرا ہے، دیدہ دلیری سے فلسطینیوں کے حقوق پامال کر رہا ہے بلکہ ان کی نسل کشی میں مصروف ہے۔

لیکن کوئی اس کا ہاتھ روکنے والا نہیں۔ ہاتھ روکنا تو دور کی بات ہے کوئی پوری طاقت سے ان مظلوموں کے لئے آواز اٹھانے والا بھی نہیں۔ اب تو نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ بڑے بڑے مسلم ممالک اسرائیل کے قریب ہو رہے ہیں۔ اسلامی کانفرنس ہو یا عرب لیگ یا کوئی اور ادارہ، سب نام نہاد ثابت ہوئے۔ اب تو ان اداروں کو بھی زنگ لگ چکا ہے۔

نصف درجن کے لگ بھگ جن مسلم ممالک کو مغربی طرز کی جمہوریت کا دعویٰ ہے وہاں بھی حقیقی روح کے مطابق جمہوریت کم کم ہی نظر آتی ہے۔ خود پاکستان کی بہترسالہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو ”اسلامی جمہوریہ“ ہونے کے باوجود نہ ہمارے ہاں اسلامی قدروں کا راج ہے نہ ہی جمہوری روایات کا۔ تقریبا چونتیس سال تو براہ راست فوجی آمریتوں کی نذر ہو گئے۔ آمروں نے یاتو خود نئے آئین بنا لئے یا پہلے سے موجود آئین میں مرضی کی ترامیم کر لیں۔

قائد اعظم اور پاکستان بنانے والے دیگرراہنماؤں نے وفاقی پارلیمانی نظام کی بنیاد ڈالی لیکن چاروں ڈکٹیٹروں نے صدارتی نظام نافذکیے رکھا۔ اسی دوران ہماری تاریخ کا سب سے بڑا المیہ پیش آیا اور پاکستان دوٹکڑے ہو گیا۔ کوئی اور قوم ہوتی تو اتنے بڑے سانحے سے سبق سیکھتی۔ سقوط ڈھاکہ کے بارے میں حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کو تعلیمی نصاب کا حصہ بناتی۔ ان غلطیوں سے بچتی جن کی نشاندہی کی گئی تھی اور ان باتوں پر عمل کرتی جن کی سفارش کی گئی تھی۔

لیکن ہوا یہ کہ اس سانحے کے بعد 1973 میں پاکستان کا آئین نافذہوا۔ آج اس آئین کے نفاذ کو چھیالیس برس ہو گئے ہیں۔ ان چھیالیس ( 46 ) سالوں میں بھی بیس برس سے زیادہ فوجی حکمرانی کی نذر ہو گئے۔ آئین کا آرٹیکل چھ (جو سنگین غداری سے متعلق ہے ) آج تک بروئے کار نہیں آسکا۔ پوری قومی تاریخ میں کوئی ایک بھی وزیر اعظم اپنی معیاد پوری نہ کر سکا۔ کوئی پھانسی چڑھ گیا۔ کسی کو قتل کر دیا گیا۔ کوئی ملک بدر ہو گیا۔ کوئی جیل میں ڈال دیا گیا۔

جمہوری مسلم ممالک میں انتخابات کی تاریخ بھی انتہائی افسوس ناک ہے۔ مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بن جائے والے ملک میں حسینہ واجد نے اپوزیشن کو مکمل طور کچل کر اپنی سب سے بڑی مخالف خالدہ ضیا کو منظر سے ہٹا دیا۔ 2018 کے انتخابات سے قبل خالدہ ضیا پر کرپشن کا مقدمہ چلا کر پانچ سال کے لئے جیل ڈال دیا گیا۔ اس سزا کے باعث وہ نا اہل قرار پائیں اور انتخابات سے باہر ہوگئیں۔ حسینہ واجد نے خالدہ ضیا کے بیٹے طارق رحمان کو بھی انتقام کا نشانہ بنایا اور ایک مقدمے میں عمر قید کی سزا سنا دی۔ مجیب الرحمن کی بیٹی نے جماعت اسلامی کے بعض سرکردہ راہنماؤں کو بھی پھانسی چڑھا دیا۔ کم ہی لوگ ہوں گے جو بنگلہ دیش کوایک حقیقی جمہوری ملک خیال کرتے ہوں۔

پاکستان کی صورتحال بھی کوئی زیادہ اچھی نہیں۔ اگر ماضی سے آنکھیں بند کر کے صرف حال پر نظر ڈالی جائے تو بھی افسوس ناک منظر دکھائی دیتا ہے۔ برس ہا برس تک اپنی مقبولیت کی بنا پر ووٹ لینے اور حکومت کرنے والی دونوں جماعتیں (پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز) زیر عتاب ہیں۔ ان کے لیڈر جیلوں میں ہیں۔ شریف خاندان کا شاید ہی کوئی فرد ایسا ہو جس پر کسی نہ کسی طرح کا مقدمہ نہیں۔ یہی حال بھٹو اور زرداری قبیلے کا ہے۔

دونوں جماعتوں کے کئی لیڈر بھی اسی صورت حال سے دوچار ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ احتساب ہے۔ نیب آزاد اور غیر جانبد ار، ادارہ ہے۔ حکومت کا ان سزاوں یا گرفتاریوں سے کوئی تعلق نہیں۔ پاکستان کے اندر شاید ہی کوئی با خبر شخص ان حکومتی دعووں پر یقین رکھتا ہو۔ میڈیا کی صورت حال بھی کم از کم ”جمہوری“ نہیں۔ آزادی اظہار رائے، آزادی نقل و حرکت، آزادی تحریر و تقریر سب پر بڑے بڑے سوالیہ نشان ہیں۔

چند روز قبل مریم نواز نے اپنی پریس کانفرنس میں ایک جملہ کہا تھا۔ ”نہ یہ مصر ہے، اور نہ ہم نواز شریف کو مرسی بننے دیں گے“۔ ۔ اللہ کرئے ایسا ہی ہو۔ اللہ کرئے ہم مصر جیسے حالات کا شکارہو کر ڈکٹیٹر شپ کے شکنجے میں نہ آئیں۔ اللہ کرئے ہمارے ہاں کسی سے وہ سلوک رو ا نہ رکھا جائے، جو محمد مرسی سے روا رکھا گیا۔ اس کی واحد صورت یہ ہے کہ ہماری عدلیہ پوری آزادی اور طاقت کے ساتھ جمہوری قدروں، بنیادی انسانی حقوق اور آئین و قانون کے تحفظ کے لئے فولاد کی دیوار بن جائے۔

اور کسی کو بھی اندھے انتقام کی کھلی چھٹی نہ دے۔ ایک معروف پاکستانی اینکر نے اپنے شو میں مولانا ابو الکلام آزاد کے قول کا حوالہ دیا ہے۔ یہ قول مولانا کے ایک طویل بیان کا حصہ ہے جو انہوں نے غداری کے مقدمے میں ایک انگریز جج کے سامنے دیا تھا۔ ابو الکلام آزاد نے کہا تھا ”تاریخ عالم کی سب سے بڑی نا انصافیاں جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں میں ہوئی ہیں“۔ محمد مرسی ایک عدالت کے ایوان میں ہی جان کی بازی ہار گیا۔ کاش ہمارے ہاں کبھی ایسا نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).