جج ارشد ملک کی پریس ریلیز پر “ہم سب خصوصی تجزیہ سیل” کی رپورٹ


اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر دو کے جج ارشد ملک نے مسلم لیگ (نواز) کے رہنماؤں کی گزشتہ روز کی جانے والی پریس کانفرنس اور اس میں پیش کی گئی مبینہ وڈیو کے بارے میں ایک پریس ریلیز کے ذریعے اپنا موقف پیش کیا ہے۔ اس پریس ریلیز کا جائزہ لینے کے بعد ہم سب خصوصی تجزیہ سیل نے درج ذیل نکات کی نشاندہی کی ہے۔

جج ارشد ملک نے مذکورہ وڈیو میں موجود ناصر بٹ اور ان کے بھائی عبداللہ بٹ سے اپنی ملاقاتوں کی تصدیق کی ہے ۔ گویا انہوں نے اقرار کیا ہے کہ اس وڈیو میں جج ارشد ملک کے طور پر پیش کیا گیا شخص وہ خود ہیں۔

جج ارشد ملک نے اس وڈیو میں سیاق سباق سے گریز اور انحراف کا الزام لگایا ہے۔ جج ارشد ملک نے اعتراف کیا ہے کہ مختلف مواقع پر مختلف موضوعات پر ہونے والی گفتگو کو سیاق سباق سے ہٹ کر پیش کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔ اس موقف سے ان پر لازم ٹھہرتا ہے کہ وہ وڈیو میں موجود گفتگو کا سیاق و سباق خود بیان کر دیں تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ کہاں کہاں تحریف کر کے غلط نتائج اخذ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

جج ارشد ملک نے موقف اختیار کیا ہے کہ فلیگ شپ ریفرنس اور العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کے دوران نواز شریف اور ان کے نمائندوں کی طرف سے مجھے بارہا رشوت کی پیشکش کی گئی بلکہ تعاون نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ قانون کے مطابق کسی زیر سماعت مقدمے میں کسی فریق کا جج سے رابطہ کرنا، رشوت کی پیشکش کرنا یا دھمکیاں دینا جرم ہے۔ کیا ارشد ملک نے اس موقع پر متعلقہ حکام کو ان حقائق سے آگاہ کیا؟ کیا ایسی کسی شکایت کا قانونی ریکارڈ یا دستاویزی شواید موجود ہیں؟

جج ارشد ملک نے دلیل دی ہے کہ اگر مجھے دباؤ کے تحت فیصلہ سنانا ہوتا تو ایک مقدمے میں نواز شریف کو بری نہ کرتا۔ کیا کوئی جج اپنے فیصلے کی تائید میں یہ دلیل پیش کر سکتا ہے کہ ایک ہی ملزم کے خلاف ایک مقدمے میں سزا دینا اور دوسرے مقدمے میں بری کرنا اس کی انصاف پروری کا ثبوت ہے۔ یہ نکتہ اس لئے قابل توجہ ہے کہ کسی ایک مقدمے میں بھی سزا کی صورت میں میاں نواز شریف کے لئے قانونی اور سیاسی نتائج میں چنداں فرق ممکن نہیں تھا۔

جج ارشد ملک نے گزشتہ روز کی پریس کانفرنس میں دکھائی گئی وڈیو جھوٹی، جعلی اور فرضی قرار دیا ہے۔ کیا کوئی وڈیو بیک وقت جعلی اور مفروضہ ہو سکتی ہے؟

اپنی پریس ریلیز میں جج ارشد ملک نے مبینہ وڈیو میں ملوث افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی تجویز دی ہے۔ اس پریس ریلیز کی ابتدائی سطروں میں انہوں نے اس وڈیو کو اپنے ادارے، اپنی ذات اور اپنے اہل خانہ کی ساکھ کو متاثر کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔ اگر جج ارشد ملک سمجھتے ہیں کہ اس وڈیو سے ان کی ذاتی اور ان کے خاندان کی ساکھ متاثر ہوئی ہے تو وہ ذاتی حیثیت میں قانونی چارہ جوئی کیوں نہیں کرتے؟ یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ جج ارشد ملک نے کس ادارے یا ریاستی عہدے دار کو قانونی چارہ جوئی کی تجویز دی ہے؟

پریس ریلیز کی زبان سرسری اور عمومی ہے۔ اس میں زبان، املا اور رموز اوقاف کی متعدد اغلاط موجود ہیں۔ بظاہر یہ پریس ریلیز قانونی پہلوؤں پر پوری طرح غور و فکر کئے بغیر عجلت میں تیار کی گئی ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).