شکایات حد سے نہ بڑھ جائیں


مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر رانا ثناءاللہ کو پارٹی اجلاس میں شرکت کے لیے فیصل آباد سے لاہور جاتے ہوئے اے این ایف نے گرفتار کر لیا۔ ان پر منشیات اسمگلنگ اور منشیات فروش گروہوں سے تعلقات کا الزام لگایا گیا ہے۔ رانا ثناءاللہ کچھ عرصہ سے متواتر کہہ رہے تھے کہ انہیں اپنی گرفتاری کا خدشہ ہے۔ گرفتاری سے دو روز قبل بھی پارلیمنٹ میں انہوں نے دو رپورٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں اپنی سلامتی کے بارے میں سنگین خدشات ہیں اور انہوں نے اپنے گارڈز بھی تبدیل کر دیے ہیں۔

حیرت ہے ان خدشات کے باوجود ایسے وقت میں جب ن لیگ کے خلاف سیاسی انتقام پر مبنی کارروائیاں عروج پر ہیں۔ رانا صاحب ذاتی گاڑی میں ”ہیروئن اسمگل“ کرنے نکل پڑے۔ اس سے قطع نظر کے مقدمے کا نتیجہ کیا ہو گا عام تاثر ہے کہ یہ انتقامی بنیاد پر قائم مقدمہ ہے۔ کیونکہ سیاسی مخالفین کے خلاف جھوٹے الزامات پر کارروائیاں ہمارے ہاں نئی بات نہیں۔ ن لیگ کے حنیف عباسی بھی انتخابات کے موقع پر منشیات کے کیس میں گرفتار ہو کر جیل کی سزا کاٹ چکے ہیں۔

اسی طرح ماضی میں مسلم لیگ کی حکومت میں سینیٹر سیف الرحمن کے ذریعے آصف زرداری کے خلاف بھی منشیات کا کیس قائم ہوا تھا۔ ن لیگ کے اسی دور حکومت میں ایک صحافی رحمت آفریدی کو بھی اینٹی نارکوٹک فورس کے ذریعے گرفتار کروا کر سزا دلوائی گئی تھی۔ اسی طرح بھٹو دور میں معروف شاعر استاد دامن کے گھر سے بم برآمدگی کا کیس بھی بہت سے لوگوں کے علم میں ہو گا۔

طاقت و اقتدار کا ایک الگ نشہ اور مزاج ہوا کرتا ہے۔ ہر حکمران اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے مخالف آوازوں کو کچلنا لازم سمجھتا ہے۔ اس کے لیے مخالفین کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ ان پر جھوٹے مقدمات بنا کر انہیں جیلوں میں ڈالا جاتا ہے۔ ان کے خاندان اور عزیز و اقارب پر سختیاں ہوتی ہیں۔ ماضی کے تمام حکمران مخالفین پر ظلم و ستم کرتے رہے ہیں اور اس مقصد کے لیے ریاستی مشنری کا استعمال بھی کوئی نئی بات نہیں۔

تاہم موجودہ حکومت جس منظم طریقے اور شدت کے ساتھ ریاستی اداروں کو مخالفین کے خلاف استعمال کر رہی ہے اس کی نظیر ڈھونڈنی مشکل ہے۔ راتوں رات کسی شخص پر کوئی الزام لگ جاتا ہے اور اسے کوئی ادارہ اٹھا کر بھی لے جاتا ہے مگر ثبوت فراہم نہیں کیے جاتے۔ تمام ریاستی اداروں کو انتقامی جذبات کی تسکین کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

ہر جگہ، گروہ اور جماعت میں اچھے برے ہر طرح کے افراد ہوتے ہیں۔ ایسے نہیں ہو سکتا تمام پارسا یا تمام گنہگار ایک جماعت میں جمع ہو جائیں۔ پچھلے دو تین سال سے مگر جو حالات ہیں انہیں دیکھ کر لگتا یہ ہے کہ تمام تر برائیوں کی جڑ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ہیں۔ کرپشن، منی لانڈرنگ، گمنامی جائیداد، کک بیکس اور اب منشیات فروشی کون سا ایسا جرم ہے جس کا طوق ان جماعتوں کے گلے میں نہیں ڈالا گیا۔ ایمنسٹی اسکیم کی مدت ختم ہوتے ہی فورا اعلان کیا گیا۔

ن لیگ کے رہنما چوہدری تنویر کی چھ ہزار کنال اراضی ضبط کر لی گئی ہے جو انہوں نے اپنے ملازمین کے نام پر بنا رکھی تھی۔ کون با شعور اور محب وطن شہری ہے جو معیشیت کو دستاویزی شکل دینے کا مخالف ہو گا۔ اس سے بھی ہر کوئی اتفاق کرے گا کہ قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے مرتکب تمام لوگوں کو کڑی سزا ملنی چاہیے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے تحریک انصاف کے وابستگان میں سے گمنامی جائیدادوں کا مالک کوئی ایک شخص بھی نہیں ملا۔ کیا جہانگیر ترین، علیم خان، اعظم سواتی اور فیصل واڈا جیسے مالدار لوگ اپنی تمام جائیداد ظاہر کر چکے ہیں۔

جہانگیر ترین آئین کے آرٹیکل 62 ( 1 ) ایف کے تحت اپنی آف شور کمپنی ظاہر نہ کرنے کی وجہ سے نا اہل ہو کر بھی کابینہ اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں جس پر کوئی ادارہ نوٹس نہیں لیتا۔ دوسری طرف اسی نوعیت کے کیسز میں اپوزیشن رہنماؤں کو پارٹی عہدے رکھنے سے بھی روک دیا جاتا ہے۔ اسی طرح نواز شریف کی نا اہلی کے مقدمے اور عمران خان کے مقدمے پر نظر دوڑائی جائے تو بہت سی چیزوں میں مماثلت نظر آتی ہے۔ مثلا نواز شریف سے بنیادی سوال یہ تھا کہ وہ بتائیں لندن فلیٹ کس کی ملکیت ہیں، جبکہ عمران خان کو بھی بنی گالا اراضی کے متعلق اسی سوال کا سامنا تھا۔

پھر نواز شریف سے یہ سوال تھا کہ بتائیں لندن فلیٹ خریدنے کے لیے رقم کہاں سے آئی؟ عمران خان سے بھی بنی گالا اراضی کی خریداری کی متعلق یہی سوال پوچھا گیا۔ اس کے بعد نواز شریف سے یہ سوال کیا گیا وہ عدالت کو مطمئن کریں کہ فلیٹس کی خریداری کی خاطر درکار رقم کی منتقلی کے لیے کون سا چینل استعمال کیا گیا، کم وبیش اسی سوال کا سامنا عمران خان کو بھی کرنا پڑا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں ملزمان کی جانب سے ان سوالات کے جو جوابات پیش کیے گئے ان میں بھی بڑی حد تک مماثلت تھی۔

میاں صاحب نے ذرائع آمدن کے نام پر اگر یہ کہانی سنائی کہ ان کے مرحوم والد نے اسٹیل مل اسکریپ میں فروخت کی۔ جس سے حاصل ہونے والی آمدن سے یہ فلیٹس خریدے گئے تو عمران خان نے بھی ایسی ہی کہانی سنائی کہ میں ساری عمر باہر کرکٹ کھیلتا رہا، جس سے حاصل ہونے والی آمدن سے میں نے یہ جائیداد بنائی۔ جبکہ اپنے موقف کے دفاع کے لیے میاں صاحب نے قطری شہزادے کا خط پیش کیا تو عمران خان صاحب نے اپنے دفاع میں اپنی سابقہ اہلیہ جمائما گولڈ اسمتھ کے خطوط پیش کر دیے۔ اس حد درجہ مماثلت کے باوجود دونوں مقدمات میں مختلف فیصلے سامنے آئے جس کے باعث بہت سے لوگوں کو ریاستی اداروں پر سوالات کا موقع ملا۔

ہمارے سیاسی ماحول میں تلخی ہمیشہ سے رہی ہے۔ کچھ عرصہ سے مگر یہ تلخی خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ ہر گزرتے لمحے سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث خدانخواستہ کسی بڑے سانحے کا خطرہ نظر آ رہا ہے۔ ملکی آبادی کے ساٹھ فیصد حصے پر مشتمل صوبے کی نمائندہ جماعت کے خلاف مسلسل ہونے والے اقدامات سے اسے دیوار سے لگانے کی کوشش کا تاثر قوی ہو رہا ہے۔ کچھ وقت کے لیے تسلیم کر لیا کہ مسلم لیگ ن میں بہت خرابیاں ہیں۔

پھر بھی وہ ایک ملک گیر جماعت ہے اور ایسے وقت میں جب دشمن ہمیں لسانی بنیادوں پر لڑا کر کمزور کرنے کے درپے ہے۔ ایسی ملک گیر جماعتوں کا وفاقی سیاست میں موجود رہنا قومی سلامتی اور وحدت کے لئے نا گزیر ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ریاستوں کی بقا بلا امتیاز انصاف میں مضمر ہے۔ کسی ایک گروہ کو اگر احتساب سے ماورا قرار دے دیا جائے تو معاشرے میں بغاوت کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس بغاوت کو روکنے کے لئے لازم ہے جانبداری کا شبہ بھی کسی ذہن میں پنپنے نہ دیا جائے۔ نہایت تشویشناک بات ہے کہ احتساب سے متعلقہ اداروں کی غیر جانبداری اور شفافیت کا بھرم ٹوٹنے کی وجہ سے آج سیاسی اکھاڑے میں ریاستی اداروں کو بھی فریق تصور کیا جا رہا ہے۔ درد دلی سے اپیل ہے خدارا اس تاثر کو فی الفور زائل کیا جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ شکایات حد سے بڑھ جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).