پھول کی پتی، ہیرے کا جگر اور طالبان کی گھڑی


مائیکل سر پر چھوٹی سی لائیٹ لگائے اپنا خاص لیمپ بھی آن کر کے بیٹھا تھا۔ میں چپ چاپ اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ قیمتی پتھروں کے کرسٹل جانچ رہا تھا۔ یہ کرسٹل پھر نشان لگ کر کٹر کے پاس جانے تھے۔ مائیکل نے یہ بتانا تھا کہ کس کرسٹل کو کس رخ کاٹنا ہے۔ اس کی کیا شکل بنانی ہے۔ میں اس کے مسترد کردہ کرسٹل غور سے دیکھ کر سائیڈ پر رکھا دیتا تھا۔ جب کہ گریڈنگ والے کرسٹل وہ الگ ٹرے میں ڈالتا تو ان کو بھی غور سے دیکھتا۔ سمجھ کچھ خاص نہیں آتی تھی۔

مائیکل بولا تم ان کو ویسے ہی نہ دیکھا کرو۔ ان کرسٹل میں لائٹ کا رخ سمجھنے کی کوشش کیا کرو۔ لائٹ کو جتنا سمجھ کر کرسٹل کو کاٹا جائے گا۔ اتنا ہی جیم سٹون کی قیمت میں فرق پڑے گا۔ مائیکل بولا تمھیں پتہ ہے تمھارے ملک  میں ہیرے کے علاوہ سب قیمتی پتھر موجود ہیں۔ بلکہ کچھ ایسے انوکھے ہیں۔ جن کا عام سی منرل فیملی سے تعلق ہے لیکن وہ ہیرے کی طرح قیمتی ہیں جیسے پنک ٹوپاز۔ گلابی رنگ کا یہ پکھراج کاٹلنگ مردان میں دریافت ہوا تھا۔ ہم اپنی محنت اور اپنی ہمت سے وہ کان برباد کر چکے ہیں۔

قیمتی پتھر چار سمجھے جاتے ہیں۔ ہیرا زمرد نیلم اور یاقوت۔ ہیرے کے علاوہ باقی تینوں پاکستان میں موجود پائے جاتے ہیں۔ یاقوت اور نیلم کا تعلق ایک ہی کورنڈم خاندان سے ہے۔ زمرد کا تعلق بیرل فیملی سے ہے اس فیملی کا دوسرا ممبر اکوامرین ہے۔ اکوامرین کو اتنا قیمتی نہیں سمجھا جاتا۔ زمرد کی ہارڈنس (سختی) آٹھ جبکہ نیلم اور یاقوت کی نو ہے۔ ہیرا معلوم عناصر میں سب سے ہارڈ ہے۔ اس کی ہارڈنس دس مانی جاتی ہے۔

ہیرے کی دس ہارڈ نس بھی اصلی نہیں ہے۔ اگر سکیل پر اس کی اصل ہارڈنس معلوم کی جائے۔ وہ پھر بیالیس کے قریب بنتی ہے۔ یاقوت اور ہیرے کے درمیان کوئی اور عنصر نہیں ہے جس کی اتنی ہارڈنس ہو۔ اس لئے ہیرے کی ہارڈنس دس ہی بتائی جاتی ہے۔ یہ اسی ہیرے کی باتیں جس کو ہمارے شاعر لوگ پھول کی پتی سے کاٹ کر دکھا دیتے ہیں۔ جو اب بھی سخت ترین عنصر ہے۔

مائیکل کی لمبی ہونہہ نے ہمارا پرجوش خطاب خطاب وہیں ختم کرا دیا۔ مائیکل نے پوچھا تم نے کبھی شکار کیا ہے۔ سوال نہایت غیر متوقع تھا غیر متعلق بھی۔ کافی گھبرا کر اسے بتایا کہ نہیں۔ مائیکل بولا نہیں بھی کیا تو اس چمک کے بارے میں جانتے ہو گے۔وہ بولا وہی بھیڑیے کی آنکھوں کی چمک ۔ سنا تھا کہیں پڑھا بھی تھا ۔ جس کا  جھوٹ سچ تو نہیں معلوم لیکن کہتے ہیں۔

بھیڑیے ایک غول کی صورت میں بیٹھ جاتے ہیں۔ جب شکار نہ ہو وہ بھوکے ہوں۔ ایک دوسرے کو گھورتے ہیں جس کی آنکھوں میں چمک ماند پڑے اسے کھا جاتے ہیں۔ اس چمک کا تعلق شکار سے ہے۔ اس کا تعلق بے وفائی سے بھی ہے۔ اپنے ہی ساتھی کو اپنے مطلب کے لئے مار مکانا۔ یہ بے دردی بھی ہے۔

مائیکل اسی چمک کا بتا رہا تھا۔ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ اس کا کیا تعلق ہے قیمتی پتھروں سے۔ مائیکل بولا جو قیمتی دھاتوں کے سوداگر ہوتے ہیں۔ سودا کرتے وقت ان کی آنکھوں میں بھی یہی چمک رہتی ہے۔ وہ بھی شکار کرتے ہیں گاہک کا جب اس کی آنکھیں چمکتی ہیں۔ ان آنکھوں کی چمک اسے دھوکا دیتی ہے۔

اگر یہ کام کرنا ہے تو اس چمک کو استعمال کرنا سیکھو۔ خریدتے وقت کرسٹل کے اندر موجود چمک (لائیٹ) اس کی قدر بتاتی ہے۔ بیچنے والے کی آنکھوں کی چمک یہ بتاتی ہے کہ وہ کس کو قیمتی سمجھتا ہے۔ وہ کیا سمجھتا ہے اس کا انحصار اس کے اپنے علم اپنے تجربے پر ہوتا ہے۔ خریدار کی آنکھوں میں پسند کی چمک ہوتی ہے۔

اس پسند کو جانو گے تو ہی کچھ بیچو گے۔ جواہرات اپنی قیمت پر کم گاہک کی پسند پر زیادہ بکتے ہیں۔ اسے کچھ پسند کراؤ گے تو وہ خرید لے گا ۔ تمھیں اس کی پسند کی تعریف بھی کرنی ہوگی۔ ہر ایک کی الگ پسند ہوتی ہے۔ اس کو تعریف بھی الگ کرو۔ اس کے لئے اپنا کام سیکھنا ہوگا۔

مائیکل سے پوچھا تم  نے چمک کو استعمال کرنا کیسے سیکھا۔

مائیکل بولا میں نے ہیرے خریدے تھے۔ جو تول میں پورے تھے مول میں اچھے تھے۔ معیار کے سارے ٹیسٹ وہ پاس کر گئے تھے۔ بس ایک ٹیسٹ رہ گیا تھا۔ ان ہیروں کا کہ انہیں اب کاٹنا ہی رہتا تھا۔ یہ خریدنے کے بعد ہی ممکن تھا۔ مائیکل نے بتایا کہ اس نے ہیرے خرید  کر انہیں کٹوانے کو بلیڈ لگایا۔ تو ہیروں کے سارے کرسٹل ہی باری باری ٹوٹ گئے۔ کرسٹل میں کوئی کمی تھی وہ بلیڈ سہنے کے قابل نہیں نکلے۔ مجھے دیوالیہ کر گئے لیکن اک سبق دے گئے۔ اس سبق کی قیمت وہی تھی جتنے ڈالر کا میں نے نقصان کیا تھا۔

ہیرا تو چلو بلیڈ سے کٹ کر اپنی قیمت طے کروا لے گا۔  انسان کو کس کتاب پر پرکھیں گے کونسا کٹر لگائیں گے۔ مائیکل بولا انسان کو ان باتوں پر پرکھا جاتا ہے  جن کا وہ دعوی کرتا ہے۔ اس کے لئے کٹر ایک ہی ہے وہ ہے وقت ۔انسان کو وقت کاٹ کر بتاتا ہے کہ یہ کیسا ہے۔ جو کہتا ہے وہ کر بھی پاتا ہے کہ نہیں۔

مائیکل تم نے چمک کو کیسے استعمال کیا۔ مائیکل بولا جب دو جوہری آمنے سامنے بیٹھتے ہیں۔ تو مار وہی کھاتا ہے جو جواہرات کو پرکھتے اپنی آنکھوں پر قابو نہیں پا سکتا۔ مائیکل نے کہا میں اب اپنی چمک پر قابو رکھتا ہوں۔ جو نہیں خریدنا ہوتا اس پر آنکھیں چمکتی ہیں اگلا اس کا ریٹ زیادہ بتاتا ہے۔ جو خریدنا ہوتا اس کے لئے میری تاثرات میں ناپسندیدگی ہوتی۔ وہ اگر مفت نہ بھی ملے تو بیچنے والا اس کا جو ریٹ بتائے وہ مفت والا ہی ہوتا ہے۔ اس نے کہا بیچنے والا یہ نقصان اس لئے بھی اٹھاتا ہے کہ اکثر اسے خبر ہی نہیں ہوتی کہ جو بیچ رہا وہ ہے کیا۔ انہیں اپنا کام نہیں آتا نہ وہ سیکھنے کی زحمت کرتے ہیں۔

مائیکل افغان کیسے ہیں سودا بازی میں۔ اس نے کہا بہت اچھے ہیں سودا بازی سمجھتے ہیں ۔ بارگین میں بہت سخت ہیں ۔بس ان کو ان کا لالچ مرواتا ہے جب بھی مروائے۔ آج سوچتا ہوں تو لگتا کہ افغان تو آج بھی مر رہے ہیں ۔ تو لالچ ہے اس بار بھی ہمیشہ کی طرح ۔ جنت جانے کا لالچ یا اپنی جنت یہیں بنانے کا لالچ۔

ہم پاکستانی کیسے ہیں  مائیکل ؟ اس نے جو کہا وہ سارا نہیں بتانے والا۔ اس نے کہا تم لوگوں کو جلدی مرواتی ہے۔ تمھیں کچھ بھی جلدی خریدنا ہوتا ہے۔ اس کو پھر فوری بیچنا ہوتا ہے۔ بہت زیادہ منافع کی امید رکھتے ہو۔ صبر نہیں کرتے اس لئے بڑے نقصان کرتے ہو۔

تب میں نے اس سے مزید کچھ نہیں پوچھا تھا۔ اب لگتا ہے کہ ہمیں ہر کام کی جلدی ہے۔ ٹریڈ روٹ بنانے کی جلدی ۔ حکومت گرانے کی جلدی۔ مشہور ہونے کی جلدی۔ خبر جلدی دینے کی جلدی ۔ اعتراض کرنے کی جلدی ۔ جواب دینے کی جلدی۔ حکومت میں آنے کی جلدی۔ ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ وقت ہمیں اٹھا اٹھا کر مارتا ہے۔ ہمیں سمجھ نہیں آتی ۔ ہم اپنا کام نہیں جانتے۔ سیکھنے کو بھی تو تیار نہیں ہیں۔

وقت صرف طالبان کے پاس ہے۔ امریکیوں سے جنگ کے بارے میں افغان طالبان نے بھی تو یہی کہا تھا کہ ہم کلائی پر گھڑی نہیں باندھتے۔ طالبان کو کچھ کرنے کی جلدی نہیں ہے۔ وہ ہمیں صبر سے مار رہے ہیں۔ اپنی مرضی سے اپنے منتخب میدان میں۔ ان سے ہی سیکھ لیں پھر۔

Published on: Sep 7, 2016

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments