پاکستان می ہسپتالوں کی حالت زار اور غریب عوام


پورا گھر ایڈز سے مرنے کے لئے تیار بیٹھا ہے۔ دو بچے پہلے سے مر چکے ہیں اور باقی بچے اور والدین سب ایچ آئی وی ایڈز کا شکار ہوچکے ہیں۔ غربت سانس نہیں لینے دیتی اوپر سے یہ لاعلاج مرض جو کہ غریب کے لئے سچ میں لاعلاج ہوجاتا ہے۔ پیسے والے مریض تو پھر اچھی خوراک کھاکے بہتر لائف سٹائل کی وجہ سے اکثر اس مرض سے زیادہ دیر لڑ پاتے ہیں مگر ان غریب بچوں کی بیچارگی اور پژمردہ صورتیں اور یہ جان لیوا مرض۔ میری آنکھوں سے الجزیرہ چینل کی یہ خبر ہٹ ہی نہیں پارہی۔

کافی ٹائم سے یہ سندھ کے کسی پسماندہ علاقے میں پھیلنے والی ایچ آئی وی سے متاثرہ بچوں اور خاندانوں کی خبر ٹی وی پر آرہی تھی۔ سوچ کے ہی دل دہل جاتا ہے کہ ایک جاہل ڈاکٹر کی لاپرواہی کی وجہ سے کتنے خاندان متاثر ہورہے ہیں۔ یہ جب لاشیں اٹھتی ہیں تو باقی سب کے لئے محض ایک روزمرہ کی خبر ہوتی ہے لیکن جن کا پیارا دنیا سے اس کسمپرسی، زیادتی اور ظلم کی وجہ سے چلاجاتاہے کبھی کسی نے خود کو اس کی جگہ رکھ کے سوچا کہ یہ ظلم یہ زیادتی، یہ بے موت کی موت ان کو یا ان کے پیاروں کو بھی آسکتی ہے۔ یہ ظلم ان پر، ان کے اپنوں پر بھی ٹوٹ سکتا ہے۔ مگر ہم محض ایک خبر سے صرف وقتی افسوس اور دکھ کشید کرکے سب بھول بھال جاتے ہیں۔

ہمارا میڈیا، سوشل میڈیا اور پرنٹ سمیٹ ہمارے دانشور 24 گھنٹے ملک کی سیاست پر تبصروں اور جگتوں مصروف رہتے ہیں۔ انسانی بنیادی ضروریات کے فقدان اور عدم فراہمی پر کسی کی توجہ کیوں نہیں جاتی؟ یہ ہم انسانوں کا سب سے شدید المیہ ہے کہ ہم نے صرف جھکاؤ کی طرف بہنا سیکھا ہے ہماری سوچ کی کم وسعتی ہمیں رائج چیزوں کی طرف کھینچتی ہے۔ اس سے ہٹ کر سوچنے کا خیال بہت کم لوگوں کو آتا ہے۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ آخر انسانی بنیادی ضروریات جو اس وقت پاکستان کا سب سے سنگین مسئلہ ہیں ان کی فراہمی کو ممکن بنانے میں ہم میں سے ہر کوئی اپنا کیا کیا حصہ ڈال سکتا ہے ناکہ فرحت ہاشمی کے میاں بیوی کے لیکچر کو لے کر کے رائٹ ونگ اور لیفٹ ونگ کے طوفان بدتمیزی میں اپنا حصہ ڈالنا ضروری سمجھا جائے۔

پاکستان کے عوام کا بیشتر حصہ غربت، بنیادی ضروریات، تعلیم اور علاج کی عدم فراہمی اور بجلی، پانی کے انتہائی بنیادی ترین مسائل سے دوچار ہے اور کوئی بھی حکومت آکر اس کا سدباب نہیں کر پارہی۔ وجہ یا عوامل کچھ بھی ہوں مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے لوگ اپنی زندگیاں گھسیٹ رہے ہیں۔

کل آباد ی میں سے 6 کروڑ سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزاررہے ہیں، 2 کروڑ 26 لاکھ بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں۔ ہر 11 واں بچہ پانچ سال کی عمر سے پہلے زندگی کی بازی ہارجاتا ہے، ہر سال 9700 خواتین زچگی کے دوران موت کا شکار ہوجاتی ہیں، پانچ سال سے کم عمر بچوں میں سے 44 فی صد کی مناسب ذہنی نشوونما نہیں ہوپاتی۔

