خبر نویس ابھی زندہ ہیں


یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ دو ڈھائی دہائیوں میں میڈیا کا چہرہ بدل گیا ہے۔ اس پر سرمائے کا دباؤ بڑھا ہے، اور اس سے وابستہ لوگوں کا طبقاتی کردار بھی بدلا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحافت میں کئی بار سنسنی اور تماشے زیادہ نظر آتے ہیں جب کہ سماجی ایشوز کم، لیکن اگر اسی کو صحافت کی اصل آواز تسلیم کر لیں، تو یہ بھی سطحی پن ہو گا۔ ہاں، سچ قبول کرنا پڑتا ہے کہ میڈیا میں سطحی انداز اور سفلہ پن کی زمین تھوڑی وسیع ہو گئی ہے۔

یہ قبول کرتے ہوئے دوچار برس پہلے دیا گیا جسٹس مارکنڈے کاٹجو کا ایک بیان یاد آتا ہے، جس میں ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ’میڈیا کو نہ فلسفے کی سمجھ ہے، نہ تاریخ کی، نہ ادب کی اور نہ کسی دوسرے موضوع کی۔ اس وقت ان کی یہ بھی شکایت تھی کہ میڈیا حقیقتاً موضوعات سے دھیان بھٹکاتا ہے اور تفریح کے نام پر ٹھونسے گئے پھوہڑ پن کو جگہ دیتا ہے۔ ‘ ان کی ایک اور سنجیدہ شکایت یہ بھی تھی کہ یہ توہم پرستی کو فروغ دیتا ہے۔

آپ غور کریں تو یہ شکایات بے حد عام ہیں۔ اتنی عام شکایات کے لیے بہت تعلیم یافتہ ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ صحافت پر ایسا الزام تو گلی محلے کا ہر خاص و عام شخص عائد کرتا ہے۔ ٹھیک ویسے ہی جیسے ہندستانی میڈیا میں کھیلوں کی رپورٹنگ کرنے والا ہر صحافی سب سے بڑا کھلاڑی ہوجاتا ہے۔ وہ ہر ہار کے بعد کپتان سے لے کر ہر کھلاڑی کی کمزوریاں بتا کر اس کے بخیے ادھیڑ دیتا ہے یا کسی بھی جیت کے بعد اس کی طاقت بتا کر سر پر چڑھا دیتا ہے، جب کہ کرکٹ کے کھیل کی طرح دیکھنے والا متوازن رہتا ہے، اس کی باریکیاں سمجھنے والا میدان میں موجود کرکٹروں کی مشکلوں کو سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا بیان ہمیشہ سدھا ہوا اور متوازن ہوتا ہے۔ اسی لیے ایک صحافی سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ اسے تاریخ سے لے کر فلسفے تک، علوم معاشرت سے لے کر اقتصادیات تک اور ادب سے لے کر سائنس جیسے موضوعات تک کی معلومات ہوں گی۔

دراصل ان سوالوں پر غور کیے جانے کی ضرورت ہے، جو بدقسمتی سے نہیں ہو رہا ہے، بلکہ صحافی برادری ہی ان سوالوں پر شبہ کرنے لگتی ہے۔ ان سوالات اور شبہات کے درمیان ایک بڑے سوال کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے کہ میڈیا کئی قسم کے سازباز، معاہدوں اور دباؤ کا شکار ہے، جس کی وجہ سے اکثر خبریں تحریف کا شکار ہو جاتی ہیں۔

حال کی دوچار مثالوں کو یاد کریں تو نظر آئے گا کہ ملک کے داخلی سیاسی مدوجزر کو کور کرنے میں ملک کے بعض چینل اور کچھ اخبار غیر جانب دار نہیں رہ پائے ہیں۔ وہ پس پردہ پارٹی کے ترجمان کی طرح کام کرتے نظر آئے اور آخر وہ کون سی بے بسی ہے، جس کے پریشر میں یہ چینل اور اخبار آ جاتے ہیں، یہ پریشر بنتا کہاں سے ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ میڈیا کو قابو میں کرنے کی کوشش کیوں ہوتی ہے؟

سڑک سے پارلیمنٹ تک یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ میڈیا کی آواز بے حد طاقت ور ہوتی ہے۔ اسی طاقت کو قابو کرنے کے لیے کچھ بچولیے اکثر تیار رہتے ہیں، جو سرمایہ اور اقتدار کے محافظوں کی طرح کام کرتے ہیں۔ اقتدار اور سرمائے کو بھی یہ کھیل بھاتا ہے، اس لیے وہ کبھی اپنے چینل اور اخبارات شروع کرتے ہیں، تو کئی بار وہ دوسروں کے چینل اور اخبارات میں دراندازی کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس صورت حال کے بعد جن صحافیوں کا طبقاتی کردار تبدیل ہوا ہے، وہ اپنے لیے کام کرنے لگتے ہیں اور یہاں میڈیا کی معتبریت ختم ہونے لگتی ہے نیز اس کی غیر ذمے دارانہ شکل سامنے آنے لگتی ہے۔

میڈیا کے تعلق سے جو عام سوال اکثر اٹھائے جاتے رہے ہیں، ان کی زد میں وہ جھوٹ بھی ہے، جو بار بار پھیلایا جاتا ہے کہ میڈیا کی آواز اس لیے طاقت ور ہے کہ اسے کئی خصوصی اختیارات حاصل ہیں۔ اس پر کسی طرح کا کوئی قانونی دباؤ نہیں ہے۔ میڈیا کے حقوق کے موضوع پر اپنے جھوٹ کو تقویت پہنچانے کے لیے اقتدار اکثر و بیشتر آئین کے آرٹیکل 19 کا حوالہ دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ اسی طاقت کے تحت میڈیا کو خصوصی اختیارات حاصل ہیں۔ دراصل آرٹیکل 19 بنیادی حقوق کا حصہ ہے، جس میں ذکر کی گئی اظہار خیال کی آزادی صرف اس ملک کے صحافیوں ہی کو حاصل نہیں ہے، بلکہ وہ تو ملک کے ہر شہری کا حق ہے۔

یہ ایک عجیب سی بات ہے کہ ایک طرف تو میڈیا پر اکثر و بیشتر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس کے پاس سنجیدہ خبریں کم اور تفریح زیادہ ہے۔ دوسری طرف اقتدار کے حامل افراد کی جانب سے یہ مطالبہ بھی کیا جاتا رہا ہے کہ میڈیا خود کو حاصل خصوصی اختیارات کی وجہ سے بے قابو ہو گیا ہے ۔ وہ اپنی ذمے داری نہیں نبھا رہا ہے۔ اسے اس کی ذمے داری کا احساس ہو، اس کے لیے قانون بنائے جانے چاہئیں۔

دراصل میڈیا میں جب تک تماشے چلتے ہیں، وہ سماجی ایشوز سے الگ نظر آتا ہے تب تک اقتدار و سرمایہ کا ساز باز اس کے مزے لیتا رہتا ہے، مگر جیسے ہی میڈیا کے ہاتھ خبر لگتی ہے، وہ اپنے سماجی ایشوز سے منسلک ہو کر پوری شدت سے خبر کے پیچھے پڑ جاتا ہے ۔ ایسے میں برسراقتدار حکمرانوں اور مٹھا دھیشوں کو اپنا وجود خطرے میں نظر آنے لگتا ہے۔ تب انھیں میڈیا کا غیر ذمے دار چہرہ یاد آنے لگ جاتا ہے اور وہ اس پر حدود و قیود نافذ کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ مطالبہ میڈیا کو اس کی ذمے داری کا احساس دلانے کے لیے نہیں کیا جاتا، بلکہ اسے اس کی ذمے داریوں سے دور رکھنے کی کوشش کے تحت کیا جاتا ہے ۔

اقتدار اور سرمائے کی اس ساز باز کا ذکر کرنے سے میرا مقصد میڈیا کی کمیوں کی پردہ پوشی کرنا نہیں ہے، بلکہ اس بڑے سوال کی جانب توجہ مبذول کرانا ہے، جس پر عموماً گفتگو نہیں ہوتی۔ میں مانتا ہوں کہ ان دنوں میڈیا میں اوسط درجے کے لوگ کام کر رہے ہیں، جن کی نادانیوں اور لاپروائیوں کا جم کر مذاق اڑتا رہا ہے۔ میڈیا کے برعکس کھڑے ہو رہے نیو میڈیا کو لے کر اصل تشویش وہ نہیں، جو وہ اپنی نادانی یا نا سمجھی میں کر رہا ہے۔ اصل تشویش کا سبب تووہ خطرہ ہے، جو اس کی ہوشیاری سے پیدا ہو رہا ہے۔

اس ہوشیاری کو سمجھنے کے لیے ہمیں دو ڈھائی دہائی پیچھے لوٹنا ہو گا۔ 1991 میں لبرلائزیشن کا عمل شروع ہوا۔ اس کے بعد میڈیا میں بھی سرمائے کا کھیل شروع ہوا۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذریعے ہندستان میں آئے خطیر سرمائے نے اخبارات کو ان کی اقتصادیات سمجھائی۔ مالکوں کو کاروبار کی نئی سمجھ آئی۔ اس سمجھ نے ایڈیٹروں کو پس پشت کیا اور برانڈ کو نئی شکل دی۔ مارکیٹنگ کے لوگ اور برانڈ کے لوگ اخبار کی پالیسیاں طے کرنے لگے۔

سرمائے کے پریشر کی دلیل دی جانے لگی۔ بازار کا ورد کرتے ہوئے اور اس کی تمام شرطوں سے لیس لوگ فرنٹ فٹ پر آ کر کھیلنے لگے۔ ایڈیٹر بیک فٹ پر جا پہنچے۔ اخبار قارئین کے لیے نہیں، مشتہرین کے لحاظ سے نکلنے لگے، حالاں کہ اس سرمایہ کاری سے پہلے بھی کئی ایڈیٹر ایسے تھے، جنھیں سلام کرنے کے لیے کہا جاتا تھا اور وہ سجدے میں گر جاتے تھے۔ آج بھی کئی جگہوں پر ایسے ہی سجدہ ریز ایڈیٹروں کی نسل میڈیا کی کمان سنبھال رہی ہے۔

اتنا سب ہونے کے باوجود جب بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر پر کوئی میڈیا والا سوالات کھڑے کرتا ہے، گجرات فسادات کی رپورٹنگ کر کے انسانیت کی پامالی دکھائی جاتی ہے، بد عنوانی پرانا ہزارے کی آواز میڈیا میں گونجتی ہے، جب جیسکا لال، پر یہ درشنی مٹو، نربھیا کے حق میں میڈیا کھل کر بولتا ہے، جب کسی ٹیچر کے فرضی اسٹنگ آپریشن کے خلاف میڈیا اپنے ہی کچھ ساتھیوں پر اجتماعی تنقید کرتا ہے، انھیں عار دلاتا ہے، جب روہت ویمولا کی موت پر ، جب پارلیمنٹ میں شور پر ، جب کنہیا کی گرفتاری پر ، جب اقتدار اور سرمائے کے ساز باز پر، میڈیا صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط بولتا ہے تو ایسے میں اچانک اقتدار کو یاد آتا ہے کہ میڈیا کو پابند کرنے کے لیے قانون بنانے کی ضرورت ہے اور اس کی جانب سے یہ جھوٹ بھی پھیلایا جاتا ہے کہ میڈیا کو قابو میں رکھنے کے لیے اب تک کوئی قانون نہیں ہے، تو شک اور پختہ ہوجاتا ہے کہ امید کی کرن ابھی معدوم نہیں ہوئی، خبریں باقی اور خبر نویس زندہ ہیں۔

 

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 168 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments