رانا صاحب کی گرفتاری اور دلیر وزیروں کی نوکریاں


ہم نے مخبروں کا جال بچھا دیا رانا صاحب کے محلے میں۔ اوہ میں معذرت خواہ ہوں آف کورس میرا مطلب ہے کہ جنرل صاحب نے انٹیلیجنس ایجنسیوں کے لوگوں کا جال بچھا دیا۔ ہر طرف سے یہی خبریں آنے لگیں کہ رانا صاحب کی گاڑی میں ہیروئن ہے۔ سن کر ایسے نشہ سا ہونے لگتا۔ میرا مطلب ہے کہ مجھے نشہ سا ہونے لگتا، میں جنرل صاحب کی بات نہیں کر رہا، میرے منہ میں پاکستانی حدود سے کہیں باہر کی نشہ ملی گندی خاک، نوکری سے عزیز تو کوئی چیز نہیں ہونی چاہیے۔

اور پھر وزیر کی نوکری کے دو مسئلے ہیں۔ ایک تو کچی بہت ہوتی ہے اور دوسرا یہ کہ ایسا حادثہ بھی ہو سکتا ہے کہ سارے وزیروں کی نوکریاں اپنے بڑوں سے سمیت اکٹھی ہی لپیٹ دی جاتی ہیں۔ خیر ہم جتنے بھی نشے میں ہم ہوں، سارے مل کر اس بات خیال بہت رکھتے ہیں کہ نوکری کا نقصان نہ ہو۔ اور ہاں ہماری روایات میں احسان فراموشی بھی نہیں ہے۔ اس لیے ہم ہر معرکے میں انہیں یاد رکھتے ہیں اور یہ بتانا کبھی نہیں بھولتے۔ عوام دوست بجٹ کا پاس کروانا ہو یا کسی عوام دشمن سیاستدان کو مزا چکھانا ہو، ہر تقریر اور ہر بیان کے لیے، ہم اپنی نوکری کی امان پا کر ہی منہ کھولتے ہیں۔ ہم بہت محتاط ہیں اور اگر ہم محتاط نہ رہے تو ہمارے ساتھ بھی وہی ہو گا جو ہم سے پہلے لائے جانے والوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔ اور یہ جو سارے صحافی میرے سامنے بیٹھے یہ سوچ رہے ہو کہ ہونا تو پھر بھی وہی ہے تو میں آپ کی بات سے اتفاق نہیں کرتا۔ ایسا ہی ہے نا سر۔

ہاں تو جب مخبروں کا جال بچھ گیا تو میں بھی رانا صاحب کی گلی میں گھات لگا کر بیٹھ گیا۔ اب وہ وقت دور نہیں تھا کہ جب ہم عوام کے ساتھ کیا ہوا وعدہ پورا کرتے اور رانا صاحب کی مونچھوں کے ساتھ جھولا ڈالتے۔ اور میرا تو رانا صاحب سے ایک اور بھی رشتہ ہے۔ جب ان کا دور تھا تو اس ملک میں بوقت ضرورت اسلام نافذ کرنے کا نعرہ بلند کرنے والوں کے ساتھ ان کے بھی ویسے ہی تعلقات تھے جیسے اب میرے ہیں۔ میری تو اس سلسلے میں ویڈیو بھی وائرل ہو چکی ہے۔ تو مجھ سے زیادہ کون جانتا ہے کہ رانا صاحب کو جیل ہی میں ہونا چاہیے۔

خبر آئی کہ رانا صاحب گھر سے نکلے ہیں اور 30 کلو کا ہیروئن کا تھیلا ان کی گاڑی میں جھوم رہا ہے۔ اب اندازہ کرو ان کی امارت کا۔ ہم نے تو اس ملک میں کسی کو تیس کلو آٹے کا تھیلا خریدنے کے قابل نہیں چھوڑا کجا اتنی مہنگی چیز کا تھیلا۔ خیر ہم نے گھات لگا لی اور ہشیار باش ہو کر بیٹھ گئے۔ گاڑی جب ہمارے قریب سے گزری تو ہماری آنکھیں لال ہو چکی تھیں اور ہم جھپٹنے کو تھے کہ ہماری نظر گاڑی میں بیٹھی باقی سواریوں پر پڑی۔ خواتین۔ میں داد دیتا ہوں جنرل صاحب اور ان کے عملے کو کہ انہوں نے فورا آپریشن روک کر ہماری روایات کی لاج رکھ لی۔

دراصل یہ سب پٹرول کی قیمت کی وجہ سے ہوا۔ رانا صاحب اپنے گھر سے نکلے تو اس تھیلے کو بیچنے کے لیے تھے لیکن عین وقت پر خواتین نے بازار جانے کی تیاری کر لی۔ تو رانا صاحب نے سوچا الگ گاڑی کیوں نکالنی ہے۔ خرچہ بچانے کے لیے انہوں نے سوچا اسی گاڑی میں گھر کی خواتین کو بھی ڈراپ کر دیتے ہیں۔ اس 30 کلو ہیروئن کا تھیلا بیچنے کے بعد واپسی پر پھر انہیں پک بھی کر لیں گے۔ لیکن سلام ہے ان پر کہ جن کے کندھوں پر ہمیں نشہ آور ادویات سے بچانے کی ذمہ داری ہے، انہوں نے خواتین ساتھ ہونے کی وجہ سے تیس کلو ہیروئن کا تھیلا اور اس کا کاروبار کرنے والا مجرم گرفتار نہیں کیا۔

اور ہاں اس سے پہلے کہ آپ کے ذہنوں میں کوئی سوال ابھرے میں بتاتا چلوں کہ خواتین کے سامنے مجرموں کو گرفتار نہ کرنے کی یہ روایت ہم نے ابھی ابھی شروع کی ہے اور یہ سہولت ہیروئن کے صرف ان کاروباریوں تک محدود ہے جن کے تھیلے کا وزن پندرہ کلو یا اس سے زیادہ ہو۔ یاد رہے کہ فیس بک پر مزاحیہ سٹیٹس یا ٹوئٹر پر فنی ٹویٹس لکھنے والوں اور چھوٹے موٹے نشے کرنے والوں کو یہ سہولت میسر نہیں ہے۔

خیر تو رانا صاحب کو یہ سہولت اس لیے میسر تھی کہ ان کے پاس ہیروئن کا تھیلا تیس کلو کا تھا۔ بہرحال جنرل صاحب کا بڑا پن ہے کہ انہوں نے ہماری تازہ ترین روایات کا خیال رکھا۔ اس دن کامیابی نہیں ہوئی۔ ہم ان کی مونچھوں کا جھولا نہیں ڈال سکے۔ میرے لیڈر کا عوام کے ساتھ کیا ہو ایک وعدہ تھوڑا لیٹ ہو گیا۔ رانا صاحب جب واپس گھر پہنچے تو ان کے تھیلے میں ہیروئن پچیس کلو تھی۔ کچھ انہوں نے راستے میں پی لی تھی اور تھوڑی سی او ایل ایکس کر دی۔

دوسری مرتبہ پھر ایسا ہی ہوا۔ جنرل صاحب نے عین موقع پر آپریشن روک دیا گاڑی میں خواتین تھیں۔ ہم نے روایات کا پاس رکھا اور چند کلو ہیروئن اور اس کے بیچنے والے کو نہیں پکڑا۔ ہاں البتہ نقصاں یہ ہوا کہ ہیروئن کا تھیلا صرف بیس کلو کا رہ گیا۔ رانا صاحب نے تھوڑی بیچ دی اور کچھ استعمال کر لی۔ آج رانا صاحب گھر سے نکلے تو شکر ہے کہ ان کے ساتھ خواتین نہیں تھیں۔ جب گھر سے نکلے تو ان کے پاس بیس کلو کا ہیروئن کا تھیلا تھا۔

تھیلے کا رنگ گلابی تھا۔ ہم گھات لگا کر بیٹھے تھے۔ جب تک ہم نے ایکشن کر کے رانا صاحب کو پکڑا تو ہیروئن کا تھیلا پندرہ کلو کا رہ گیا تھا اور اس کا رنگ بھی نیلا ہو چکا تھا۔ یہ تھی پوری داستان جو ہم آپ کو بتا رہے تھے۔ میں اس سلسے میں جنرل صاحب ایک بار پھر شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے اس پریس کانفرنس میں مجھے اپنے برابر بٹھایا اور میرے بیانات میں غلطیوں کی تصحیح موقع پر ہی فرما دی۔ آپ لوگوں کو بھی جنرل صاحب کا مشکور ہونا چاہیے۔ لگے ہاتھوں آپ کی جانب سے بھی میں ہی شکریہ ادا کر دیتا ہوں۔ امید ہے کہ آپ جنرل صاحب کے احسانات کبھی نہیں بھلائیں گے۔

آپ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ میں جنرل صاحب کی تعریف کرنے کے بہانے ڈھونڈ رہا ہوں تو آپ غلطی پر ہیں۔ میں ایک خان بہادر کا بیٹا ہوں، دلیر ہوں اور بہت ہی نیک ہوں اور یہ کام بغیر کسی بہانے کے بھی سر انجام دیتا رہتا ہوں۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik