فوزیہ داستان گو: ’کافی کہانیاں ایسی ہیں جو اگر لڑکی کہے تو اچھا ہے‘


فوزیہ داستان گو

فوزیہ نہ صرف روایتی داستانیں سناتی ہیں بلکہ خواتین سے متعلق سماجی مسائل کو بھي اجاگر کرتی ہيں

پرانی دلی میں نہ داستانوں کی کمی ہے اور نہ ان کہانیوں کے سننے والوں کی۔

کچھ عرصہ قبل تک کمی تھی تو انھیں کچھ یوں کہنے والوں کی کہ سننے والا خود کو ان کا حصہ سمجھنے لگے۔

تقریباً ڈیڑھ دہائی قبل اردو ادیب شمس الرحمن فاروقی اور ان کے ساتھی اور تھیٹر آرٹسٹ محمود فاروقی نے اس کام کا بیڑا اٹھایا کہ وہ داستان گوئی کے اس فن کو دوبارہ زندہ کریں گے جو 13ویں صدی میں انڈیا آیا تھا۔

داستان گوئی وہ فن ہے جس میں فنکار اپنے سامعین و ناظرین کے سامنے صرف اپنی آواز کے زیروبم سے وہ سماں باندھ دیتا ہے کہ سننے اور دیکھنے والا خود کو اس کہانی کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

بھولی ہوئی ہوں داستاں

انڈیا کی خواتین داستان گو کا چیلنج

‘یار فوزیہ وہیں سے شروع کرو ناں کہانی’

داستان گوئی کا آغاز ایران سے ہوا اور یہ فن انڈیا میں 13ویں صدی میں پہنچا اور انیسویں صدی کے وسطی دہائیوں میں اپنے عروج پر پہنچا اور یہی وہ وقت تھا جب اسے باقاعدہ فن کا درجہ ملا تاہم 20ویں صدی کے اوائل میں انڈیا میں اِکا دُکا داستان گو ہی بچے تھے۔

سنہ 2005 میں شمس الرحمن فاروقی اور محمود فاروقی کی جانب سے داستان گوئی کا سلسلہ دوبارہ شروع کیے جانے کے بعد یہ کام اُس وقت تک مرد فنکاروں تک محدود رہا جب تک پرانی دلی سے تعلق رکھنے والی فوزیہ نے یہ فیصلہ نہیں کیا کہ وہ بھی اِس ميدان ميں قدم رکھيں گی۔

سنہ 2006 میں داستان گوئی کا آغاز کرنے والی فوزیہ نہ صرف روایتی داستانیں سناتی ہیں بلکہ خواتین سے متعلق سماجی مسائل کو بھي اجاگر کرتی ہيں۔

بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انھیں کتب بینی کا شوق بچپن سے تھا۔ ’جب میں چھوٹی تھی تو مجھے یاد ہے 25 پیسے ملا کرتے تھے، آٹھ آنے ملا کرتے تھے اور جب اور بڑے ہو گئے تو ایک روپیہ ملا کرتا تھا، تو لوگ اس وقت چیزیں کھاتے تھے، گول گپے کھاتے تھے اور میں دریا گنج میں کتابوں کی مارکیٹ جاتی تھی جو آج بھی لگتی ہے۔‘

’اس زمانے میں وہ تول کر کہانیوں کی کتابیں دیا کرتے تھے تو میں پاگلوں کی طرح وہ کہانیاں پڑھتی تھیں اور میری جو سہیلیاں تھیں میں ان سے کہتی تھیں مجھ سے کتابیں لے لو تو وہ کہتی تھیں تم سنا دو پلیز۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اس وقت تو داستان گوئی کا خیال بھی نہیں تھا لیکن میرا یہ سلسلہ شروع ہو گیا تھا کہانیاں سنانے کا۔ پھر میری نانی بہت اچھے قصے سناتی تھیں سو میرے خیال میں آپ کی شخصیت وہی بن جاتی ہے جس قسم کے ماحول میں آپ بڑے ہوتے ہیں۔‘

ان کے مطابق پرانی دلی میں جو خواتین گھر میں آتی تھیں وہ مختلف لہجوں میں بات کرتی تھیں جنھیں انھوں نے سمجھنا شروع کیا۔

اس سوال پر کہ ان کی داستان گوئی کا آغاز کیسے ہوا، فوزیہ نے بتایا کہ ان کے ایک دوست نے انھیں محمود فاروقی اور دانش حسین کی داستان گوئی کے بارے میں بتایا اور وہ ان کا شو دیکھنے گئیں۔

’وہ طلسم ہوشربا کی آزر جادو پرفارم کر رہے تھے اور اس کی جو شاعری تھی کہ جب افراسیاب کو پتا چلا کہ عمرو عیار نے مہتاب جادو کا قتل کر ڈالا تو وہ غصہ سے تھرتھر کاپننے لگا اور اس نے اس غضب سے درخت کو دیکھا کہ وہ درخت اس کی آتشِ نگاہ سے جلنے لگا۔‘

فوزیہ کا کہنا تھا کہ ’یہ سن کر مجھے لگا کہ یہی ہے وہ چیز جو زندگی میں مجھے کرنی ہے۔ شو ختم ہوا، وہ سٹیج سے اترے اور میں نے کہا مجھے داستان گوئی سیکھنی ہے۔‘

فوزیہ کے مطابق یہ وہ وقت تھا کہ کوئی داستان گوئی کو نہیں جانتا تھا اور محمود فاروقی اور دانش حسین ان کا یہ مطالبہ سن کر حیران ہوئے کہ ’ایک لڑکی آئی ہے اور کہہ رہی ہے کہ داستان گوئی سیکھنی ہے۔‘

فوزیہ کہتی ہیں کہ داستان کی سب سے خوبصورت بات اس کی زبان ہے۔

’جب میں جامعہ یونیورسٹی میں تھی تو میں نے یہ دیکھا کہ لوگ کہتے تھے ‘ہاں میاں، اچھا دلی چھ، آ ریا ہوں، جا ریا ہوں، کر ریا ہوں۔‘ تو مجھے لگا کہ کیا یہ مذاق اڑانے کی بات ہے کیونکہ کسی بھی جگہ کا کوئی لہجہ اس جگہ کی نمائندگی کرتا ہے۔

آج ہم سب اتنی صاف ستھری زبان بولنے لگے ہیں کہ وہ لہجے کہیں چھوٹ رہے ہیں اور ہمیں لگتا ہے کہ کتنی گنواروں کی طرح بات کر رہے ہو۔‘

ان کے مطابق ’مجھے لگا کہ کارخنداری زبان اور نائین کی بولی، دھوبیوں کی بولی اور خاص طور سے بیگماتی زبان، مجھے اسے مزید بڑی آڈیئنس تک لے جانا چاہیے۔‘

فوزیہ کے مطابق جب انھوں نے داستان گوئی کا آغاز کیا تو انھیں تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا کیونکہ سامعین و ناظرین میں سے کچھ اسے ایک خاص مردانہ شعبہ سمجھتے تھے۔

’میں نے دانش حسین کے ساتھ اپنی پہلی پرفارمنس کی اور مجھے یاد ہے دلی کے انڈیا انٹرنیشنل میں وہ شو تھا۔ سردیوں کے دن تھے تو میں سٹیج سے اتری تو ایک صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ بھائی آپ کیسے داستان گوئی کر سکتی ہیں، یہ تو عورتیں کرتی نہیں تھیں۔‘

ان کے مطابق اب حالات تبدیل ہو رہے ہیں اور خاتون داستان گو کو بھی پہچان اور مقبولیت مل رہی ہے۔

’کہیں نہ کہیں وہ لڑائی تو تھی لیکن آج سنہ 2019 میں لوگ کہتے ہیں کہ خاتون داستان گو کو ہی بلانا ہے۔ یہ اس لیے ہوا کہ کافی کہانیاں ایسی ہوتی ہیں جو اگر لڑکیاں کہیں تو بہت اچھی ہیں جیسے میں عصمت چغتائی کی کہانی ’ننھی کی نانی‘ سناتی ہوں۔‘

ان کے مطابق بہت سی کہانیاں ایسی ہیں جن کا مرکزی کردار خاتون ہے اور انھیں کہنے کے لیے اب یہ سمجھا جانے لگا ہے کہ خاتون داستان گو ہی اس سے انصاف کر سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp