شکریہ ٹیم پاکستان جو ہارے تو بھی بازی مات نہیں


جس وقت میں یہ تحریر لکھ رہی ہوں اس وقت تک پاکستان جیت کر بھی ورلڈکپ سے باہر ہوچکا ہے۔ ہاں اب سب پاکستانیوں کی دعا ہے کہ چلو ٹیم انڈیا جو تم نے فکسڈ میچ کھیل کر ہم کو باہر کرنے کی عالمی سازش کی ہے تو اب اس کا اگلا نشانہ تم بنو اور ورلڈکپ تم کو بھی نہ مل سکے۔

پاکستان کی ہار کے ساتھ ہی ٹی وی پر بیٹھے سب ماہرین اپنی اپنی شاندار تقاریر سے لہو گرماتے رہیں گے۔ یوں ہوتا تو یوں ہوجاتا۔ یوں نہ ہوتا تو یوں نہ ہوجاتا۔

ہاں اب یہ الگ بات ہے کہ ان کے ریکارڈز میں کون سا پاکستان کی فتوحات لکھیں ہیں۔ اور جن کے نصیب میں ورلڈ کپ آیا وہ قوم کانصیب فی الوقت تو سیاہی سے لکھنے میں مصروف ہیں۔ اس بات سے تو ہم سب متفق ہیں کہ کرکٹ پاکستانیوں کے لہو میں دوڑتی ہے۔

ملک کے گلی کوچوں میں کھیلنے والے ہر بچے کا خواب ہوتا ہے کہ وہ بڑے ہوکر اپنے لالہ جیسے ہیرو بن کر نہ صرف کرکٹ میں بلکہ ہر اشہتار میں نظر آسکیں۔

آخر لالہ نے بھی تو زیادہ پیسہ اپنی ماڈلنگ سے ہی کمایا ہے۔ جبکہ یہ کرکٹ ہی تو ہے جس نے پاکستان کو کپتان کا تحفہ دیا ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ یہ تحفہ عوام کو صرف دس مہینے میں ہی کتنا مہنگا پڑرہا ہے۔

خیر بات ہورہی تھی کرکٹ کی تو ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ ٹیم پاکستان ہمیشہ صف اول کی ٹیموں میں ہی رہتی تھی۔ مگر پھر جس طرح ملک کے حالات ہچکولے کھاتے رہے تو ہماری ٹیم بھی ایسی ہی ڈوبتی ابھرتی رہی۔ کبھی اپنوں کی سازشیں تو کبھی غیروں کے ستم، کبھی سٹے بازیاں تو کبھی میچ فکسنگ کی کہانیاں۔ کبھی ٹیم میں پرچیاں تو ٹیم کی جان نہ چھوڑنے والے آسیب۔ ہر بڑے ایونٹ سے پہلے کوچ سلیکٹرزاور کرکٹ بورڈ کی کہانیاں اور ساتھ ہی کپتان کی قربانیاں اور کھلاڑیوں کی من مانیاں۔ یہ سیاستیں ہر دور میں اپنے رنگ میں موجود رہیں ہیں۔ سفارشیں، سازشیں اور منافقتیں ان وطیروں نے ٹیم کو ہمیشہ آس و یاس میں ہی رکھا۔ جبکہ ان سب کانتیجہ آج ہمارے سامنے ہے

کرکٹ کی تین اولین ٹیموں میں رہنے والی ٹیم نے وہ وقت بھی دیکھا جب اس کو ٹورنامنٹ میں اپنی جگہ کے لیے کھیلنا پڑا۔ دور آمریت سے دور جہموریت تک پاکستانیوں کا ہر میدان میں بیڑہ غرق ہی ہوا ہے۔

وہاں کرکٹ کا میدان ایسا تھا جہاں سے آنے والی چند خوشخبریاں اس قوم کو کچھ دیر کے لیے دل کا سکون دیتی تھیں۔ مگر اب تو سالوں اس بات کا انتظار رہتا ہے ہے کہ کب ٹیم اچھا پرفارم کرے گی۔ کب تک قوم بھارت سے جیتی ٹرافی کا منجن سنتی رہے؟

جیسا کہ پچھلے دس مہینوں سے قوم بس سن رہی ہے اور سر دھن رہی ہے کہ آپ نے گھبرانا نہیں ہے اور واقعی اب تو سکت بھی نہیں رہی کہ گھبرالیں۔ اب کی بار کی طرح پھر وہی کہانی ہاں بس کچھ کردار الگ جس ٹیم کی ٹیم سلیکشن ہی ورلڈکپ شروع ہونے سے بس دو دن قبل ہو۔

جس ٹیم میں ان فٹ کھلاڑی ایسے کھیلیں جیسے ان کے ریکارڈ تو میانداد اور ٹنڈولکر کو مات دے رہے ہوں۔ جہاں کپتان کی فٹنس ایک سوالیہ نشان ہو۔ ٓ مین بالر ان فٹ ہو وہاں ورلڈکپ کا خواب کھلی آنکھوں یا بند آنکھوں سے تو ممکن نہیں۔ ہاں اور جس ٹیم میں ریلو کٹے ہوں وہ ٹیم ایسا کم بیک کرے یہ بھی بڑی بات ہے۔

اس ٹیم کے بارے میں آخر تک کچھ نہیں کہا جاسکتا جب چاہے جس سے جیتیں چاہے جس سے ہاریں۔ ہاں مگر اس بار اتنا ضرور ہوا کہ اگر مگر کے اور بانوے کے ورلڈکپ کی مماثلتوں دل کو خوب بہلادیا۔

کہنے والوں نے تو یہ بھی کہدیا اچھا ہوا جو خالی ہاتھ ہیں ورنہ کیا پتہ کل کو سرفراز بھی زمین مانگتے مانگتے ہماری زمینیں تنگ کرنے لگ جاتا۔ خیر جو ہوا سو ہوا امید پر دنیا ہے آگے بہت میدان پڑے ہیں مگر ملک کی ذمہ داری کھیل نہیں ہے۔

یہاں کھیلنے والے سلیکٹڈ کھلاڑیوں کو سوچنا ہوگا کہ جب گیم ہاتھ سے نکل جاتا ہے تو پھر وہی ہوتا ہے جو ٹیم پاکستان کے ساتھ ہوا۔ آج جیسا کروگے کل ویسا بھروگے۔ کھیل کو کھیل ہی رہنا چاہیے اپنے کھلاڑیوں کی عزت بھی کرنا ضروری ہے یہ نہیں کہ ان کو گالیاں ہی دیتے رہیں۔ ان کی اچھی کارکردگی بھی یاد رکھیں جیسے آج کل ہر ٹی وی اینکر کپتان کی عوام کو امیدیں دلانے والی تقاریر کے کلپ چلا کر ان کو یاد دلانے کی کوشش میں مصروف ہے کہ آج اور کل کی یوٹرن میں کتنا فرق ہے۔

اسی ٹیم نے اس ورلٖڈکپ میں ذرا ہل چل کی تھی ورنہ تو روکھا پھیکا سا تھا یہ ورلڈکپ وہ کیا خوب کہا ہے فیض صاحب نے
گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).