برطانوی ادارے کی رپورٹ کے مطابق کل آباد ی کا تیسرا حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

دیہات کی اسی فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لائن سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ تعلیم نہیں علاج نہیں۔ ابھی حالیہ ایک دوست کے توسط سے ایک غریب بندے کے علاج کے لئے مدد کی کوشش کی۔ کچھ پیسے اکٹھے بھی ہوگئے جب بھیجنے کا وقت آیا تو عید اور عید کی چھٹیاں آگئیں۔ جس دن چھٹیاں ختم ہوئیں تو فجر کے وقت ہی دوست نے بتایا کہ علاج کی عدم فراہمی سے اس بندے کی موت واقع ہوگئی۔ ایسا پہلے بھی ایک دوبار ہوا کہ میں نے دوستوں کی مدد سے کوشش کرنی چاہی اور کچھ جگہ کوشش کامیاب ہوبھی گئی مگر دیر زیادہ ہوگئی۔ علاج کا وقت گزر گیا تو کبھی غریب کی غربت آڑے آگئی۔ کیا ریاست اپنی عوام کے علاج کی ذمہ دار نہیں؟

سرکاری ہسپتالوں میں بھی علاج پیسے لے کر کیا جاتا ہے۔ پیسے والے مریض کی سہولیات مختلف ہوتی ہیں جبکہ غریب کی صرف مٹی پلید ہوتی ہے۔ یہ سرکاری ہسپتال موت کے جلدی اور انتہائی تکلیف دہ واقع ہونے کے لئے معاون ثابت ہوتے ہیں۔ کیا ان غریبوں کو دوسرے دیسوں میں بیٹھے ہوئے انجان لوگوں کی امداد آنے تک سسک سسک کے مرنے دینا چاہیے۔ ؟ آخر یہ ہسپتالوں کی بڑی بڑی عمارات کا مقصد کیا ہے؟ پرائیویٹ سیکٹر الگ سے لوگوں کو لوٹ رہا ہے اور گورنمنٹ ہسپتال الگ سے۔ بہترین حل تو یہی ہے کہ غریب کو مر ہی جاناچاہیے اسی طرح ہی شاید غربت ختم اور غریب کم ہوں۔

2016 میں ہسپتالوں کی رینکنگ کے عالمی ادارے ”رینکنگ ویب آف ہاسپیٹلز“ نے ہسپتالوں کی رینکنگ جاری کی، جس کے مطابق پاکستان کا کوئی سرکاری ہسپتال دنیا کے ساڑھے 5 ہزار بہترین ہسپتالوں میں شامل نہیں۔ تاہم جنوبی ایشیا کے 20 بہترین ہسپتالوں میں بھارت کے 19 اور بنگلا دیش کا ایک ہسپتال شامل ہے جبکہ پاکستان کا سی آئی ڈی پی انٹر نیشنل فاونڈیشن جسے پاکستان کا درجہ اول کا ہسپتال مانا گیا ہے، جنوبی ایشیا کے بہترین ہسپتالوں میں 22 ویں نمبر پر ہے، جناح میموریل ہسپتال 28 ویں نمبر پر جبکہ سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورالوجی 29 ویں نمبر پر ہے۔ ”رینکنگ ویب آف ہاسپیٹلز“ کے مطابق جنوبی ایشیا کے بہترین ہسپتالوں کی فہرست میں اسلام آباد کا شفا انٹر نیشنل 45 ویں نمبر پر جبکہ شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال 48 ویں نمبر پر ہے۔

صحت کے انفرا سٹرکچر کی مایوس کن صورتحال کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہم ایسے ماہر ڈاکٹروں کو تیار کرنے میں ناکام ہورہے ہیں جو اپنے مقدس پیشہ کا وقار بلند رکھیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے میڈیکل کے پیشہ کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ بد ترین بد عنوانیوں میں ملوث رہیں۔ ملک کے چند بڑے سرکاری ہسپتالوں کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ راولپنڈی، اسلام آباد کے سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کا رش حد سے تجاوز کر چکا ہے۔

لوگ علاج کی امید لئے ہسپتال آتے تو ہیں مگر مراد کسی خوش نصیب کی ہی بھر آتی ہے۔ ہسپتالوں میں دوائیاں نہ ٹیسٹ کی سہولیات لیکن مسیحا اپنا رونا رو رہے ہیں، کہتے ہیں روزانہ سیکڑوں مریض علاج کے لیے آتے ہیں لیکن ڈاکٹرز نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنا علاج نہیں کروا سکتے۔ جڑواں شہروں کے ہسپتالوں کی حالت زار دیکھ کر لگتا ہے کہ ریاست عوام کی صحت کی سہولیات کی فراہمی سے اب مکمل طور پر دستبردار ہو چکی ہے۔ اگر صوبہ سندھ کی بات کی جائے تو صوبے میں سرکاری صحت کے مراکز کی تعداد تقریباً اڑھائی ہزار ہے جن میں سے اکثریت عدم توجہ کے باعث کھنڈرات بن چکے ہیں۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ دستیاب وسائل پر ہی ایمانداری سے توجہ دی جائے تو صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔

پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی رپورٹ کے مطابق ملک کے پبلک سیکٹر میں اس وقت کل 62 مکمل ہسپتال (پنجاب میں 26، سندھ میں 20، خیبر پختونخوا میں 12 اور بلوچستان میں 4 ) ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف نوعیت کے پورے ملک میں 58 ہسپتال ہیں۔ جب کہ نجی شعبے (جن میں ٹرسٹ کے ہسپتال بھی شامل ہیں ) میں قائم ہسپتالوں کی کل تعداد 94 ہے۔ ان 214 ہسپتالوں میں سے ایک تہائی سے بھی کم تعداد میں ایسے ہسپتال ہیں، جن میں جدید طبی سہولیات میسر ہیں۔

وہ ملک جس کی آبادی 20 کروڑ سے تجاوز کر رہی ہے، ہسپتالوں کی یہ تعداد انتہائی ناکافی ہے لہٰذا چھوٹے شہروں اور قصبوں کو تو جانے دیجیے، بڑے شہروں میں سرکاری سپتال زبوں حالی کی منہ بولتی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ غریب اور نچلے متوسط طبقے کے لوگ (جو کل آبادی کا 70 فیصد کے لگ بھگ ہیں ) انھی سرکاری ہسپتالوں میں علاج کروانے پر مجبور ہیں، جہاں ہر قسم کی طبی سہولیات کا فقدان ہے۔

غربت سے مرتی عوام کو ان مسائل سے فرصت ملے تو وہ یہ سوچیں کہ نواز شریف جیل میں ہے یا زرداری؟ عمران کا کون سا وزیر فارغ ہوا اور کون سا نیا آیا؟ اور باقی جس جس کا سوشل میڈیا پہ بس چلتا ہے وہ ادھر آکے دانشوری جھاڑ کے چلے جاتے ہیں جب کسی کو کسی چھوٹے موٹے ویلفئیر پراجیکٹ میں مدد کے لئے ریکوسٹ کی جاتی ہے وہ بھی استطاعت کے مطابق۔ تو اچھے خاصے لوگوں کی استطاعت ختم ہوجاتی ہے۔ سارا دن ساری رات عوامی مسائل پہ جگتیں مارنے والوں کے سامنے کسی ایک فیملی کا کو ئی بنیادی مسئلہ رکھ کے مدد مانگی جائے تو وہ میسیج پڑھ کے جواب تک دینا گوارا نہیں کرتے۔ کچھ لوگ ہر دوسرے دن پانی کی طرح وقت اور پیسہ بہاتے نظر آئیں گے۔ بس کسی کی بھلائی کے لئے آگے نہیں آسکتے۔ خدارا آپ کو خدا نے اس قابل بنایا ہے کہ کوئی آپ سے مدد مانگ رہا ہے تو اپنی ہمت سے بڑھ کر کرنے کی کوشش نہ سہی تو جتنی ممکن ہو کیجئے۔

دکھوں سے بھری انسانیت کو آپ کے لفظوں کی نہیں پریکٹیکل مدد کی ضروت ہے۔ ہم سب محض سسٹم کو کرپٹ کہتے ہیں۔ اور خود اس سسٹم اور اس کرپشن کی سب سے بڑی اکائی ہم ہیں۔ اس بات کا تصور کر ہی نہیں پاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).