تاریخ فہمی اور عام فکری مغالطے


بہت سے لوگ تاریخ کو اپنے اپنے نقطہ نظر سے سمجھنے کی سعی کرتے رہتے ہیں اور کچھ تو فلسفہ تقدیر کی مانند من و عن ہی اسے تسلیم کر لیتے ہیں۔ اکثر اسے ایک خشک اور غبار آلود مضمون اور کیلنڈری تاریخوں کا بے ربط تکرار سمجھتے ہوئے اس سے لاتعلق رہتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نہ ہی تو تاریخ بیزار کن اوربے ربط ہے۔ اور نہ ہی اسے جانے بغیر اپنے وجود کے ادراک سے لے کر معاشرتی تانے بانے کی پیچیدگیوں تک ربط کو سمجھنا ممکن۔

سائنسی طریقہ کار اور عقلی کسوٹی کا استعمال کرنے سے تاریخ کا مطالعہ ہمارے ماضی اور حال کے درمیان ربط اور تسلسل کی وضاحت کرتا ہے اور مستقبل کے تناظروں کی سمت طے کرنے کے لیے معاون و مددگارثابت ہوتا ہے۔ یہاں یہ سمجھنا ازحد ضروری ہے کہ حقیقی تاریخ یکسانیت سے بھرپور اور اپنے آپ کو دھرانے کی بجائے، ایک مستقل ’بھرپور اور متضاد عمل سے عبارت ہوتی ہے، جس کا نقطہ ماسکہ اور قوتِ محرکہ محنت کش عوام کے ہاتھوں پیدا ہونے والی قدرِ زائد پرچند قوتوں کے کنٹرول حاصل کرنے کی کشمکش ہے۔

اور اسی کشمکش کے نتیجے میں معاشی، سیاسی اور سماجی تغیر، افراد اور گروہوں کا کردار تاریخ کو اس کے اصل تناظر میں سمجھنے میں مددگار ہوتا ہے۔ اقراد اور گروہوں کے کردار اور کشمکش کے نتیجے میں وجود میں آنے والا نظام دولت کی تقسیم کی سمتیں متعین کرتا ہے۔ تاریخ کی بہت ساری تشریحات دیکھنے کو ملتی ہیں جن میں سے اکثر معض مفروضوں پر مبنی قصے کہانیاں ہی ہوتی ہیں۔ کچھ تشریحات ابسی ہیں جنھیں بنیاد مان کر تاریخ کے حقیقی اور مادی ارتقا کی کڑیوں کو ایک سلسلہ وار زنجیر میں جوڑتے ہوئے حقائق کا ادراک ممکن ہے۔ جیسا کہ بیسویں صدی کے عظیم مفکر کارل مارکس نے ”سیاسی معاشیات پر تنقید“ کے تعارف میں وضاحت کی تھی کہ

اپنی پیدا کردہ سماجی پیداوار کے بعد انسان ایسے بندھن میں بندھ جاتے ہیں جو ان کی خواہشات سے آزاد اور راسخ ہوتے ہیں۔ یہ پیداواری رشتے، مادی پیداواری قوتوں کی ترقی کے ایک مخصوص مرحلے کی نشاندہی کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ پیداواری رشتے مل کر سماج کا معاشی ڈھانچہ تشکیل دیتے ہیں، جس کی بنیاد پر قانونی اور سیاسی بالائی ڈھانچہ تعمیر ہوتا ہے اور سماجی شعور کی مخصوص کیفیات بھی اس کے مطابق ہوتی ہیں۔ مادی زندگی میں طرزِ پیداوار ہی زندگی کے سماجی، سیاسی اور روحانی پہلوؤں کا تعین کرتی ہے۔

یہ انسانوں کا شعور نہیں ہوتا جو ان کے وجود کا تعین کرتا ہے، بلکہ اس کے برعکس ان کا سماجی وجود ان کے شعور کا تعین کرتا ہے۔ ترقی کے ایک مخصوص مرحلے پر پہنچ کر، سماج کی مادی پیداواری قوتیں موجودہ پیداواری رشتوں سے متصادم ہو جاتی ہیں، یعنی قانونی زبان میں، ان ملکیتی رشتوں سے جن کے اندر رہ کر وہ ابھی تک کام کر رہی تھیں۔ پیداوار کی ترقی کی شکلوں کی بجائے یہ رشتے اب ان کے پیروں کی بیڑی بن جاتے ہیں۔ پھر سماجی انقلاب کے عہد کا آغاز ہوتا ہے۔ معاشی بنیادوں میں تبدیلیاں، جلد یا بدیر سارے بالائی ڈھانچے کو یکسر بدل کر رکھ دیتی ہیں

یہ تاریخ کی جانب حقیقی سائنسی نقطہ نظر کا خلاصہ ہے جسے ”تاریخی مادیت“ بھی کہا جاتا ہے۔ جب ہم تاریخ کوبے معنی اور بے ربط واقعات کے سلسلے کی بجائے لا محدود حد تک پیچیدہ مگر آپس میں جڑے واقعات کی کڑی کے طور پر سمجھنا شروع کرتے ہیں جس میں بڑے پیمانے کی سماجی، سیاسی اور معاشی قوتیں شامل ہوتی ہیں تو بشمول ہمارے اپنے وجود، ہمارے ارد گرد بسی دنیا میں رشتوں کا آپسی تعلق سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ پھر یہ بے کار معمولات کا بے محل مجموعہ نہیں دکھائی دیتی بلکہ محنت کش طبقے کی ماضی کی سلسلہ وارجدوجہد کے تجربات زندہ ہو جاتے ہیں، جن میں ہماری آج کی اس دنیا کوجاننے، اور اسے بدلنے کے لیے بہت سے اسباق موجود ہوتے ہیں۔

تاریخ کی ان مختلف النوع تشریحات کی بازگشت کم ترقی یافتہ اور پسماندہ معاشروں میں شوروغل سے سنائی دیتی ہے جہاں مختلف زاویہ فکر کے لوگ گرد آلود اوراق میں اپنے ماضی کی اصل حقیقت کو جاننے کے متمنی ہیں۔ ترقی یافتہ اقوام کی طرح ترقی پزیرممالک کے عوام کے لیے بالعموم اور متحرک سیاسی، سماجی اور پیداواری عمل میں شریک افراد اور گروہوں کے لیے بالخصوص تاریخ فہمی کا ہنراتنا ہی ضروری اورلازم ہے جتنا کہ زندگی کے لیے آکسیجن۔

کیونکہ درپیش کسی بھی فکری اور سیاسی بحران سے نبردآزما ہونے کے لیے یہ علم معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے۔ وقت سے بچھڑے ہوے معاشروں کے لیے ماضی کی تاریخ، تاریخ سے بڑھ کر ایک المیہ کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ایسے معاشروں میں ایک دائرے، ایک نقطے کو مرکزی حیثیت دے کر ان سماجی، سیاسی اور معاشی عوامل کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے جو مادی تاریخ کی حقیقی اساس ہوتے ہیں۔ اور ہم ہیں کہ اس دائرے اور اس مرکزیت کو چھوڑنے پر رضامند ہی نہیں ہوتے۔

بعض دانشوروں نے تو اسے ایک ”مقدس تاریخی نرگسیت“ کا درجہ دے کر حقیقی مادی تاریخ کے بنیادی عوامل کی نفی تک کر دی ہے اور یہ عمل تاریخی بددیانتی کے زمرے میں آتا ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ ایسے افراد وجدان کو عقل پر فوقیت دیتے ہیں اسی لیے وہ عقلی دلیل کے بجائے تاریخ کو جذبات کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے خرد کے بلیدان کے تمنائی بن جاتے ہیں۔ حقیقی مادی تاریخ محنت کش عوام کی معاشی سرگرمیوں کے نتیجے میں تغیر پذیر سیاسی نظریات اور سماجی ڈھانچے کی ریاست اور اشرافیہ کے ساتھ برابری کے حصول کے لئے جنگ کے عمل میں وجود میں آتی ہے۔ جو ایک نئے سماجی، سیاسی اور معاشی نظام کی اشکال واضع کرتی ہے۔ سماجی، سیاسی اور معاشی کشمکش کے اس پیچیدہ عمل کو جانے بغیر حقیقی تصویر کے حقیقی رنگوں کونہ ہی تو ارض قرطاس پر بکھیرا نہ ہی عوام اور دھرتی کے رشتے کو آپس میں جوڑا جا سکتا ہے۔

جذبات کی بھینٹ چڑھی فکری تقسیم بھی کسی المیے اور سانحے سے کم نہیں ہوتی۔ جو قوموں کے وجود کو ”ہونے اور نہ ہونے“ کی درمیانی کیفیت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ اور قوموں کے تاریخی وجود کا کسی جذباتی اور غیر حقیقی انا کی بھینٹ چڑھ جانا ایک ہی دائرے میں بہت سارے سانحات کو جنم دیتا ہے اور ان سانحات کا خمیازہ اکیسویں صدی میں بھی بیشتر اقوام کے عوام بھگت رہے ہیں۔ اس دائرے کا سب سے بڑا سانخہ فکری تقسیم کے ساتھ سحر انگیز تخیلاتی رومانس اور منظم استحصال کی بدترین شکل میں انسانوں کی اکثریت پر مسلط ہے۔ اور انسانی معاشرہ بدترین سیاسی۔ معاشرتی اور معاشی تفریق کا شکار ہے۔ ہر کسی کا اپنا اپنا جغرافیہ اور تاریخ ہے۔ مکاتب فکر تک مسلکوں اور فرقوں کی طرح عمل کرتے ہیں۔ اور اوپر سے ”یوٹوپیائی مفکر“ اس تقسیم کے جلتے عمل پر تیل کا کام کرتے ہبں۔

یہ بھی سچ ہے کہ خیالات و احساسات کی افادیت جانچنے کے لیے کوئی مجرد اور مطلق معیار کام نہیں دیتا اور آزادئی اظہار سے لے کر سیاسی مسلکوں کی پوجا پاٹ تک اکثر گروہ صرف ایک پیمانے کوجانچنے کا معیار ماننے اور سمجھنے سے گریزاں ہیں کہ یہ خیالات نسل انسانی کی بقا میں کس حد تک معاون ہوسکتے ہیں؟ حقیقی تناظر میں خیالات اور احساسات ایک بہتر مستقبل کی بنیاد رکھنے کی شعوری کاوش ہوتے ہیں نہ کہ ماضی کے مزارات کی پوجا پاٹ۔ لیکن ہمارے ہاں ان مزارات کی پوجا پاٹ کو ایک مقدس فریضہ گردانتے ہوئے اصل احداف سے شعوری اور لا شعوری طور پر صرف نظر کیا جاتا ہے۔ فکری سانحات کے دائروں کے اندر ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ جاننے والے بتانا نہیں چاہتے اور اپنی سوچ کو وقت کی لہروں کے سپرد کر دیتے ہیں اور اس حقیقت سے واقف ہوتے ہوئے بھی کہ

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2